"DRA" (space) message & send to 7575

امریکہ‘ بھارت تعلقات کا پس منظر… (2)

امریکہ اور بھارت کے دوطرفہ تعلقات اور علاقائی مسائل پر یکساں اپروچ کے ارتقا میں اضافے کا جو سلسلہ آج سے 20 برس قبل بھارت کے کانگریسی وزیراعظم منموہن سنگھ کے دور میں شروع ہوا تھا‘ وہ بی جے پی حکومت کے وزیراعظم نریندر مودی کے گزشتہ دس سال کے دورِ اقتدار میں اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے۔ نریندر مودی کے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا وہ اس کا ثبوت ہے۔ تبصرہ کاروں کے مطابق بھارتی وزیراعظم امریکی صدر سے جو حاصل کرنا چاہتے تھے‘ وہ انہوں نے حاصل کر لیا۔ جنوبی ایشیا خصوصاً امریکہ بھارت تعلقات پر مشہور تبصرہ کار اشلین ٹیلس (Ashlyn Telles) کے مطابق وزیراعظم مودی کا بنیادی مقصد امریکی صدر ٹرمپ کو یہ باور کرانا تھا کہ بھارت اس خطے میں امریکہ کا سب سے اہم پارٹنر ہے اور وہ اس میں کامیاب رہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے بھارت کو نہ صرف تجارت‘ سرمایہ کاری‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ مصنوعی ذہانت‘ سائبر ٹیکنالوجی‘ خلائی تحقیق‘ یونیورسٹیوں اور اکیڈیمک اداروں کے درمیان رابطہ کاری (linkage) اور عوامی سطح پر روابط کے شعبوں میں تعاون کا یقین دلایا گیا بلکہ دفاعی شعبے میں بھارت کو ایسے حساس معاملات میں شراکت کاری اور مشترکہ پروڈکشن کی پیشکش کی گئی جس کا ٹرمپ سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مثلاً صدر ٹرمپ نے بھارت کو امریکہ کا جدید ترین لڑاکا طیارہ ایف 35 فروخت کرنے کی پیشکش کی۔ اس کے ساتھ بھارت کو دیگر ہتھیار مثلاً اینٹی گائیڈڈ میزائل فروخت کرنے کا مقصد بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت میں امریکہ کے 50 ارب ڈالر کے خسارے کو کم کرنا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس پیشکش میں مشترکہ پروڈکشن اور ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کے امکانات بھی شامل ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ بھارت کے ساتھ ایک طویل المیعاد سٹرٹیجک پارٹنرشپ کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ چین کے بڑھتے ہوئے علاقائی (خصوصاً بحر ہند سے بحر الکاہل تک کے خطے میں) اثر ورسوخ کے آگے بند باندھنے کی امریکی کوشش ہے اور دوسری وجہ اس پورے خطے میں بالادستی حاصل کرنے کی بھارت کی دیرینہ خواہش ہے۔
ٹرمپ حکومت کی خارجہ پالیسی میں اس مشن کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مارکو روبیو نے سیکرٹری آف سٹیٹ کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد جس گروپ سے سب سے پہلے باضابطہ ملاقات کی‘ وہ کواڈ ممالک (جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت) کے وزرائے خارجہ پر مشتمل تھا۔ دوسری جانب وزیراعظم مودی ان شخصیات میں شامل ہیں جن سے صدر ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے ایک ماہ کے اندر ملاقات کی۔ ان دونوں کی ملاقات کے مشترکہ اعلامیے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ مودی کی قیادت میں بھارت کو انڈو پیسفک خطے میں چین کے بڑھتے اثر ورسوخ کو روکنے کیلئے ایک طاقتور اتحادی کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشترکہ اعلامیہ میں صدر ٹرمپ نے نہ صرف بحر ہند بلکہ بحیرۂ عرب میں بھی بھارتی بحریہ کی طاقت میں اضافے کے ساتھ اس خطے میں چین کے بحری جہازوں کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کیلئے ضروری ہتھیار مہیا کرنے کا وعدہ کیا۔ مشترکہ اعلامیے میں اس کا اعلان کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ بھارت کو چھ اضافی پی81 پٹرول ایئر کرافٹ فروخت کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ بھارتی بحریہ کی استعداد میں اضافہ کرنے کیلئے امریکہ نے بھارت کو سکائی ہاک طیارے بھی فروخت کیے‘ جنہیں بھارتی بحریہ کا باقاعدہ حصہ بنایا جا چکا۔ امریکہ کی طرف سے بھارت‘ مڈل ایسٹ اور یورپ کو ایک اقتصادی راہداری کے ذریعے آپس میں جوڑنے کے منصوبے کی بھی حمایت کی گئی اور انڈو پیسفک خطے میں بھارت کے کردار کو اجاگر کرنے کیلئے کواڈ کی اگلی سربراہی کانفرنس نئی دہلی میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ امریکہ نے بھارت کی دفاعی صلاحیت اور امریکہ کے ساتھ شراکت کاری کے میدان میں جو اعلانات کیے ہیں‘ وہ حیران کن ہیں کیونکہ اس سے قبل امریکہ نے بھارت کی حمایت میں ایسے اقدامات کا کبھی عندیہ بھی نہیں دیا تھا۔ مثلاً اس اعلامیہ میں دونوں ملکوں نے اعلان کیا کہ ان کے فوجی دستوں کو قومی سرحدوں سے باہر سمندر پار علاقوں میں تعینات کیا جا سکتا ہے‘ وہاں وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہ صرف قدرتی آفات اور انسانی ہمدردی سے متعلقہ کارروائیوں میں حصہ لے سکتے ہیں بلکہ دفاعی نوعیت کے آپریشنز میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکہ بھارت کے ساتھ ایک میجر ڈیفنس پارٹنر شپ کیلئے دس سالہ معاہدہ اسی سال کرے گا۔ اس کے علاوہ عسکری‘ اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک نئے انیشی ایٹو کا آغاز کیا جا رہا۔
مشترکہ اعلامیہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری مدت کی خارجہ پالیسی میں ایشیا اور بحر الکاہل کے خطوں میں چینی اثر ورسوخ کے آگے بند باندھنے کو اولین ترجیح دے رہے ہیں اور اس مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے بھارت کو پوری طرح ساتھ ملایا جائے گا۔ اسی لیے امریکہ کی طرف سے بھارت کی عسکری اور معاشی صلاحیت میں نمایاں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایسے موقع پر کیا جا رہا جب چین نے بھارت کے ساتھ سرحد پر کشیدگی کم کرنے کیلئے متعدد غیر متوقع اقدامات کیے ہیں۔ اس کے باوجود بھارت کی طرف سے اعلانیہ طور پر چین مخالف اتحاد ''کواڈ‘‘ میں شمولیت اور امریکی جنگی مشقوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ٹرمپ مودی مشترکہ اعلامیہ پر چین خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتا۔ اس لیے صدر ٹرمپ کی نئی مدت کے دوران چین‘ بھارت سرحد پر موجود خاموشی کسی کشیدگی بلکہ ایک نئے تصادم کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ باعثِ تشویش صدر ٹرمپ کی طرف سے جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک کے مفادات اور خدشات کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کا رویہ ہے۔ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں جب صدر ٹرمپ سے بنگلہ دیش کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اس کے جواب میں امریکی حکومت کے مؤقف کو بیان کرنے کے بجائے اپنے ساتھ کھڑے بھارتی مہمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم مودی اس کو ہینڈل کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ وہ اس سے بہتر نتائج حاصل کر لیں گے۔ اسی طرح مشترکہ اعلامیہ میں جس طرح بھارت میں دہشت گردی کا مرتکب پاکستان کو قرار دے کر آئندہ کارروائیوں کی روک تھام کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی گئی‘ وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف ایک اہم پارٹنر تسلیم کر چکا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف پوری دنیا کرتی ہے۔ متعدد عالمی فورمز پر پاکستانی حکام کی جانب سے یہ باور کرایا جا چکا کہ پاکستان دہشتگردی سے متاثرہ ملک ہے اور اسے روکنا عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں جنوبی ایشیائی ممالک کے احساسات کو نظر انداز کر کے جس طرح بھارت کی عسکری اور معاشی قوت میں اضافہ کرنے کیلئے یکطرفہ اقدامات کا اعلان کیا گیا ان سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ نے جنوبی ایشیا سمیت اس پورے خطے کو بھارت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے بھارت کو اپنا قریبی اتحادی بنانے کے اعلان کے بعد خطے کے چھوٹے ممالک ردعمل کے طور پر چین کے ساتھ مزید قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور امریکہ بھارت منصوبوں کے برعکس نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ جنوب مشرقی ایشیا میں بھی چین کیلئے خیر سگالی میں مزید اضافہ ہوگا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں