"KDC" (space) message & send to 7575

نئے صوبوں کی ضرورت

ملک عزیز کے داخلی حالات کی بات کریں تو اس وقت بلوچستان اور خیبرپختونخوا شدت پسندوں کے نشانے پر ہیں۔سکیورٹی اداروں کی کارروائی کے نتیجے میں یہ عناصر کچھ وقت کے لیے پسپائی اختیار کرنے کے بعد پھر سے اپنی مذموم کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ ان صوبوں کے دور اُفتادہ علاقوں کے لوگوں کی محرومیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان دور اُفتادہ اور بنیادی سہولتوں سے محروم علاقوں کا انفراسٹرکچر بہتر کر اور وہاں بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بناکر بھی ان شدت پسندوں کی حمایت ختم کی جا سکتی اور انہیں شکست دی جا سکتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ملک میں نئے صوبوں کا قیام ریاست کے مفاد میں ہے۔
ایک وقت تھا کہ ون یونٹ کو ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر خیال کیا جاتا تھا لیکن پھر جنرل یحییٰ خان ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کے دباؤ کی وجہ سے ون یونٹ کو ختم کرکے پانچ صوبوں کا قیام عمل میں لائے۔ قبل ازیں صدر ایوب خان مارچ 1969ء کو گول میز کانفرنس میں متحدہ اپوزیشن کا نئے صوبوں کا مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر چکے تھے۔ ان کا مؤقف تھا کہ ون یونٹ کو ختم کیا جائے گا تو قومی وحدت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ نوابزادہ نصراللہ خان بھی ون یونٹ کے حامی تھے۔ وہ مشرقی پاکستان کی سیاسی صورت حال اور شیخ مجیب الرحمن کے مکروہ عزائم سے باخبر تھے‘ لیکن پھر جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاء آرڈر کے تحت ون یونٹ ختم کر دیا۔ کاش وہ اُس وقت مشرقی پاکستان میں دو صوبے بنا دیتے تو مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی سیاسی طاقت ختم ہو جاتی۔ خیر جب پانچ جولائی 1977ء کو جب جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھالا تو ملک کے ممتاز دانشوروں ظفرانصاری اور مجیب الرحمن شامی نے ملک میں سات صوبوں کی تشکیل کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس لیے حوالے سے ظفرانصاری صاحب نے ایک جامع رپورٹ بھی تیار کی تھی لیکن اُس وقت جنرل ضیا الحق کو چار گروہ گھیرے ہوئے تھے جس کے سرگروہ جنرل جیلانی تھے۔ انہوں نے جنرل ضیاالحق کو نئے صوبوں کے قیام کی طرف متوجہ نہ ہونے دیا۔ جنرل جیلانی‘ جنرل کے ایم عارف‘ میجر جنرل عبداللہ اور چند ایک سیاسی رہنماؤں نے ملک میں نئے صوبوں کے قیام کی سخت مخالفت کی جس کی وجہ سے جنرل ضیا الحق ملک میں مزید صوبے تشکیل دینے میں ناکام رہے اور ملک عدم سیاسی استحکام کا شکار رہا۔ نواب اکبر بگتی‘ سردار عطااللہ خان مینگل اور نواب خیر بخش مری نے بھی ملک میں نئے صوبے بنانے کی شدید مخالفت کی تھی جبکہ پیر پگاڑا سندھ میں بھٹو کی مقبولیت ختم کرنے کیلئے مزید صوبے بنانے کے حامی تھے۔ ایم کیو ایم نے بھی اس حوالے سے جنرل ضیا الحق کیلئے کافی مشکلات پیدا کیں ۔
12 اکتوبر 1999ء کی جنرل پرویز مشرف نے اپنی پہلی تقریر میں ملک کی بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے ملک میں سات صوبے بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ غالباً جنرل تنویر نقوی نے اس تجویز کو حکومت کے روڈ میپ کا حصہ بھی بنا لیا تھا لیکن جنرل تنویر نقوی نے نئے صوبوں کے قیام کی تجویز سے پہلے ملک میں لوکل گورنمنٹ سسٹم بحال کرانے کیلئے کام شروع کر دیا۔ انہوں نے ملک بھر میں ناظمین کو بااختیار بنا دیا اور ڈویژنز ختم کر دیے۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم کی بحالی میں دانیال عزیز نے جنرل تنویر نقوی کے دستِ راست کا کردار ادا کیا۔اُس لوکل گورنمنٹ سسٹم کیلئے قانون سازی بالخصوص آئین کے آرٹیکل (A)141 کی تیاری کیلئے چیف الیکشن کمشنر جسٹس عبدالقدیر چوہدری نے مجھے نامزد کیا تھا۔ اس لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تحت ملک میں انتخابات کا سلسلہ 31 دسمبر 2000ء سے شروع ہوا اور اگست 2001ء تک مکمل ہوا۔ مقامی حکومتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد جولائی 2006ء میں دوبارہ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات ہوئے ‘ لیکن فروری 2008ء میں ملک میں عام انتخابات کے انعقاد اور ستمبر 2008ء آصف علی زرداری کے صدر منتخب ہونے کے بعد لوکل گورنمنٹ سسٹم کو لپیٹ دیا گیا۔بعد ازاں 2015ء میں ملک میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوئے لیکن مقامی حکومت کے نمائندگان کو اختیار تفویض نہ کیے گئے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کی روشنی میں 2017ء میں پنجاب میں لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کرائے گئے جسے نومبر 2018ء میں پی ٹی آئی حکومت نے غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر کالعدم قرار دے کر مقامی حکومتوں کا خاتمہ کر دیا جس کے بعد آج تک پنجاب میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہو سکے۔ الیکشن کمیشن کی کوششوں سے خیبر پختونخوا‘ بلوچستان اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کروا دیے گئے ہیں لیکن پنجاب میں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ابھی تک نہیں ہو سکے ہیں۔
ملک میں نئے صوبوں کا قیام اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ موجودہ صوبے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں جس کی وجہ سے انتظامی امور خوش اسلوبی سے انجام دینا بہت مشکل ہے۔ بلوچستان کا رقبہ دنیا کے 172ممالک سے زیادہ ہے۔ آبادی کی بات کریں صرف پنجاب کی آبادی کئی ملکوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔سندھ اور خیبرپختونخوا کی بھی یہی صورتحال ہے۔ یہاں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ وہی ملک پُرسکون‘ خوشحال اور محفوظ رہتے ہیں جہاں اختیارات اور وسائل کو مرکز میں جمع کرنے کے بجائے صوبائی یونٹس کو بااختیار اور مضبوط بنایا جائے‘ عوام کی محرومیوں میں کمی کی جائے اور لوگوں میں سینس آف اونرشپ یعنی مالک ہونے کا احساس اور اعتماد پیدا کیا جائے۔ اس لیے نئے صوبائی یونٹ بنانے میں ذرا تامل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر ایک نیا صوبہ بنا دیا تو پھر اور بھی بنانے پڑیں گے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ نئے صوبوں کا مطالبہ جہاں سے کیا جا رہا ہے‘ وہ کس حد تک درست اور وزنی ہے۔
ملک میں بڑھتے انتظامی مسائل اور بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بڑھتی شدت پسندی کے پیشِ نظر نئے صوبے بنانے کی ضرورت ہے۔اس وقت ملک میں 15سے زائد صوبے بنانے کی گنجائش ہے۔ بھارت میں اس وقت 28 صوبے (ریاستیں) ہیں۔ بھارتی آئین میں نئے صوبے بنانے کا طریقہ بڑا ہی آسان ہے۔ بھارت میں یہ کام حلقہ بندی کمیشن کی ذمہ داری ہے جو الیکشن کمیشن آف انڈیا سے علیحدہ ایک خود مختار کمیشن ہے۔ بھارت میں صوبائی حکومت کے ارکان حلقہ بندی کمیشن میں جا کر نیاصوبہ بنانے کی تجویز دیتے ہیں۔کمیشن یہ جائزہ لیتا ہے کہ اس سے کیا فوائد حاصل ہوں گے‘ اس پر غور وخوض کرنے کے بعد کمیشن مرکز کو اپنی سفارشات بھیجتا ہے اگر وہ یہ سمجھیں کہ اس کی واقعی ضرورت ہے تو نیا صوبہ تشکیل پاتا ہے۔مگر پاکستان میں یہ ایک مشکل ترین مرحلہ ہے جو آج تک طے نہیں کیا جا سکا۔پاکستان کی بات کریں تو یہاں ہر ڈویژن کو صوبہ بنانا تو مشکل ہو گا لیکن اگر یہ معاملہ مرحلہ وار طے کیا جائے تو کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے۔ اگر ملک میں 15صوبے بنا کر عوام کو بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں‘ انہیں گڈ گورننس کا عملی ثبوت پیش کیا جائے تو عوام کو مزید صوبوں سے بھی انکار نہیں ہو گا۔ ملک میں نئے صوبوں کے قیام کیلئے قانون سازی کرنے کیلئے آئین کے آرٹیکل ایک‘ 51 اور 106 میں ترامیم کرنا ہو گی جس کیلئے دو تہائی اکثریت کی شرط ختم کر کے سادہ اکثریت کا فارمولہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم کو مضبوط بنانے کیلئے پرویز مشرف کے متعارف کرائے نظام کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ دانیال عزیز نے اس سسٹم پر بہت کام کیا تھا۔
میاں عامر محمود صاحب کی ملک میں نئے صوبے بنانے کی سوچ خوش آئند ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے ایک تفصیلی کانسپٹ پیپربھی تیار کیا ہے جس سے نئے صوبوں کی تشکیل کے ضمن میں رہنمائی لی جا سکتی ہے۔ بہر حال انتظامی مسائل کی دلدل سے نکلنے کے لیے ملک میں کم از کم 15صوبوں کا قیام بہت ضروری ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں