"KDC" (space) message & send to 7575

دہشت گردی اور عبوری سیٹ اَپ

وادیٔ بولان میں جعفر ایکسپریس پر بی ایل اے کے حالیہ حملے کے بعد دہشت گردی کے ناسور کو کچلنے کے لیے 18مارچ کو قومی اسمبلی میں قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اِن کیمرہ اجلاس منعقد ہوا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا اس اجلاس سے خطاب کے دوران گورننس کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمیں گورننس بہتر کرنے اور مملکت پاکستان کو ایک ہارڈسٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے‘ ہم کب تک ایک سافٹ سٹیٹ کی طرز پر بے پناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے‘ گورننس کے خلا کو کب تک افواجِ پاکستان اور شہدا کے خون سے بھرتے رہیں گے۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ ملک کی سلامتی سے بڑا کوئی ایجنڈا نہیں‘ کوئی تحریک نہیں‘ کوئی شخصیت نہیں۔ پائیدار استحکام کے لیے قومی طاقت کے تمام عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہو گا‘ یہ ہماری اور ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ ہے۔اس موقع پر آرمی چیف نے علما سے بھی یہ درخواست کی کہ وہ خوارج کی طرف سے اسلام کی مسخ شدہ تشریح کا پردہ چاک کریں۔ اگر آرمی چیف کے خطاب کا زمینی حقائق کے مطابق تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ موجودہ ملکی حالات قومی اتفاقِ رائے کے متقاضی ہیں لیکن ملکی منظر نامے پر کوئی ایسی سیاسی شخصیت نظر نہیں آتی جو تمام سٹیک ہولڈرز کو ملک دشمن عناصر کے خلاف متحد کر سکے۔ قومیں ہمیشہ مشکل وقت میں ہی بنتی ہیں۔ جب دشمن حملہ کرے تو قومیں اپنی فوج اور سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہیں نہ کہ ان پر تنقید کرتی ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو اپنی فورسز کی حوصلہ شکنی کر کے مضبوط ہوا ہو۔ اگر ہماری سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف جنگ نہ لڑیں تو ریاست کو کون بچائے گا۔ یہ وقت سیاسی یا نظریاتی اختلافات کا نہیں بلکہ اتحاد کا ہے۔ مگر افسوس کہ نہ صرف اپوزیشن اراکین بلکہ بعض وفاقی وزرا بھی سابق فوجی حکمرانوں پر تنقید کرکے سکیورٹی فورسز کی حوصلہ شکنی کی کوشش کر رہے ہیں۔
قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خطاب سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انتہائی سنجیدہ ہیں لیکن افسوس کہ سیاسی جماعتوں میں وہ سنجیدگی نظر نہیں آتی جو وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اگرچہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کا اعلان کیا گیا‘ یہاں تک کہ افغانستان کے اندر کارروائیاں کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا جو کہ دہشت گردوں کی پسپائی کے لیے بہت ضروری ہو چکا ہے لیکن جب دہشت گردی کے خلاف کسی فوجی آپریشن کی بات ہوتی ہے تو مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ ایسے آپریشنز کے لیے ضروری ہے کہ عوام اور تمام سیاسی جماعتوں افواجِ پاکستان کی پشت پر کھڑی ہوں تاکہ دہشت گردوں کو یہ پیغام جا سکے کہ پوری قوم اُن کے خلاف متحد ہو چکی ہے مگر افسوس کہ ہمارے ملک کی بعض سیاسی جماعتیں قومی اہمیت کے اس معاملے میں بھی ذاتی مفادات کو آگے رکھتی ہیں۔
اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور حزبِ اختلاف کو ساتھ لے کر چلنا بھی حکومت کا کام ہے۔ افسوس کہ موجودہ حکومت اور اس کے وزرا بھی قومی سلامتی کے معاملات کو مسلسل پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ ایک وفاقی وزیر آج بھی یہی ڈھول پیٹ رہاہے کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی میں صدر ایوب خان کا ہاتھ تھا‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں شدت پسندی کے خاتمے کیلئے کئی آپریشن ہو چکے ہیں۔ پہلا بڑا آپریشن 1948ء‘ دوسرا 1958ء‘ تیسرا 1962ء‘ چوتھا 1973ء اور پانچواں 2005ء میں ہوا۔ یعنی ایوب خان کے دور سے پہلے بلوچستان میں دو آپریشنز ہو چکے تھے۔ دوسری جانب رواں صدی کے گزشتہ عشرے میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے متعدد آپریشن ہو ئے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے باوجود وہاں دہشت گردی اور شدت پسندی ختم نہیں ہو سکی۔ اب ایک نئے آپریشن کی تیاریوں کی شنید ہے؛ اگرچہ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری کا کہنا ہے کہ کوئی نیا آپریشن نہیں ہونے جا رہا مگر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی سیاسی جماعتیں مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ موجودہ حکومت شاید یہ بھول گئی ہے کہ ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کے سب سے بڑے حامی نواز شریف ہی تھے۔ انہوں نے ہی 2013ء میں اقتدار میں آنے کے فوراً بعد کراچی میں آپریشن کا اعلان کیا تھا اور ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات شروع کیے تھے‘ یہ نواز شریف کی ایک مثبت سوچ تھی۔ میاں نواز شریف میں یہ صلاحیت ہمیشہ سے موجود ہے کہ وہ مرکز گریز قوتوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکہ کو نواز شریف کا ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کا عمل پسند نہیں آیا تو حکیم اللہ مسعود کو‘ جو اس وقت ٹی ٹی پی کا سربراہ تھا‘ ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا‘ جس سے یہ مذاکرات پسِ پشت چلے گئے۔ جب مارچ 2014ء میں دوبارہ مذاکرات شروع ہوئے تو ٹی ٹی پی کے اندر کچھ گروہوں نے اسکی مخالفت کر دی۔ فرضی ناموں سے تنظیمیں کھڑی کر کے ریاست پر حملے شروع کر دیے گئے جبکہ اس وقت ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کر رکھی تھی۔ ان حملوں کے بعد راولپنڈی اور اسلام آباد میں یہ تاثر پختہ ہو گیا کہ ٹی ٹی پی کیساتھ مذاکرات کسی صورت کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اسی بنیاد پر آپریشن ضربِ عضب کا آغاز ہوا۔
اس وقت ایک طرف ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور دوسری طرف قومی اتفاقِ رائے کا فقدان ہے‘ ان حالات کے تناظر میں قومی اتفاقِ رائے کی تشکیل کے لیے ایک عبوری سیٹ اَپ تشکیل دینا چاہیے‘ ملک کی قد آور شخصیات میں سے کسی کو بھی‘ جس پر کسی سیاسی جماعت کو کوئی اعتراض نہ ہو اس کا سربراہ مقرر کر دیا جائے تاکہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر دہشت گردی کے عفریت کے خلاف متحد ہو سکیں۔ موجودہ حکومت میں دم خم نظر نہیں آتا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنے مخالفین کو ساتھ ہی بٹھا سکے‘ اس لیے عبوری حکومت وقت کی ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔عبوری وزیراعظم اپنی سربراہی میں بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں اختر مینگل‘ محمود خان اچکزئی‘ ڈاکٹر عبدالمالک میں سے کسی کو بھی آگے لا سکتا ہے۔ ''بلوچستان ہمارا ہے‘‘ کا نعرہ لگانے والے دہشت گردوں اور انتشاری ٹولے کو بھی پتا ہے کہ وہ ''بلوچستان ہمارا ہے‘‘ کا شور تو بہت مچاتے ہیں لیکن ان کے عملی اقدامات ان کے اس نعرے اور دعوے کی منافی کرتے ہیں۔ یا تو انہیں بلوچستان کی تاریخ کا پتا نہیں یا وہ جان بوجھ کر حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں کہ اگر اصل حقیقت عوام کے سامنے آ گئی تو ان کا یہ بیانیہ فلاپ ہو جائے گا اور سارا بلوچستان ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہو گا۔ آئیے آپ کو بلوچستان کی مختصر تاریخ بتاتے ہیں‘ تفصیل پھر کسی وقت سہی۔
قیام پاکستان سے پہلے بلوچستان چار شاہی ریاستوں پر مشتمل تھا؛ قلات‘ لسبیلہ‘ خاران اور مکران۔ ان چار شاہی ریاستوں کے علاوہ کوئٹہ‘ سبی‘ چاغی‘ لورالائی‘ ژوب اور قبائلی علاقوں پر مشتمل ایک برٹش بلوچستان تھا۔ اس کا ایک چیف کمشنر ہوتا تھا۔ بلوچستان صرف بلوچی بولنے والوں کا نہیں بلکہ یہ پشتو‘ براہوی اور سرائیکی بولنے والوں کا بھی صوبہ ہے۔ گوادر تو قیامِ پاکستان کے وقت عمان کا حصہ تھا جسے کافی عرصہ بعد حکومتِ پاکستان نے عمان سے خریدا تھا اور پھر بلوچستان میں شامل کر دیا تھا۔لہٰذا بلوچستان میں شدت پسندی کو ہوا دینے والے کس بلوچستان کی بات کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کالعدم مجید بریگیڈ اور بی ایل اے جیسی تنظیمیں صرف دشمن کی ہدایات اور ڈالر کی چمک سے چلتی ہیں۔ ان تنظیموں کا بلوچستان اور وہاں کے عوام سے کچھ لینا دینا نہیں۔ انہیں چاہیے کہ اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں ورنہ ان کا بھی وہی حشر ہوگا جو اس سے قبل ایسی دہشت گرد تنظیموں کا ہو چکا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں