24 رمضان المبارک کو آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی والدہ محترمہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔ دکھ کی اس گھڑی میں پوری قوم کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ والدہ کی وفات کے بعد جنرل عاصم منیر ان کی بے لوث محبت اور دعاؤں سے محروم ہو گئے ہیں۔ جون 1964ء میں جب فیلڈ مارشل ایوب خان کی والدہ کا انتقال ہوا تو تدفین کے موقع پر انہوں نے یہ جملے کہے تھے کہ ان کی والدہ ان کی مشکلات میں ہمیشہ ان کے لیے دعا کرتی تھیں‘ لیکن والدہ کی وفات کے بعد وہ ان کی دعاؤں سے محروم ہو گئے ہیں۔ شنید ہے کہ جب صدر پرویز مشرف کے خلاف آصف علی زرداری اور نواز شریف نے پارلیمنٹ میں مواخذے کی تحریک شروع کی تو پرویز مشرف نے اس نازک وقت پر اپنی والدہ سے مشورہ کیا۔ والدہ نے انہیں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو کھانے پر مدعو کرنے اور ان سے رائے لینے کا مشورہ دیا؛ چنانچہ صدر مشرف نے جنرل کیانی کو کھانے پر مدعو کیا جنہوں نے انہیں اقتدار چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ بالآخر 18 اگست 2008ء کو صدر مشرف نے قوم سے خطاب میں اقتدار چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنی والدہ سے بے حد متاثر تھے‘ جو نسبتاً ایک غریب راجپوت گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ شاید یہ ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ کی تربیت ہی تھی جس نے انہیں غریب عوام کے ساتھ کھڑا کیا۔
اگر سیاسی معاملات کی بات کریں تو وفاقی حکومت نے تحریک انصاف کو مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کی غرض سے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ثالثی کی پیشکش قبول کر لی ہے اور حکومت نے بات چیت کی ذمہ داری بلاول بھٹو کو سونپ دی ہے۔ بلاول نے اپنی اس سیاسی چال سے جہاں حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے وہیں عمران خان کے لیے بھی اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا آسان نہیں رہا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پنجاب کے صوبائی وزرا نے بلاول کی اس قومی مفاہمت کی کوششوں کا مذاق اڑایا ہے جبکہ وفاقی وزرا نے اسے خوش آئند قرار دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایک مدبر سیاستدان کے طور پر عمران خان کے لیے ثالث بننے کی پیشکش کر کے حکومت کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری عمران خان سے ملاقات کریں اور ان کے ساتھ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ عمران خان کا بنیادی مطالبہ فارم 45 اور 47 کا تنازع ہے‘ جس کے حل کے لیے الیکشن ایکٹ میں بنیادی ترامیم اور ایک اعلیٰ سطحی کمیشن کا قیام ناگزیر ہو گا۔ اس عمل میں کم از کم تین ماہ درکار ہوں گے۔
عمران خان اس وقت عدالت کی طرف سے سزا یافتہ ہیں اور پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کا معاملہ بھی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ ان عدالتی فیصلوں سے قطع نظر بلاول اور عمران خان کو ایسے فارمولے پر متفق ہونا ہو گا جس سے انتخابی تنازعات کا کوئی حل نکل سکے۔ممکنہ طور پر بلاول بھٹو زرداری کی ٹیم میں فاروق ایچ نائیک اور شیری رحمان شامل ہوں گے جبکہ عمران خان کے ساتھ حامد خان اور دیگر لوگ ہوں گے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کا آغاز ہونے پر کوئی درمیانی راستہ نکل سکتا ہے‘ لیکن لیگی وزرا کو اس معاملے سے دور رکھنا ہو گا۔ صدر آصف علی زرداری بھی کوئی درمیانی راستہ نکالنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر بلاول اور عمران خان کے مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو اس کا بلاول کی سیاست پر گہرا اثر پڑے گا۔ لیکن اگر وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور کسی نکتے پر اتفاقِ رائے کر لیتے ہیں تو حکومت کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
2014ء کے دھرنے سے قبل اسحاق ڈار اور جہانگیر ترین کے درمیان ایک معاہدہ طے پا چکا تھا جس کے بعد عمران خان کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے مطالبات میں سے نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ نکال دیں لیکن خان نے دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اس تجویز کو رد کر دیا اور جا کر اسلام آباد میں دھرنا دے دیا۔ اس کے نتیجے میں ملک میں جو سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا‘ وہ آج تک نہیں تھم سکا۔
بلاول اور عمران خان کے مذاکرات کے بعد ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ فریقین میں بعض ایسی شرائط پر اتفاقِ رائے ہو جائے جنہیں حکومت تسلیم نہیں کرتی۔ اس صورت میں پیپلز پارٹی اپنی حمایت واپس لے کر شہباز حکومت کو گرانے کی کوشش کر سکتی ہے۔ اگر ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوئی تو حکومت کے خاتمے میں چنداں دیر نہیں لگے گی۔ اگر پیپلز پارٹی حکومت سے علیحدہ ہو گئی تو صدر آصف علی زرداری آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی ثالثی محض بیانات اور میڈیا کوریج تک محدود رہے کیونکہ عمران خان کسی ایسے رہنما کی ثالثی قبول نہیں کریں گے جس کی پارلیمانی حیثیت واضح نہ ہو۔ اس تناظر میں مولانا فضل الرحمن ثالثی کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کی عمران خان سے ملاقات بھی متوقع ہے۔ اگر مولانا فضل الرحمن عمران خان کو کسی ایسے فارمولے پر قائل کر لیتے ہیں جو مقتدرہ کے لیے قابلِ قبول ہو تو مفاہمت کی راہ نکل سکتی ہے۔ اس نوعیت کا ایک فارمولا 1988ء میں بینظیر بھٹو اور جنرل حمید گل کے مابین طے پایا تھا جس کے تحت صدر غلام اسحاق خان اقتدار بینظیر بھٹو کو سونپنے پر آمادہ ہوئے تھے۔
سیاست سے ہٹ کر اگر ملک کو درپیش مسائل کی بات کریں تو اس وقت دہشت گردی کا عفریت بے قابو ہو چکا ہے اور حالات روز بروز سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ بالخصوص بلوچستان میں حالات قابو سے بالکل باہر نظر آتے ہیں۔ وہاں کی بیورو کریسی‘ عدلیہ اور انتظامیہ وفاقی حکومت سے اس طرح لاتعلق ہو چکی ہے جس طرح 1971ء میں بنگال میں انتظامیہ حکومت کے بس میں نہیں تھی۔ تاہم بنگال اور بلوچستان کے جغرافیائی حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے لگ بھگ ہزار کلومیٹر دور تھا جبکہ بھارت نے ایک منظم منصوبے کے تحت فضائی راستہ استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کر رکھی تھی۔ زمینی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں جن مشکلات کا سامنا وہاں کرنا پڑا‘ بلوچستان میں ایسا نہیں ہے۔ یحییٰ خان کی ناقص حکمت عملی اور ذوالفقار علی بھٹو کی اقتدار کی شدید خواہش نے مشرقی پاکستان میں تباہی مچا دی تھی۔ بلوچستان کے حالات اس نہج پر نہیں ہیں مگر یہ تشویشناک ضرور ہیں اور سب کو ان پر متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔
اُدھر امریکی کانگریس میں عمران خان کی رہائی اور شفاف انتخابات کے لیے جو قرارداد پیش کی گئی ہے بین الاقوامی قوانین کے مطابق اس قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں۔ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے۔ اگر کانگریس میں یہ قرارداد منظور ہو بھی جاتی ہے تو امریکی صدر اسے مسترد کر سکتا ہے۔