حضور نبی کریمﷺ کی حدیث ہے: آسانیاں پیدا کیا کرو مشکلات نہیں‘ خوشخبری سنایا کرو‘ نفرتیں پیدا نہ کیا کرو۔ (صحیح بخاری)۔ حقیقت یہ ہے کہ نرم گفتاری و شیریں کلامی جس طرح دِلوں کو جیت سکتی ہے اس کی کوئی اور مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ آغازِ اسلام میں جب تک لوگوں کی تربیت نہیں ہوئی تھی‘ لوگوں میں بہت سے عیوب پائے جاتے تھے لیکن آپﷺ نے پیار ومحبت سے ان کی برُی عادات کو اچھی صفات میں تبدیل کر دیا‘ اچھائی اور خوبی کے سانچوں میں ڈھالا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ معاشرہ بالکل بدل گیا۔سیرت اور احادیث کی کتابوں میں ایک واقعے کا تذکرہ ملتا ہے کہ ایک مرتبہ آپﷺ کی مجلس میں ایک نوجوان نے ایک نہایت نازیبا بات کہی۔ آنحضورﷺ کے سامنے اس نے کہا کہ وہ زِنا نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ قبیح بات سن کر صحابہ کرام بہت غصے میں آ گئے لیکن آنحضورﷺ نے غصہ کرنے کے بجائے نہایت حکمت کے ساتھ اس نوجوان کی سوچ کا دھارا موڑ دیا۔ آپﷺ نے اسے اپنے قریب بلایا اور نرمی کے ساتھ پوچھا: کیا تمہاری ماں اور بہن ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپﷺ نے پوچھا: اگر کوئی دوسرا شخص تمہاری ماں یا بہن‘ بیٹی‘ پھوپھی یا خالہ کے ساتھ یہ عمل کرے تو کیا تم اسے پسند کرو گے؟ اس نے کہا: ہرگز نہیں۔ آپﷺ نے نرمی سے اسے سمجھایا کہ جس طرح تم اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ کسی کو یہ عمل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے‘ اسی طرح دوسرے لوگ بھی اپنی خواتین کے ساتھ بدکاری برداشت نہیں کر سکتے۔ آپﷺ کی اس حکیمانہ تذکیر کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ پکار اٹھا: ''یا رسول اللہﷺ! میری سمجھ میں بات آ گئی ہے اور اب میں یہ قبیح حرکت کبھی نہیں کروں گا‘‘۔ (بحوالہ مسند احمد‘ عن حضرت ابوامامہؓ)
آنحضورﷺ کی یہ گفتگو اپنی جگہ نرمی اور حلم پر مبنی ہے‘ مگر اس کے اندر ایک تادیب و فہمائش بھی موجود ہے۔ مخاطب نوجوان یقینا ایک بار اندر سے ہل گیا ہوگا۔ ایک نہایت قابلِ نفرت بات کرنے پر آنحضورﷺ نے اسے جس طرح متوجہ ومتنبہ کیا وہ خاصا مؤثر اور آنکھیں کھول دینے والا انداز ہے۔ مذکورہ بالا روایت کے مطابق نبی رحمتﷺ نے اس نوجوان کے لیے دعا فرمائی: اے اللہ اس نوجوان کی مغفرت فرما دے‘ اس کے دل کو پاک کر دے اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما۔
نبی اکرمﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ باعث خیر وبرکت اور درسِ تزکیہ وتربیت ہے۔ فتح مکہ کے بعد آنحضورﷺ کو بنو ہوازن اور بنوثقیف کے مقابلے پر جانا پڑا۔ اس معرکے کو جنگ حنین بھی کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں آپﷺ کے ساتھ اسلام میں داخل ہونے والے نومسلم بھی بڑی تعداد میں شریک تھے۔ یہ جنگ مشکل ترین جنگوں میں شمار ہوتی ہے۔ سورۃ التوبہ میں خود اللہ نے بھی مسلمانوں کو اس کی شدت کا احساس دلایا ہے۔ ''اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے‘ ابھی غزوہ حنین کے روز (اس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو) اُس روز تمہیں اپنی کثرتِ تعداد کا غرہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے‘‘۔(آیات: 25 تا 26)
بڑی کٹھن جنگ کے بعد آنحضورﷺ کو فتح ملی۔ بہت سا مالِ غنیمت ہاتھ آیا اور جنگی قیدی بھی۔ ان جنگی قیدیوں میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آنحضورﷺ پر سفر طائف میں پتھر برسائے تھے لیکن یہاں عجیب ایمان افروز واقعات رونما ہوئے۔ طائف کے کچھ بزرگ شکست کے بعد آنحضورﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور اپنے قیدیوں کی رہائی کی بات کی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں اور میرے انصار ومہاجرین صحابہ تو آسانی سے قیدیوں کو چھوڑ سکتے ہیں مگر میرے ساتھ لشکر میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو حال ہی میں مسلمان ہوئے ہیں بلکہ بعض تو ابھی تک مسلمان بھی نہیں ہوئے۔ اس لیے مناسب یہ ہے کہ تم لوگ کل نمازِ فجر کے بعد مجمع عام میں اپنی درخواست پیش کرو۔ آنحضورﷺ حکمران بھی تھے مگر پیغمبر ہونے کے ناتے اول وآخر مربی بھی تھے۔
اگلے روز جب ان لوگوں نے آکر اپنی درخواست پیش کی تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں اپنے اور بنو عبدالمطلب کے قیدیوں کو بلامعاوضہ رہا کرتا ہوں۔ انصار ومہاجرین نے یہ سنا تو انہوں نے بھی اپنے قیدیوں کو بلا معاوضہ آزاد کر دیا۔ بنوسلیم اور بنو فزارہ نے اپنے حصے کے قیدیوں کو رہا نہ کیا تو آنحضورﷺ نے ہر قیدی کے بدلے چھ اونٹ ان کو اپنی طرف سے عطا فرمائے۔ انہی قیدیوں میں آنحضورﷺ کی رضاعی بہن شیما بنت حارث سعدیہ بھی تھیں‘ آنحضورﷺ ان کے ساتھ بہت عزت وتکریم سے پیش آئے۔ آپﷺ نے اپنی رضاعی بہن کے لیے چادر بچھا دی اور کہا: ''میری پیاری بہن! تشریف فرمائیے‘‘۔
جب مالِ غنیمت تقسیم ہونے کا موقع آیا تو آنحضورﷺ نے انصار کو کچھ نہ دیا۔ مہاجرین کو بھی بہت کم دیا اور بڑا حصہ ان لوگوں کو عطا کر دیا جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ اس پر بعض انصار صحابہ کے دلوں میں کچھ ملال پیدا ہوا تو آنحضورﷺ نے ان سے نہایت رقت آمیز لہجے میں خطاب فرمایا جو تربیت کا بہترین نمونہ ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ آپﷺ نے کہا کہ انصار شرک وبت پرستی میں مبتلا تھے۔ آپﷺ کے ذریعے اللہ نے انہیں ہدایت کی روشنی عطا فرمائی‘ جس کا کوئی بدل دنیا میں نہیں ہو سکتا۔ ساتھ ہی آپﷺ نے ان کی قربانی اور عظیم کارناموں کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے انصار! تمہارا بھی یہ کمال ہے کہ جب مجھے میرے شہر سے نکالا گیا اور دنیا میں کہیں میرے لیے سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی تو تم نے اپنے دل اور شہر کے دروازے میرے لیے کھول دیے۔ میرا اور تمہارا تعلق بہت گہرا ہے۔ کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ آج لوگ تو اپنے ساتھ مال ودولت لے جائیں اور تم اپنے ساتھ اللہ کے رسول کو لے جاؤ۔ اس موقع پر انصار صحابہ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور انہوں نے آپﷺ کی تقسیم کو خوش دلی سے قبول کیا۔ ان واقعات کی تفصیل تاریخ طبری‘ طبقات ابن سعد اور صحیح بخاری میں ملتی ہے۔ (بحوالہ سیرت النبیﷺ: از شبلی نعمانی‘ جلد اول)
ہماری تاریخ عظیم اور ایمان پرور واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم مغرب کی ذہنی غلامی میں مبتلا اور جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری سے مرعوب ہیں۔ ہم اخلاق وکردار کی پستی میں گر چکے ہیں۔ ہمارے مسلم معاشرے کے اندر مغربی تہذیب کی خرابیاں جڑ پکڑ رہی ہیں۔ روشن خیالی کے نام پر ہر طرح کی بے حیائی‘ فحاشی اور عریانی کو ثقافت کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح پاکیزگی وطہارت بھی ہمارے معاشرے سے رخصت ہو چکی ہے۔ ہمارا پورا ماحول غلاظت اور گندگی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے کی ہمہ گیر اصلاح کرنے کے لیے تذکیر وتعلیم کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے آنحضورﷺ کی تعلیمات سے بہتر کوئی ذریعۂ وعظ وتذکیر نہیں ہو سکتا۔
اگر ہر گھر میں بچوں اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو سیرتِ طیبہ کی روشنی فراہم ہونے لگے تو ہمارا معاشرہ روحانی وقلبی اور ظاہری وجسمانی ہر لحاظ سے بہت بہتر تصویر پیش کر سکتا ہے۔ تربیت کا عمل بڑا جامع ہے۔ یہ محنت طلب بھی ہے اور صبر آزما بھی۔ مربی کو بہت وسیع النظر ہونا چاہیے اور پھر خود اس عمل کی بہترین مثال بن جانا چاہیے جسے معاشرے میں اجاگر کرنا مطلوب ہے۔ آج کا نوجوان مکالمہ کرنا چاہتا ہے۔ مکالمہ اچھے انداز میں ہو تو بڑے تعمیری نتائج نکل سکتے ہیں۔ قابلِ اعتراض سوالات پر ناک بھوں چڑھانے کے بجائے سنجیدگی وحکمت کے ساتھ ان سے عہدہ برآ ہونا وقت کا تقاضا اور دین کا مطالبہ ہے۔ یہی پیغامِ سیرتِ مصطفیﷺ ہے۔