سیرتِ مصطفیﷺکی روشنی …(1)

صحابہ کرامؓ میں ایک معروف نام عدی بن حاتم طائی کا ہے جو تاریخِ انسانی کے سب سے بڑے سخی‘ حاتم طائی کے بیٹے تھے۔ ان کا قبولِ اسلام بھی بہت دلچسپ اور ایمان افروز ہے اور آنحضورﷺ کے ساتھ ان کی مجالس و مکالمے بھی عبرت کا مرقع ہیں۔ دنیا میں باطل قوتیں ہمیشہ یہ دعوے کرتی رہی ہیں کہ وہ سُپر ہیں اور لوگ اس کو تسلیم کرتے رہے ہیں‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ سپر طاقت صرف ایک ہے اور وہ اللہ رب العالمین کی ذات ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ قوتیں کیسے سپر ہو سکتی ہیں جن کا اقتدار آج تو اوج پر ہے اور کل وہ فنا کے گھاٹ اترنے والی ہیں۔ اللہ کو قادرِ مطلق ماننے والے کسی مادی قوت کو خاطر میں نہیں لاتے‘ نہ اسے سپر تسلیم کرتے ہیں‘ نہ ہی اس سے مرعوبیت اختیار کرتے ہیں۔ بھلا جو مرعوب ہو گیا وہ کیا مقابلہ کرے گا۔
نبی اکرمﷺ جس ماحول اور معاشرے میں پروان چڑھے وہ پسماندہ اور غربت زدہ تھا۔ اتفاق سے جزیرہ نمائے عرب کے گردوپیش میں جو قوتیں کارفرما تھیں وہ خود کو سپر کہتی تھیں اور دنیا ان کے دعوے کو تسلیم کرتی تھی۔ ہمارے دور میں بھی امتِ مسلمہ نے خود کو بے وقعت‘ کمزور اور شکست خوردہ سمجھ لیا ہے۔ جو قوت مادی وسائل سے مالا مال ہو کر میدان میں کود پڑے‘ اسے سپر پاور مان کر سرِ تسلیم خم کر لیتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے اپنے دور میں قیصر و کسریٰ کو چیلنج بھی کیا اور امت کو یہ خوش خبری بھی سنائی کہ قیصر و کسریٰ مٹ جائیں گے۔
حضرت عدیؓ بن حاتم بیان کرتے ہیں کہ وہ رسولِ عربی سے حد درجہ نفرت کرتے تھے۔ ان کا بیان ہے ''میں نے دینِ عیسائیت اختیار کر لیا تھا اور میں اپنے قبیلے کا سردار تھا۔ میرا مقام بادشاہوں اور حکمرانوں جیسا تھا۔ بنو طے سے مالِ غنیمت کا چوتھا حصہ مجھے ملتا تھا اور اسی پر گزر بسر تھی۔ میں اپنے مذہب کو سچا مذہب گردانتا تھا اور اپنی حکمرانی پر بہت نازاں تھا۔ مجھے کسی قسم کا غم اور فکر نہ تھی۔ وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ کسی نے مجھے محمد بن عبداللہ (ﷺ) کے بارے میں بتایا۔ ان کا نام سنتے ہی مجھے ان سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔ جب مدینہ سے ان کی فوجیں گرد و نواح کے علاقوں میں نکلنے لگیں تو مجھے فکر دامن گیر ہوئی۔ میں نے اپنے ایک غلام سے کہا: ''میرے لیے موٹے تازے تیز رفتار اونٹوں کا گلہ تیار رکھنا۔ جونہی مدینہ کے لشکروں کی خبر پہنچے مجھے فوراً مطلع کر دینا‘‘۔
میری ہدایات کے مطابق اس نے اونٹ تیار کر لیے تھے۔ ایک دن علی الصباح وہ بھاگتا ہوا میرے پاس پہنچا اور کہا: ''محمدﷺ کے لشکروں کی آمد پر تم کچھ کرنا چاہتے تھے‘ سو وہ تو آ گئے ہیں۔ میں نے دور سے کچھ جھنڈے دیکھے اور جب پوچھا تو کسی نے بتایا کہ مسلم افواج ہیں‘ اب جو کرنا ہو کر لیں‘‘۔ میں نے غلام سے کہا: ''میرے اونٹ جلدی حاضر کرو‘‘۔ جب اونٹ آ گئے تو میں نے ضروری سامان لیا اور اہل و عیال کو اونٹوں پر بٹھایا اور شام کی جانب چل دیا۔ میں نے سوچا کہ شام میں میرے ہم مذہب عیسائیوں کی حکومت ہے ان سے جا ملوں گا۔ اس بھگدڑ میں میری بہن سفانہ بنت حاتم پیچھے رہ گئی۔ روانگی کے وقت وہ کہیں کسی ضروری کام سے آگے پیچھے چلی گئی تھی۔ میں بادلِ حزین بہن کو چھوڑ کر شام چلا گیا۔
اسلامی فوج نے بنوطے کو شکست دی اور ان کے مال مویشی پکڑ لیے‘ بہت سی خواتین اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔ اکثر مرد میدانِ جنگ سے بھاگ گئے۔ قیدی مدینہ لائے گئے۔ حضور اکرمﷺ کو میرے شام کی طرف بھاگ جانے کی اطلاع مل گئی تھی۔ بنوطے کے قیدیوں کو مسجد کے قریب ایک احاطے میں رکھا گیا۔ میری بہن بھی ان کے ساتھ قید تھی۔ ایک دن رسول پاکﷺ وہاں سے گزرے تو میری بہن کھڑی ہو گئی۔ وہ بڑی جرأت مند اور فصیح زبان خاتون تھی۔ اس نے کہا: ''اے اللہ کے رسولﷺ! میرا باپ فوت ہو گیا اور سرپرست بچھڑ گیا ہے۔ آپﷺ مجھ پر احسان فرمائیں‘ اللہ آپ پر احسان فرمائے گا‘‘۔ آپﷺ نے پوچھا: ''تیرا سرپرست کون ہے‘‘؟ اس نے جواب دیا: ''عدی بن حاتم‘‘۔ رسول پاکﷺ نے پوچھا: ''کیا وہی جو اللہ اور اس کے رسولﷺ سے دور بھاگتا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر آپﷺ چلے گئے۔ دوسرے روز پھر نبی پاکﷺ قیدیوں کے پاس سے گزرے۔ پھر بنتِ حاتم نے ان سے وہی بات کہی جو پہلے دن کہہ چکی تھی۔ آپﷺ نے بھی اپنا وہی جواب دہرایا۔ بنت حاتم کہتی ہیں: ''جب تیسرا دن ہوا اور آپﷺ قیدیوں کے پاس آئے تو میں مایوس ہو چکی تھی مگر حضورِ پاکﷺ کے پیچھے پیچھے ایک شخص چلا آ رہا تھا۔ اس نے مجھے اشارے سے سمجھایا کہ میں اپنا معاملہ پیش کروں۔ چنانچہ میں ہمت پا کر اُٹھ کھڑی ہوئی اور اپنی درخواست دہرائی۔ میری درخواست سن کر آپﷺ نے فرمایا: ''میں نے تم پر احسان کیا اور تمہیں آزادی دے دی ہے مگر جلدی نہ کرنا۔ یہاں انتظار کرو‘ یہاں تک کہ تمہاری قوم کا کوئی معتمد آدمی یا قافلہ ادھر سے گزرے‘ پھر ان کے ساتھ چلی جانا۔ جانے سے پہلے مجھے اطلاع دے دینا‘‘۔
روایات میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ بنت حاتم نے آنحضورﷺ سے عرض کیا کہ وہ کیسے آزاد ہو سکتی ہے جب تک اس کے خاندان کی تمام خواتین اور بچے بھی آزاد نہ کر دیے جائیں؛ چنانچہ آپﷺ نے تمام قیدیوں کو آزاد فرما دیا۔ پھر فرمایا کہ آپﷺ ان تمام افراد کو بحفاظت ان کے گھروں تک پہنچائیں گے۔ بنت حاتم کا بیان ہے کہ ''روانگی کے وقت آپﷺ نے مجھے کپڑے عطا فرمائے۔ سواری دی اور زادِ راہ دے کر عزت و تکریم سے رخصت فرمایا۔ میں ایک کاروان کے ساتھ شام چلی گئی‘‘۔
عدی کہتے ہیں: ''خدا کی قسم میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ شام میں مقیم تھا مگر سخت پریشان تھا۔ دھیان اپنی بہن کی طرف رہتا تھا۔ پتا نہیں اس پر کیا بیت رہی ہو گی۔ ایک روز میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ سامنے سے ایک قافلہ نظر آیا۔ ایک اونٹ پر محمل میں کوئی پردہ نشین سوار تھی۔ وہ قافلہ ہماری جانب بڑھتا چلا آیا۔ میں نے دل میں کہا: یہ حاتم کی بیٹی چلی آ رہی ہے۔ جب وہ پاس پہنچی تو وہی تھی‘‘۔ میرے پاس پہنچتے ہی اس نے مجھے ملامت کرنا شروع کر دی۔ ''قطع رحمی کرنے والے‘ ظالم! تُو نے اپنے بال بچوں کو اپنے ساتھ سوار کر کے فرار کی راہ اختیار کر لی اور اپنے باپ کی بیٹی اور اس کی عزت کو چھوڑ آیا‘‘۔ میں خود بہت نادم تھا۔ میں نے کہا: ''میری پیاری بہن! تم نے جو کچھ کہا سچ ہے‘ میں کوئی عذر پیش نہیں کرتا۔ اب مجھے معاف کر دے اور کوئی بددعا نہ دینا‘‘۔ پھر وہ سواری سے اتری اور میرے پاس مقیم ہو گئی۔ وہ بڑی عقلمند خاتون تھی۔ میں نے اس سے پوچھا: ''تم نے اس شخص کو کیسا پایا؟ اور اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ''میری رائے یہ ہے کہ تم فوراً ان کی خدمت میں حاضر ہو جاؤ۔ اگر وہ واقعتاً اللہ کے نبی ہیں تو ان کی جانب جلدی جانا باعثِ فضیلت ہے اور اگر بادشاہ ہیں تو وہ لوگوں کی قدر کرنا جانتے ہیں۔ ان کے ہاں عزت والوں کو ذلیل نہیں کیا جاتا اور تمہارا مقام و مرتبہ تو ظاہر و باہر ہے‘‘۔
میں نے اس رائے کو صائب جانا اور پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے مدینہ کی جانب چل دیا۔ مدینہ پہنچا تو حضورِ پاکﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ میں نے سلام کیا۔ آپﷺ نے پوچھا: ''کون ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ''عدی بن حاتم طائی‘‘۔ آپﷺ نے میرا پُرجوش استقبال کیا اور مجھے اپنے گھر لے گئے۔ گھر جاتے ہوئے راستے میں ایک بدحال کمزور بڑھیا نے انہیں روک لیا۔ آپﷺ دیر تک اس کی باتیں سنتے رہے اور وہ اپنی مشکلات اور ضروریات کا ذکر کرتی رہی۔(جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں