دنیا جتنی بھی بدلتی چلی جائے‘ حالات جتنے بھی دگرگوں ہو جائیں‘ انسانیت کی راہ نمائی کا منبع اسوۂ رسولﷺ ہی رہے گا۔ جس طرح اللہ کی کتاب غیر مبدل ہے‘ اسی طرح سیرتِ مطہرہ بھی ہر دور کے لیے حرفِ آخر ہے۔ رسول اکرمﷺ جس معاشرے میں مبعوث ہوئے‘ وہ ایک بگڑا ہوا فساد زدہ معاشرہ تھا۔ اللہ رب العالمین نے پوری انسانیت اور بالخصوص عرب کے اس معاشرے کی قسمت بدلنے کا فیصلہ کیا تو اپنے آخری نبیﷺ کی بعثت سے انہیں نوازا۔ آپﷺ اپنے حسب نسب کے لحاظ سے اعلیٰ ترین مقام کے حامل تھے۔ آپﷺ کے بدترین مخالفین بھی آپﷺ کی خاندانی وجاہت کا کبھی انکار نہ کر سکے۔ جس دور میں مخالفتیں اپنے زوروں پر تھیں‘ انہی دنوں قیصر روم کے دربار میں جب آپﷺ کا مکتوب پڑھا گیا تو اس نے سردارِ قریش ابوسفیان کو‘ جو اس زمانے میں شام آئے ہوئے تھے‘ بیت المقدس بلایا اور ان سے سوال و جواب کیے۔ اس مکالمے کی تفصیل احادیث اور تاریخ کی کتب میں محفوظ ہے۔ قیصر روم کا پہلا سوال یہ تھا کہ محمد (ﷺ) کا خاندان اور نسب کیسا ہے؟ ابوسفیان نے جواب دیا: ''شریف وعظیم‘‘۔ اس پر ہرقل نے کہا کہ سچ ہے‘ نبی شریف گھرانے کے سپوت ہوتے ہیں تاکہ ان کی اطاعت میں کسی کو عار نہ ہو۔ (بخاری‘ عن عبداللہ بن عباسؓ)
حضور پاکﷺ بڑے خاندان میں سے ہونے کے باوجود نبوت سے قبل بھی تکبر‘ رعونت اور خشونت سے بالکل پاک تھے۔ کسی انسان کو کبھی حقیر نہ جانا۔ نبوت کے بعد تو آپﷺ کی شان خود قرآن نے یہ بیان کی ہے کہ وہ ''رحمۃ للعالمین ہیں‘‘ (الانبیاء: 107)۔ اللہ نے آپﷺ کو رئوف و رحیم کے عظیم القاب بھی عطا فرمائے ہیں ( التوبہ: 128)۔ آپﷺ نہایت نفیس ذوق کے مالک تھے۔ ناپاکی اور غلاظت سے ہمیشہ دامن بچا کے رکھتے۔ نظافت و پاکیزگی کو آپﷺ نے ایمان کا حصہ قرار دیا۔ جو لوگ ابھی تک تربیت یافتہ نہیں تھے وہ بھی آپﷺ کی مجالس میں آ جایا کرتے تھے۔ یہ بدو لوگ بنیادی انسانی آداب سے بھی بے خبر تھے کجا یہ کہ اسلام کی اعلیٰ اقدار کی پاسداری کر سکتے۔ وہ مسِ خام کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی تربیت وتزکیہ کے لیے کسی مربی ومزکی کی ضرورت تھی جو انہیں پاک کرتا اور کھرے سونے میں ڈھال دیتا۔
بنی نوعِ آدم میں سب سے بڑے مربی محمد عربیﷺ تھے۔ آپﷺ نے جس انداز میں ان لوگوں کی تربیت کی‘ وہ ہر انسان کے لیے اپنے اندر بے شمار دروس پنہاں رکھتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت کتاب الوضوء اور کتاب الادب‘ دونوں میں نقل کی گئی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک بدو مسجد نبوی میں پیشاب کرنے لگا۔ اس کی اس حرکت کو دیکھ کر صحابہ کرام اسے پکڑنے کے لیے دوڑے۔ آنحضورﷺ بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ آپﷺ نے صحابہ کو روکا اور فرمایا: ''اسے چھوڑ دو‘‘۔ جب وہ پیشاب کر چکا تو آپﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ جس جگہ اس نے پیشاب کیا ہے وہاں پانی بہا کر جگہ کو صاف کر دو ''تم امت مسلمہ کے لوگ‘ انسانیت کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی خاطر بھیجے گئے ہو‘ مشکلات پیدا کرنے کے لیے نہیں‘‘۔
سنن ابن ماجہ میں ایک اور واقعہ میں اسی موضوع پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس روایت کے مطابق آنحضورﷺ کی موجودگی میں ایک دیہاتی مسجد نبوی میں داخل ہوا اور اس نے دعا کی: ''اے اللہ مجھے بخش دے اور محمدﷺ کو بھی بخش دے اور ہمارے سوا کسی اور کی مغفرت نہ فرمانا‘‘۔ رسولِ رحمتﷺ اس سادہ لوح امتی کی بات سن کر ہنسے اور فرمایا: ''تو نے وسعتوں کو تنگی میں بدلنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ روایت کے مطابق یہی دیہاتی پھر مجلس سے اٹھا تو مسجد کے آخری کونے پر کھڑا کھڑا پیشاب کرنے لگا۔ جب وہ پیشاب کر چکا تو آپﷺ نے اسے اپنے پاس بلایا‘ شفقت وپیار سے اس کی غلطی اس پر واضح کی۔ پیشاب کرنے کے آداب اور طہارت ونظافت کی اسلامی اقدار کی تعلیم بھی دی اور دعا کے آداب بھی سکھائے۔ آپ دیکھیے! ایک اَن پڑھ دیہاتی‘ جس کا عمل اوپر بیان ہو چکا ہے‘ کیسے عظیم انسان میں ڈھل گیا۔ خود اس کے اپنے الفاظ اس کا مظہر ہیں۔ اس نے اپنی زندگی میں کئی بار کہا: ''میرے ماں باپ اس عظیم شخصیت پر قربان ہوں‘ میری جاہلانہ حرکت دیکھ کر اس شخص نے نہ مجھے جھڑکا نہ ہی بُرا بھلا کہا۔ اس نے میری طرف دست شفقت بڑھایا اور مجھے نہایت مؤثر اندازمیں آداب زندگی سکھائے‘‘۔
ایک اور روایت اسی مضمون سے متعلق ہے جو خادم رسول حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کی اور صحیح مسلم میں باب الطہارۃ میں نقل کی گئی ہے۔ حضرت انسؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بدو مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا تو صحابہ نے دیکھتے ہی اسے ملامت کی اور کہا: ''یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘ آنحضورﷺ بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''اسے نہ روکو‘ اسے پیشاب کرنے دو‘‘۔ وہ فارغ ہوا تو آپﷺ نے اسے بلا کر پیار سے تذکیر فرمائی اور کہا کہ مسجدیں اللہ کے گھر ہیں‘ جو اللہ کے ذکر وعبادت اور قرآن کی تعلیم وقرأت کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ مسجدوں میں پیشاب کرنا اور گندگی پھیلانا درست نہیں۔
آنحضورﷺ نے اپنے اس طرزِ عمل سے اپنی وسعت قلبی کا بھی اظہار کیا لیکن ساتھ ہی حکمت نبوی بھی اس سے نمایاں ہوئی۔ شعبہ طب کے ماہرین کہتے ہیں کہ پیشاب کرتے ہوئے کسی شخص کو اچانک پیشاب روکنے کے لیے کہا جائے تو اس سے بہت سی طبی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ کسی عقل مند آدمی کا یہ قول بھی مشہور ہے کہ پیشاب شدت سے آیا ہو اور کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو تو اسے اتنی دیر بھی نہیں کرنی چاہیے کہ وہ گھوڑے سے نیچے اترے۔ یہ قول دراصل ایک ضرب المثل ہے جس میں اس بات پر زور دینا مقصود ہے کہ پیشاب کی شدت کے وقت اسے روکے رکھنا مناسب نہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ انسان گھوڑے کی زین پر بیٹھا بیٹھا پیشاب کر دے‘ بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اس انتظار میں نہ بیٹھا رہے کہ ابھی تھوڑی دیر میں منزل پر پہنچ جائوں گا تو گھوڑے سے اتر کر پیشاب کروں گا۔
رسول کریمﷺ نے اپنے معاشرے کو اس انداز میں منظم کیا کہ اس میں جسمانی وروحانی پاکیزگی کا بھی مکمل اہتمام ہونے لگا اور ماحولیاتی نفاست بھی اس کی معاشرت کا حصہ بن گئی۔ ماحولیاتی آلودگی اور غلاظت وگندگی حفظانِ صحت کی ہر کاوش کو ناکام بنا دیتی ہے۔ ہم اپنے معاشرے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کی ان تعلیمات کو ہم نے بالکل پس پشت ڈال دیا ہے۔ ان تعلیمات کے مطابق جسم وجان‘ قلب وروح‘ لسان وذہن اور گھروں‘ بازاروں‘ گلیوں کو صاف رکھنا ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اسوۂ رسولﷺ سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ دعوت وتذکیر میں سختی ودرشتی اور غصہ وجھنجلاہٹ نہیں بلکہ نرمی وتحمل‘ ہمدردی وخیر خواہی مؤثر ذرائع ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معاشرتی آداب اور حفظانِ صحت کے اصول وضوابط بھی محض دنیوی ضروریات ہی نہیں بلکہ دینی تعلیمات کا حصہ ہیں۔ ان کا مناسب انداز میں اہتمام اور چرچا کرنا دین ہی کی خدمت ہے۔ (جاری)