آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے والے عناصر سے پوری قوت سے نمٹا جائے گا۔ اس موقع پر آرمی چیف کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں تمام ادارے مکمل تعاون کو یقینی بنائیں‘ پاکستان میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے پنجاب میں ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن کمیٹیوں کے قیام کو سراہا۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ کسی کو بھی بلوچستان کے امن کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کانفرنس میں شامل دیگر شرکا نے کہا کہ غیر ملکی گٹھ جوڑ اور انتشار پھیلانے کی کوششیں بے نقاب ہو چکی ہیں اور ایسے عناصر کو کسی قسم کی معافی نہیں دی جائے گی۔ حکومتِ بلوچستان نے صوبے کے مختلف اضلاع میں حکومتی رِٹ کی کمزوری کا اعتراف کر لیا ہے۔ اس کا اندازہ چھ سے سات اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کے اس تحریری حکم سے ہوتا ہے جن میں پبلک ٹرانسپورٹ پر رات کے وقت سفری پابندی عائد کی گئی۔ اس احکامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ رات کے اوقات میں بلوچستان میں قومی شاہراہوں پر سفر خطرے سے خالی نہیں رہا اور ان پر مسلح افراد کا کنٹرول ہے۔ اطلاعات ہیں کہ بلوچستان میں بیشتر قومی شاہراہوں پر گشت کرنے والی پولیس کی حفاظتی ٹیمیں شام ہوتے ہی غائب ہو جاتی ہیں اور چند ایک کے سوا تمام حفاظتی چیک پوسٹیں خالی نظر آتی ہیں۔ قبل ازیں ان ابتر حالات کے باوجود صوبائی حکومت سیاسی محفلوں اور اپنے بیانات میں حکومت کی مضبوط رِٹ کے دعوے کرتی دکھائی دیتی تھی لیکن عملی طور پر عوام رات کو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سفر کرتے تھے۔ اطلاعات ہیں کہ شدت پسند عناصر اتنے دیدہ دلیر ہو چکے ہیں کہ جب چاہیں پبلک ٹرانسپورٹ کو روک کر مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کرنے لگتے ہیں۔ اسی لیے اب کچھ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے عوام کے تحفظ کے پیشِ نظر شام کے بعد سفر پر پابندی عائد کر دی ہے تاکہ لوگوں کو محفوظ رکھا جا سکے اور انتظامیہ کو بدنامی سے بچایا جا سکے۔ ان اقدامات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ شام ڈھلتے ہی صوبے میں حکومت کی رِٹ کو شدید چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔ حکومتی اعلان سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان کی شاہراہیں مسافروں کے لیے شام ڈھلنے کے بعد بالکل غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔ شام کے بعد ان سڑکوں پر پولیس اور لیویز کے حفاظتی دستے بھی خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام اور ٹرانسپورٹرز اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر نہ صرف قومی شاہراہوں بلکہ کچے راستوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ مسلح افراد بلوچستان کی سڑکوں پر صرف اُنہی مسافروں کو نقصان پہنچاتے ہیں جن کے پاس بلوچستان کا ڈومیسائل نہیں ہوتا یا جن گاڑیوں میں سرکاری اہلکار سوار ہوتے ہیں‘ ان کو نشانہ بناتے ہیں۔ علاوہ ازیں بلوچستان سے معدنیات لے جانے والی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ کچھ واقعات میں مقامی مسافروں سے لوٹ مار کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں جن کو ڈکیتی کی وارداتوں سے جوڑا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سکیورٹی فورسز کی طرف سے صوبے میں قیام امن کی کوششوں کے باوجود سیاسی حکومتوں کی عدم توجہی کے باعث امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہیں‘ صوبائی اور وفاقی حکومت کو اس ضمن میں اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔
امن و امان کی صورتحال سے ہٹ کر اگر سیاسی صورتحال کی بات کی جائے تو عمران خان اس وقت ایک ایسا ہَوَّا بن چکے ہیں جنہیں سیاستدانوں کو ڈرانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جنرل باجوہ نے اُس وقت کی اپوزیشن کو ڈرایا کہ خان اقتدار میں رہا تو وہ اپنی پسند کا اگلا آرمی چیف مقرر کر کے اگلے عام انتخابات بھی واضح اکثریت سے جیت جائے گا۔ یوں تمام اپوزیشن مقتدرہ کے کہنے پر عمران خان کے خلاف متحد ہو گئی۔ آج بھی اگر حکومت میں شامل جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر نظر آتی ہیں تو اس کی واحد وجہ خان کا خوف ہے۔مقامی منظر نامے سے ہٹ کر اگر عالمی منظر نامے پر عمران خان کے 'خوف‘ سے فائدہ اٹھانے کی بات جائے تو چند روز قبل جو امریکی کانگریس میں پاکستان ڈیمو کریسی ایکٹ نامی بل پیش کیا گیا ہے اس کا مقصد عمران خان کی رہائی نہیں بلکہ امریکی مفادات کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈالنا ہے۔ امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ عمران خان رہا ہوں اور اگر رہائی ہو بھی گئی تو انہیں صرف اپوزیشن لیڈر کی پوزیشن تک ہی محدود رکھا جائے گا تاکہ موجودہ سیٹ اَپ سے اپنے مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ تحریک انصاف کی قیادت بھی عمران خان کی رہائی کی خواہشمند نہیں۔ ان کے مفادات تب تک محفوظ ہیں جب تک خان صاحب جیل میں ہیں۔ سوشل میڈیا پر متحرک پی ٹی آئی کے حامی بھی ان حالات کا خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جب بھی خان صاحب کی فیملی یا وکلا میں سے کسی کی جیل میں ان سے ملاقات ہوتی ہے‘ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا حامیوں کو نئی ڈوزمل جاتی ہے۔ اگر ایک ہفتے کے لیے عمران خان کی کوئی خبر نہ آئے تو سوشل میڈیا والوں کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ عمران خان کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے‘ ان کا حکومت میں آنا ممکن نہیں لگتا۔ یہ حمایت انہیں اُس وقت تک ہی حاصل ہے جب تک وہ جیل میں ہیں‘ وہ کسی سمجھوتے کے تحت جیل سے باہر آئیں گے تو یہ عوامی حمایت تحلیل جائے گی۔
اگر امریکہ کی طرف سے پاکستان پر عائد کردہ ٹیرف کے بعد پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کی بات کریں تو ان مشکلات سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو نئی معاشی منڈیوں کی ضرورت ہے۔ جب نئی معاشی منڈیوں اور مواقع کی بات ہو رہی ہے تو کیوں نہ اپنے ہمسایہ ممالک کی طرف بھی تھوڑی توجہ کی جائے۔ اگر پاکستان بھارت اور مشرقِ وسطیٰ کو پاکستان کے راستے تجارت کی اجازت دیتا ہے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان اس تجارتی راہداری سے سالانہ تیس ارب ڈالرتک کما سکتا ہے۔ اسی طرح اگر گوادر کی بندرگاہ کو جلد از جلد مکمل طور پر فعال کرتے ہوئے چین کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ کو بھی اس بندرگاہ تک آسان رسائی فراہم کی جائے تو اس بندرگاہ سے سالانہ اربوں ڈالر کمائے جا سکتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ مذہبی سیاحت کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ہندوؤں کے متعدد مقدس مقامات موجود ہیں‘ اگرچہ اب بھی ہندو زائرین پاکستان آتے ہیں لیکن یہ تعداد بہت محدود ہے‘ اگر ہندو زائرین کی تعداد بڑھا کر لاکھوں میں کی جائے تو ملک میں مذہبی سیاحت کو فروغ ملے گا جس سے زرِمبادلہ حاصل ہوگا۔ اسی طرح انڈیا کے ساتھ زرعی اجناس کی تجارت سے بھی زرِ مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ اس طرف بھی توجہ دی جانی چاہیے۔