وزیراعظم شہباز شریف نے چند روزقبل سیلاب کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے منعقدہ ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میںکہا تھا کہ ملک میں سیلابوں کے تباہ کن اثرات کو کم کرنے اور جانی و معاشی تحفظ کیلئے مزید آبی ذخائر کی فوری تعمیر ضروری ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے فوری کام شروع کرنے کی ہدایت کی ۔ نئے ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر کیلئے وسائل سے متعلق انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ وسائل خود پیدا کرنا ہوں گے۔وزیراعظم شہباز شریف کا ملک میں نئے آبی ذخائر کی تعمیر پر زور بظاہر درست امر ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک کو اس وقت کالا باغ ڈیم کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ڈیم ملکی معیشت‘ زراعت اور توانائی کے مستقبل کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی اور تیزی سے کم ہوتے ہوئے آبی وسائل اس بات کے متقاضی ہیں کہ فوری طور پر ایسے منصوبے شروع کیے جائیں جو پانی کے ذخائر میں اضافہ کر سکیں۔ کالا باغ ڈیم نہ صرف دریائے سندھ کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ ملک کی زرعی پیداوار کو کئی گنا تک بڑھا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس ڈیم کی تکمیل سے وہ لاکھوں ملین ایکڑ فٹ پانی بھی بچایا جا سکے گا جو ہر سال آبی ذخائر کی قلت کے باعث سمندر برد ہو جاتا ہے۔ توانائی کے شعبے میں بھی کالا باغ ڈیم اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس منصوبے سے سستی اور ماحول دوست بجلی پیدا ہوگی جو نہ صرف توانائی کے بحران کو کم کرے گی بلکہ درآمدی ایندھن پر انحصار بھی گھٹا دے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیم کی تعمیر سے سیلابی صورتحال پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی اور لاکھوں ایکڑ اراضی کو سیراب کیا جا سکے گا‘لیکن سیاسی اختلافات اور صوبائی تعصبات کی وجہ سے یہ منصوبہ دہائیوں سے التوا کا شکار ہے۔سندھ اور خیبر پختونخوا میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ یہ ڈیم بننے کے بعد ان کے حصے کا پانی کم ہو جائے گا۔ بلوچستان کو بھی اندیشہ ہے کہ اس کے آبی حقوق متاثر ہوں گے۔ یہ خدشات برسوں سے اس منصوبے کے خلاف بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قومی سطح پر اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہو سکا۔اگر قومی مفاد کو ذاتی یا علاقائی مفادات پر ترجیح دی جائے تو کالا باغ ڈیم پاکستان کو زرعی و معاشی خودکفالت کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔ وقت کی ضرورت یہی ہے کہ اس ڈیم کے حوالے سے اب عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ آنے والی نسلوں کو پانی اور توانائی کے بحران سے محفوظ رکھا جا سکے۔اس مقصد کیلئے ایک طاقتور اور فعال کمیشن قائم کیا جائے جو فوری طور پر اس منصوبے پر عمل درآمد شروع کرے۔ اس راہ میں ایک اور بڑی رکاوٹ بیوروکریسی اور حکمران طبقات کی بے عملی ہے۔ سیاسی جماعتیں ڈیم کے معاملے کو انتخابی نعرہ تو بناتی ہیں لیکن عملی اقدامات سے گریز کرتی ہیں۔ اگر اتفاقِ رائے اور شفاف منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھا جائے تو کالا باغ ڈیم کی راہ میں حائل سبھی مشکلات دور ہو سکتی ہیں اور یہ منصوبہ حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو ملک میں آنیوالے حالیہ سیلاب کی بڑی وجہ اگرچہ موسمیاتی تبدیلیاں ہیں‘ لیکن قدرتی آبی گزرگاہوں اور سیوریج نالوں پر قائم کی جانے والی تجاوزات کی وجہ سے جانی و مالی نقصان کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا عوامی تحفظ کیلئے آبی گزرگاہوں میں تجاوزات کا خاتمہ نہایت ضروری ہے۔ جب دریاؤں کے بیڈ میں تعمیرات ہو جاتی ہیں تو پانی کے قدرتی راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معمولی بارش بھی سیلابی صورت اختیار کر لیتی ہے‘ کھیت کھلیان تباہ ہو جاتے اور بستیاں ڈوب جاتی ہیں۔لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر ایسی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف سخت کارروائی کرے‘ ان تعمیرات کیلئے این او سی جاری کرنیوالوں کا محاسبہ کرے اور آبی گزرگاہوں کو انکی اصل حالت میں بحال کرے۔ یہ اقدام نہ صرف مستقبل کے سیلابی نقصانات سے بچائے گا بلکہ ماحولیاتی توازن اور زرعی پیداوار کے تحفظ کی ضمانت بھی فراہم کرے گا۔
اُدھر تحریک انصاف نے اپنے اراکین اسمبلی کے استعفوں کے باعث خالی ہونے والی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کا جو بائیکاٹ کیا ہے اس کا ایک مقصد یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ یہ دیکھا جا سکے کہ عوام مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے امیدواروںکو ووٹ ڈالنے کیلئے گھروں سے نکلتے ہیں یا نہیں۔ اس سے ایک تو عوامی رجحان سامنے آ جائے گا‘ دوسرا اگر عوام کی عدم دلچسپی کے باعث ووٹنگ ٹرن آؤٹ کم رہا تو پی ٹی آئی کی جانب سے یہ تاثر بیانیہ تشکیل دیا جا سکتا ہے کہ حکومت عوامی تائید کھو چکی ہے۔ اور اگر ٹرن آؤٹ کسی طرح زیادہ رہا تو پھر الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھایا جائے گا۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سیلابی صورتحال کے باعث الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبہ پنجاب سے قومی اسمبلی کے پانچ اور صوبائی اسمبلی کے چار حلقوں میں ہونیوالے ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا دوسرا سیاسی اور تاریخی پہلو یہ ہے کہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو بھرپور حصہ لینا چاہتی تھیں‘ جس پر جنرل ضیا الحق‘ جنرل رفاقت‘ جنرل اختر عبدالرحمن اور بیوروکریسی سخت پریشانی میں مبتلا تھی۔ جنرل غلام جیلانی اس حوالے سے سیاسی جماعتوں سے رابطوں میں تھے۔ اس ساری صورتحال میں سب سے اہم کردار جنرل راؤ فرمان علی تھے جو میرے قریبی عزیز تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں کو جنرل جیلانی نے ورغلا لیا تھا۔ ان میں خواجہ خیرالدین‘ غلام مصطفی جتوئی‘ مولانا کوثر نیازی اور جنوبی پنجاب کی وہ شخصیات شامل تھیں جو محترمہ کے قریب سمجھی جاتی تھیں۔ بعدازاں جب ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی رہائش گاہ پر اجلاس ہوا تو اکثریت نے بینظیر بھٹو کو قائل کر لیا کہ انتخابات کا بائیکاٹ کر کے جنرل ضیا الحق پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جائے۔ یوں جنرل ضیا الحق کی حکمت عملی کامیاب ہو گئی اور بینظیر بھٹو کے بائیکاٹ کے اس فیصلے نے ان شخصیات کیلئے راہ ہموار کر دی جو یونین کونسل کے الیکشن میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتی تھیں۔ درحقیقت 1985ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کی سوچ مہاتما گاندھی کے طرزِ سیاست سے مشابہت رکھتی تھی۔ گاندھی جب بھی یہ محسوس کرتے تھے کہ برطانوی پالیسی سے آل انڈیا مسلم لیگ کو فائدہ ہو رہا ہے تو وہ اجلاسوں کا بائیکاٹ کر دیتے تھے۔ لہٰذا جن سیاسی رہنماؤں پر ذاتی سوچ غالب آ جائے وہ سیاست میں ناکام ہو جاتے ہیں جبکہ اجتماعی سوچ رکھنے والے کامیاب رہتے ہیں۔ پاکستان کا اصل المیہ یہی ہے کہ یہاں ذاتی سوچ اجتماعی سوچ پر حاوی ہے۔ نتیجتاً ملک اوپر سے نیچے تک تباہی کی لپیٹ میں ہے۔ اس تباہی کی بنیادی وجوہات کرپشن‘ نااہلی اور خودغرضی ہیں۔ اس کا حقیقی حل قائداعظم کی سوچ اور لائحہ عمل پر عمل پیرا ہونا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ 27ویں آئینی ترمیم پر زور و شور سے کام جاری ہے۔ اس ممکنہ ترمیم کے ذریعے آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل کیا جانیوالا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آئین کے آرٹیکل 239 میں ترمیم کر کے نئے صوبے بنانے کے اختیارات وفاق کو منتقل ہو جائیں گے۔ بھارت میں بھی 1953ء میں ''سٹیٹس ری آرگنائزیشن کمیشن‘‘ بنایا گیا تھا جس کی تفصیلی رپورٹ کے بعد بھارت میں نئے صوبے یا ریاستیں بنانے کے اختیارات مرکز کو دے دیے گئے۔ بعد ازاں ''سٹیٹس ری آرگنائزیشن ایکٹ 1956ء ‘‘ بھی نافذ کر دیا گیا۔ پچھلے 78 برسوں میں بھارت انتظامی ضرورت کے مطابق اپنے صوبوں میں اضافہ کر تا رہا ہے۔ تقسیم ہندوستان کے وقت بھارت کے نوصوبے تھے لیکن آج بھارت میں 28 ریاستیں اور آٹھ یونین ٹیرٹریز ہیں۔ یہی اصول اگر پاکستان میں بھی آرٹیکل 239 کے تحت اپنا لیا جائے تو صوبوں کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ملک کے موجودہ حالات بھی نئے صوبوں کے قیام کے متقاضی ہیں۔ میں نے ان حلقوں میں‘ جو اس حوالے سے تحقیق کر رہے ہیں‘ ایک ایسا پلان پیش کیا ہے جس سے نہ قومی اسمبلی کی نشستیں متاثر ہوں گی اور نہ ہی جغرافیائی حدود میں کوئی تبدیلی آئے گی۔