"KDC" (space) message & send to 7575

دیوہیکل صوبے‘ گورننس کے مسائل

چار دیوہیکل صوبوں کا ڈھانچہ اب ملکِ عزیز کیلئے ایک بھاری بوجھ بن چکا ہے۔ 25 کروڑ کی آبادی کو صرف چار ہی صوبوں میں محدود رکھنا نہ تو سیاسی طور پر کارآمد ہے اور نہ ہی معاشی طور پر پائیدار۔ یہ بڑا صوبائی نظام گورننس کو غیر مؤثر‘ وسائل کی تقسیم کو غیر منصفانہ اور عوامی مسائل کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔ صوبائی اشرافیہ طاقت کے مراکز پر قابض ہے جبکہ دور دراز کے علاقے مسلسل محرومی اور پسماندگی کا شکار ہیں۔ ان علاقوں کے عوام کو نہ تو روزگار کے مناسب مواقع میسر ہیں اور نہ ہی صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ وطنِ عزیز میں چھوٹے صوبے یا خودمختار انتظامی یونٹس قائم کیے جائیں تاکہ اختیارات اور وسائل صرف اشرافیہ تک محدود رہنے کے بجائے براہِ راست عوام تک پہنچ سکیں۔ نئے صوبے نہ صرف مقامی ترقی کو فروغ دیں گے بلکہ سیاسی اجارہ داری کو توڑ کر وفاق کو بھی مزید مضبوط کریں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو بہتر گورننس‘ منصفانہ نظام اور مستحکم مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔
ملکِ عزیز میں نئے صوبوں کے قیام پر طویل عرصے سے بحث جاری ہے۔ یہ معاملہ سیاسی‘ انتظامی اور عوامی سطح پر یکساں اہمیت رکھتا ہے۔ اگر اس مسئلے کو سنجیدگی اور منصوبہ بندی کے ساتھ حل کیا جائے تو اس کے کئی فوائد سامنے آسکتے ہیں جو حکومتی سطح پر بھی ہوں گے اور عوامی سطح پر بھی۔حکومتی سطح پر اگر صوبوں کو چھوٹے یونٹس میں تقسیم کیا جائے تو نظم و نسق زیادہ مؤثر اور سہل ہو جائے گا‘ بیوروکریسی پر بوجھ کم ہوگا اور مقامی مسائل کے فوری حل کی راہ ہموار ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ وسائل کی تقسیم زیادہ منصفانہ اور متوازن ہو گی کیونکہ ہر صوبے کو اپنے بجٹ اور ترقیاتی منصوبوں پر زیادہ اختیار حاصل ہوگا۔ نئے صوبوں کے قیام سے وفاقی سطح پر سیاسی نمائندگی بھی متوازن ہوگی جس سے اکائیوں کے درمیان اعتماد بڑھے گا اور وفاق مزید مضبوط ہوگا۔ عوامی سطح پر سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ حکومت عوام کے قریب آ جائے گی‘ مسائل کے حل کیلئے بڑے اور دور دراز کے صوبائی دارالحکومتوں کے چکر نہیں لگانا پڑیں گے۔ عوام کو اپنی ثقافتی‘ لسانی اور جغرافیائی شناخت کے مطابق نمائندگی ملے گی جس سے احساسِ محرومی میں کمی آئے گی۔ نئے صوبوں میں نئی اسمبلیاں‘ سیکرٹریٹ اور محکمے قائم ہوں گے جو نہ صرف مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کریں گے بلکہ ترقی کے نئے دروازے بھی کھولیں گے۔ صحت‘ تعلیم‘ توانائی اور انفراسٹرکچر جیسے منصوبے زیادہ مقامی ترجیحات کے مطابق بنیں گے جس سے عوام کو براہِ راست فائدہ ہوگا۔ مزید یہ کہ مقامی قیادت کو عوام کے سامنے زیادہ جواب دہ ہونا پڑے گا جس کے نتیجے میں کرپشن اور نااہلی کے امکانات کم ہوں گے اور عوامی شمولیت میں اضافہ ہوگا۔
ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے لوکل گورنمنٹ کے اداروں کی نچلی سطح تک منتقلی آئین کے آرٹیکل 141 (اے) کے تحت ضروری ہے۔ اگر حکومت اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کیلئے نئے صوبے بناتی ہے تو ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو تعاون کرنا چاہیے۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے موجودہ دیو ہیکل صوبوں کو چھوٹے صوبوں میں تقسیم کرناوفاق کا ایک بڑا قدم ہوگا ‘ جس سے کسی حد تک نسلی سیاست اور موروثی حکمرانی کا ازالہ بھی ہو سکے گا۔شنید ہے کہ اس وقت ملکی تاریخ کے سب سے بڑے انتظامی ڈھانچے کا منصوبہ تیار ہو رہا ہے جس کے مطابق وفاقی حکومت نے موجودہ چار بڑے صوبوں کو نئے صوبوں میں تقسیم کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ اقدام صوبوں میں نسلی و لسانی اجارہ داری کی سیاست کو کمزور کرنے اور وفاق کو مضبوط بنانے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ موجودہ صوبائی ڈھانچہ 1970ء میں قائم ہوا تھا اور پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ سے یونہی چلا آ رہا ہے۔ ملک کا اصل انتظامی ڈھانچہ تو 1947ء سے 1955ء تک ہی جاری رہا‘ بعد ازاں 1956ء کے دستور کے تحت وطنِ عزیز کو وَن یونٹ کے ذریعے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں تبدیل کر دیا گیا تھا لیکن جنرل یحییٰ خان نے جولائی 1970ء میں مغربی پاکستان کو ازسرِ نو چار صوبوں میں تبدیل کر کے 1955ء کی حیثیت پر کھڑا کر دیا مگر مشرقی پاکستان میں مزید صوبے بنانے کا ان کو خیال اس لیے نہیں آیا کہ وہاں شیخ مجیب الرحمن بھرپور عوامی طاقت حاصل کر چکے تھے۔بہرکیف یہ امر ظاہر و باہر ہے کہ انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی تقسیم سے ترقیاتی فنڈز کی منصفانہ تقسیم اور گورننس اور مرکز کیساتھ ہم آہنگی بہتر ہو گی۔ نئے صوبوں کا قیام محض جغرافیائی تقسیم نہیں بلکہ تیز تر ترقی‘ عوامی نمائندگی اور وفاق کی مضبوطی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے بشرطیکہ یہ عمل سیاسی اتفاقِ رائے اور عوامی مشاورت کے ساتھ آگے بڑھایا جائے۔سیاستدان عوام کی خدمت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر ان کا اصل مشن ذاتی مفادات‘ کرپشن‘ اقربا پروری اور اقتدار کی ہوس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف سے موجودہ دیو ہیکل صوبوں کی چھوٹوں صوبوں میں تقسیم کے حوالے سے کوئی جاندار آواز نہیں اٹھائی جاتی کیونکہ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کے مفادات کو زک پہنچے گی۔تعلیم‘ صحت‘ انصاف اور معیشت جیسے قومی مسائل ان کیلئے بعد کی چیز ہیں‘ ذاتی مفادات ہی ان کیلئے سب کچھ ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی شخصیت پرستی اور خاندانی سیاست کے گرد گھومتی ہیں اور منشور و نظریات صرف کاغذ کے ٹکڑے بن کر رہ گئے ہیں۔ سیاستدان اقتدار میں آتے ہی عوام سے دور ہو جاتے ہیں اور جب اقتدار سے باہر نکلیں تو نظام کو کوستے ہیں۔ یہی رویہ ملکی اداروں کو کمزور اور غیر منتخب قوتوں کو طاقتور بناتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا دشمن سیاستدانوں کی خودغرضی اور نااہلی ہے۔ جب تک سیاسی قیادت اپنی ذات اور مفادات کو پس پشت نہیں ڈالے گی ‘ عوام کے خواب‘ مستقبل اور ملک کی بقا سب خطرے میں رہیں گے۔
حالیہ دنوں نو مئی کے مقدمات میں پی ٹی آئی کے بہت سے رہنماؤں کو عدالتوں نے سزائیں سنائی ہیں۔ نو مئی 2023ء ملک کی سول اور عسکری قیادت کیلئے ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔ ممکن ہے کہ عمران خان کو ان کے جذباتی ورکروں نے اندھیرے میں رکھا ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے پس منظر میں تحریک انصاف کا ہی عمل دخل تھا۔نو مئی کے واقعہ سے پیشتر عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک پنجاب حکومت کے لیے نو گو ایریا تھی اور زمان پارک کے چاروں طرف ورکروں کا قبضہ تھا۔ پولیس نے جب بھی کارروائی کرنا چاہی تو اس پر زہریلے مواد سے حملہ کیا گیا اور عمران خان نے اس پر مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی۔ میں نگران حکومت کا حصہ تھا اور ہماری نظروں کے سامنے زمان پارک میں ایسی کارروائیاں ہو رہی تھیں اور نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی اور ان کی انتظامیہ بے بس نظر آ رہی تھی اور مصلحتاً حکومت خاموشی سے سارے منظر کا جائزہ لے رہی تھی۔ لہٰذا ملک میں سیاسی استحکام کا قیام سچے دل سے معافی مانگنے سے ہی ممکن ہے۔اگر عمران خان مشروط معافی یا وقتی سمجھوتا قبول کر لیں تو یہ قدم انہیں مستقبل میں دوبارہ سیاسی منظرعام پر نمودار ہونے کا موقع دے سکتا ہے۔ وقتی طور پر محفوظ راستہ اختیار کرنے سے پارٹی کو حالات کو سنبھالنے کا وقت ملے گا۔ اگر عمران خان اپنی سیاسی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی پارٹی کے سنجیدہ حلقوں کے سامنے اس فیصلے کو قومی مفاد کے بیانیے میں ڈھال دیں تو اس کے ممکنہ نقصان کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر عمران خان نے ضد اور ہٹ دھرمی پر ہی اصرار برقرار رکھا تو ان کو ناقابلِ تلافی حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں