مسلم ہیرو احمد الاحمد

جب گولیاں تڑا تڑ برس رہی ہوں‘ لوگ جانیں بچانے کیلئے بھاگ رہے ہوں‘ زخمی مدد کیلئے چیخ و پکار کر رہے ہوں‘ لاشیں ساحل پر پڑی ہوں اور حملہ آوروں کے قریب جانے کی کوئی ہمت نہ کر رہا ہو‘ ایسے میں ایک شخص آگے بڑھے اور حملہ آوروں کو للکارے اور جان پر کھیل کر خالی ہاتھ ایک حملہ آور سے گتھم گتھا ہو جائے اور اس کے ہاتھ سے بندوق چھین کر دور پھینک دے تو یقینا یہ شخص ایک بہادر ہیرو ہی کہلائے گا۔ یہ ہیرو ایک مسلمان احمد الاحمد ہے جس نے سڈنی کے بونڈائی ساحل پر موجود حملہ آوروں کو للکارا اور ان میں سے ایک کو دبوچ لیا۔
14 دسمبر‘ اتوار کے روز آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے ساحلی مقام بونڈائی پر کم و بیش دو ہزار یہودی مرد و زن اپنا تہوار حنوکا منا رہے تھے۔ اس وقت وہاں شام کے تقریباً ساڑھے چھ بجے تھے۔ دہشت گردوں نے 15 افراد کو ہلاک کیا جبکہ 40 کے قریب زخمی ہوئے۔ شامی نژاد آسٹریلین احمد الاحمد اگر جرأتِ رندانہ سے کام نہ لیتا تو مزید کئی افراد لقمۂ اجل بن جاتے۔ وہ احمد الاحمد جو 14دسمبر سے پہلے ایک عام آسٹریلوی شہری تھا‘ چند گھنٹوں میں گلوبل ہیرو بن گیا۔ ایک حملہ آور کو دبوچ لینے کے دوران اس کے بازو اور کندھے پر پانچ گولیاں لگیں مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور اس وقت تک ڈٹا رہا کہ جب تک سکیورٹی فورسز وہاں پہنچ نہ گئیں۔ اس موقع کی کچھ لوگوں نے جو وڈیو بنائی وہ دنیا بھر میں وائرل ہو گئی۔ بعد ازاں آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے ہسپتال جا کر احمد کی عیادت کی اور اس کی شجاعت و بہادری کو سراہا۔ اسی طرح نیو ساؤتھ ویلز کے پریمیئرکرس مینز نے ہسپتال جا کر احمد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ ہمارے حقیقی زندگی کے ہیرو ہیں۔ ان کا اشارہ واضح تھا کہ فلمی ہیرو تو بہت پھرتے ہیں مگر حقیقی زندگی کے ہیرو بہت کم ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس حقیقی مسلم ہیرو کے کارنامے کی تعریف کی۔ آسٹریلیا کے انسانیت نواز لوگوں نے احمد کے علاج اور اس خاندان کی دیکھ بھال کیلئے ایک فنڈ قائم کیا ہے جس میں کئی ملین آسٹریلوی ڈالر جمع ہو چکے ہیں۔
ایک طرف یہ ہو رہا تھا تو دوسری طرف فوری طور پر حملہ آور باپ بیٹے کا تعلق پاکستان سے جوڑنے اور اسلاموفوبیا کا تاثر پھیلانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ امریکی انٹیلی جنس نے بھی یہ دعویٰ کر دیا کہ 24سالہ نوید اکرم اور اس کے والد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اسی دعوے کی بنیاد پر امریکی چینل این بی سی نے بھی یہ خبر چلا دی کہ حملہ آور باپ بیٹا پاکستانی نژاد تھے۔ اسی بے بنیاد خبر کا حوالہ دے کر اسرائیلی‘ بھارتی اور افغان میڈیا نے پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ ہمیں تین چار روز پہلے سکاٹ لینڈ سے ڈاکٹر طارق شیخ نے ''سچا تجزیہ‘‘ نامی ایک مغربی تھنک ٹینک کی جاری کردہ وڈیو ارسال کی تھی۔ اس وڈیو میں ثبوتوں کے ساتھ تجزیہ کاروں نے ثابت کر دیا کہ حملہ آوروں کا دور دور تک پا کستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘ یہ تو بھارت نژاد آسٹریلوی ہیں۔ اب یہ بات الم نشرح ہو چکی ہے اور امریکی انٹیلی جنس سمیت سارے نشریاتی ادارے سخت خفت محسوس کر رہے ہیں۔
دہشت گردی کی کوئی متعین تعریف نہیں کی جا سکتی‘ تاہم جب کوئی شخص یا جتھا طاقت کے بل پر اپنی بات منوانے پر تُل جاتا ہے تو یہ کھلی کھلی دہشت گردی ہے۔ اسرائیل جیسی بعض طاقتیں ریاستی سطح پر اسی دہشت گردی سے کام لیتی ہیں۔ اگرچہ دہشت گردانہ کارروائیوں کا زیادہ تر شکار مسلم ممالک ہیں مگر مغربی ممالک سمیت دیگر ملکوں میں بھی یہ کارروائیاں کبھی کبھی ہو جاتی ہیں۔ کوئی فرد ایسی کارروائی کرے یا کوئی تنظیم ایسی انسان دشمن حرکت کی مرتکب ہو تو وہ قابلِ مذمت ہے۔ دہشت گردی ایک عالمی المیہ بن چکی ہے۔ اس سے عالمی سطح ہی پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے کئی اسباب ہیں اور اس کے تدارک کیلئے جامع منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ انتہا پسندی کی ہر شکل پر قابو پایا جائے۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے منفی انداز میں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ مثلاً اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ہونے والی نسل کشی یا ماضی میں افغانستان اور عراق پر مغربی ممالک کے قبضے جیسے واقعات سے یہ تنظیمیں انفرادی سطح پر نوجوانوں کو اُکساتی ہیں۔ اسی طرح بعض مغربی ممالک میں رنگ و نسل اور مذہبی تعصب کے خلاف ایسی تنظیمیں نوجوانوں میں ردِعمل کے جذبے کو بھڑکاتی ہیں۔ اسرائیل یا کسی اور ملک کو اس طرح کے انفرادی ردِعمل کے تانے بانے کسی مذہب سے نہیں ملانے چاہئیں۔ اسرائیل آسٹریلیا پر الزام تراشی کر رہا ہے کہ وہاں غزہ کے معاملے میں حکومت نے صہیونیت مخالف جذبات کو بالواسطہ ہوا دی ہے۔ صہیونی حکومت آسٹریلیا کی طرف سے آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر تنقید کر رہی ہے حالانکہ آسٹریلیا نے اپنے عوام کے جمہوریت پسند اور انسانیت نواز جذبات و خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے اہلِ فلسطین کا ارضِ فلسطین پر بااختیار حقِ حکمرانی تسلیم کیا تھا۔
اسرائیل برسہا برس سے فلسطین‘ لبنان اور شام میں مسلسل کشت و خون کر رہا ہے۔ عالمی سرحدوں کا تقدس پامال کرتے ہوئے ان پر چڑھ دوڑتا ہے۔ اس اسرائیلی روش سے متاثرہ مسلم ریاستیں ہی نہیں بلکہ سارا عالمِ اسلام مضطرب وپریشان ہے۔ ساری دنیا کو تشویش ہے کہ یہ صہیونی ریاست کسی عالمی عدالتِ انصاف کی بات سنتی ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مانتی ہے۔ عالمی سطح پر تمام ممالک کو دہشت گردی کے عفریت کی ہیبت ناکی کا اندازہ ہونا چاہیے اور اس کے تدارک کیلئے مل کر ایک پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔دہشت گردی کو جنم اور فروغ دینے والے جن اسباب کا اوپر ذکر ہوا ہے ان کی بھی فوری طور پر روک تھام ہونی چاہیے۔ بھارت نے گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کی ہر واردات کا کسی تحقیق و تفتیش کے بغیر الزام پاکستان کے سر دھر دیا جاتا ہے۔ پھر بھارت ساری دنیا میں اس کی تشہیر کرتا ہے۔ گزشتہ کارروائیوں میں بھارتی انٹیلی جنس اداروں کی تحقیقات اور شخصی اعترافات سے یہ ثابت ہو چکا کہ یہ کارروائیاں مقامی طور پر کی گئیں اور پاکستان سے ان کا کوئی تعلق واسطہ نہ تھا۔
موجودہ صورتحال میں افغانستان کی طالبان حکومت کو ایک ریاست کے طور پر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے تھا مگر وہ ایسا نہیں کر رہی۔ بعض اطلاعات کے مطابق افغانستان میں داعش اور القاعدہ کی باقیات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کالعدم ٹی پی پی وہاں سے پاکستان پر حملے کر رہی ہے۔ برادر مسلم ممالک قطر‘ ترکیہ اور ایران وغیرہ نے افغانستان کے ساتھ طویل مذاکرات کیے اور انہیں باور کرایا کہ انہیں ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرنا اور دہشت گرد تنظیموں کو اپنے ملک میں کوئی ٹھکانہ فراہم نہیں کرنا چاہیے۔
اب احمد الاحمد کا مزید تذکرہ سن لیجئے۔ 43 سالہ احمد کا تعلق شام کے شمال مغربی علاقے ادلب سے ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی بہادری‘ بردباری‘ مہمان نوازی‘ دوسروں کیلئے ہمدردی کے جذبات رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ کئی دہائیوں قبل ہم دمشق سے حلب کی طرف ڈرائیور کرتے ہوئے ادلب رکے تھے۔ یہاں کے لوگوں میں واقعی ایسی صفات پائی جاتی ہیں۔ 2006ء میں احمد بلادِ شام سے آ کر آسٹریلوی شہری بن گیا۔ یہاں اس کے اندر موجود ارضِ شام کے اوصاف مزید نکھر کر سامنے آئے۔ سڈنی میں اس کی فروٹ شاپ ہے۔ وہ سڈنی کے علاقے میں ایک محبوب شخصیت کی شہرت رکھتا ہے‘ تاہم اب احمد الاحمد ایک گلوبل ہیرو بن چکا ہے جس کی بہادری و جوانمردی کی ہر کوئی داد دے رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں