"KDC" (space) message & send to 7575

پاک سعودی معاہدہ اور افغانستان

گزشتہ ہفتے پاکستان اور سعودی عرب میں طے پانے والے تاریخی دفاعی معاہدے کے بعد پاکستان مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی قیادت سنبھالنے کے بہت قریب آ چکا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس اہم موقع پر قوم کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے۔ سیاسی رہنماؤں کے بیانیے سے تو عوام لاتعلقی کا اظہار کر دیں گے لہٰذا فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ عوام کو یہ بتایا جائے کہ یہ معاہدہ پاکستان کے دفاعی اور معاشی استحکام کیلئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پارلیمان میں اس پر مثبت بحث ہو اور اسے اپنے قومی مفاد میں ایک متفقہ قدم کے طور پر پیش کیا جائے۔ قومی میڈیا اس کو پاکستان کی کامیاب سفارتکاری اور خطے میں اس کے بڑھتے کردار کے طور پر اُجاگر کرے۔ اس تعاون کو اسلامی دنیا کے مشترکہ دفاعی اور سفارتی مؤقف کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ مسلم اُمّہ میں پاکستان کا قائدانہ کردار نمایاں ہو۔ عالمی میڈیا میں بھی اس معاہدے کو مثبت انداز میں اُجاگر کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ یہ معاہدہ کیونکر امن اور توازن کی ضمانت ہے۔ یہ کسی ملک کے خلاف جارحانہ بلاک نہیں بلکہ علاقائی توازن کے قیام کی علامت ہے۔ یہ محض ایک عسکری معاہدہ نہیں بلکہ پاکستان کی قومی پالیسی کا حصہ ہے۔ عوام بالخصوص نوجوانوں کو یہ بھی باور کرایا جائے کہ پاکستان اب خطے کے فیصلوں میں مرکزی کردار بن کر ابھر رہا ہے۔ یہ جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں اس حوالے سے قوم کو آگاہ کیا جائے کہ پاکستان نے امریکہ کے دشمن ملک سے نہیں بلکہ اس کے حلیف اور دوست ملک سے معاہدہ کیا ہے‘ اس لیے امریکہ کو اس معاہدے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ حکومت کے اتحادی اور وزرا من پسند تشریحات سے پاک سعودی دفاعی معاہدہ کے عظیم اغراض ومقاصد کو خود ہی متنازع بنا رہے ہیں‘ اس سلسلے کو بند کرنا چاہیے۔ حکومت کا یہ اعتراف بے وقت ہے کہ وزیراعظم کے حالیہ دورۂ سعودی عرب میں معیشت یا سعودی سرمایہ کاری پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ بعض کوتاہ اندیشوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان سے پاکستانی سرزمین پر دہشت گرد حملہ سعودی عرب پر بھی حملہ تصور ہو گا‘ اس دفاعی معاہدہ کو گہنانے کے مترادف ہے۔ ایسے وزرا کے بیانات کا گہری نظر سے جائزہ لینا ہوگاجو اس عظیم معاہدے کو ایک علاقائی معاہدے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کابینہ میں نہایت اہم عہدے پر ہیں اور آئینی اور قانونی طور پر افواجِ پاکستان کے تمام ادارے ان کے ماتحت ہیں، لیکن انہوں نے محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے افغانستان کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے۔ حالیہ دنوں ان کا یہ بیان سامنے آیا کہ افغانستان پاکستان کا دشمن ملک ہے‘ یہ پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا اور قیامِ پاکستان کے بعد افغانستان نے سب سے آخر میں پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ ایسے سطحی بیانات اور گڑے مردے اکھاڑنے سے ملک کے خارجہ تعلقات اور فیلڈ مارشل سیدعاصم منیر کی ملک کے بین الاقوامی امیج کو بہتر بنانے کی مساعی کو نقصان پہنچ رہاہے۔ افغانستان کے حوالے سے بلاوجہ پاک سعودی معاہدے کو زیربحث لا کر اس معاہدے کے ثمرات کو نقصان پہنچایا جا رہاہے۔ خواجہ صاحب کو شاید یہ ادراک نہیں کہ 1947ء کا افغانستان سوویت روس کے تابع تھا اور ظاہر شاہ کی حکومت صرف کابل تک محدود تھی جبکہ باقی ملک پر روس کے پروردہ وار لارڈز چھائے ہوئے تھے۔ بعد ازاں اسی ظاہر شاہ نے 1957ء میں صدر اسکندر مرزا سے ایک ملاقات کے دوران افغانستان کو پاکستان میں شامل کرنے کی استدعا کی تھی اور جواز یہ تھا کہ شہنشاہ اکبر کے دور میں کابل پنجاب کا حصہ تھا۔ خواجہ آصف کو چاہیے کہ اسلم خٹک مرحوم کی سوانح عمری کا مطالعہ کریں‘ جو اُس وقت کابل میں پاکستان کے سفیر تھے۔ انہوں نے ان حقائق پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ وہ بھٹو دور میں صوبہ سرحد کے گورنر اور بعد ازاں وزیر داخلہ بھی رہے۔ ماضی کے سیاستدانوں سے موازنہ کیا جائے تو موجودہ سیاستدانوں کی سطحی سوچ عیاں ہو جاتی ہے۔ یہ اپنے مخصوص اور محدود سیاسی مقاصد کیلئے ملکی امیج‘ خارجہ تعلقات اور عالمی کامیابیوں کو بھی نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے۔ اربابِ اختیار کو پہلی فرصت میں ایسے دانشوروں‘ میڈیا آئوٹ لیٹس‘ سیاستدانوں اور سماجی و مذہبی رہنمائوں کے بیانات پر قدغن لگانی چاہیے جو پاک سعودی معاہدہ کی من پسند تشریح کر کے ابہام پیدا کر رہے ہیں۔
عالمی فورمز پر پاکستان کا پالیسی بیانیہ اعتماد اور وقار کیساتھ پیش کرنے کا کام صرف وزرا تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ریٹائرڈ بیورو کریٹس‘ تھنک ٹینکس‘ ماہرین‘ نامور سکالرز اور بزنس کمیونٹی کو بھی اس میں شامل کرنا ہو گا۔ وقتی ردِعمل کے بجائے ایک مربوط اور لانگ ٹرم سفارتی پلان نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے تعاون سے تیار کیا سکتا ہے جس میں او آئی سی‘ اقوامِ متحدہ‘ یورپی یونین اور افریقی و ایشین ممالک تک اپنا بیانیہ پھیلانے کی واضح حکمت عملی ہو۔ میڈیا‘ اکیڈیمیا‘ غیر سرکاری تنظیموں اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان کا مثبت تاثر دنیا تک پہنچایا جائے۔ پاکستان اگر صرف دفاعی یا جغرافیائی بیانیے پر انحصار کرے تو یہ ممکن نہیں ہو گا۔ قیادت کیلئے وژن‘ عالمی سطح پر جانے پہچانے معتبر چہرے اور مستقل سفارتی ماہرین کی موجودگی ضروری ہے۔ لیکن اس وقت وفاقی سطح پر کچھ غیر سرکاری تنظیمیں چھائی ہوئی ہیں جن کو حکومت نے شاندار دفاتر‘ گرانٹس اور سہولتیں بھی فراہم کی ہوئی ہیں‘ ان تنظیموں پر سیاسی پس منظر کے حامل وزارتِ خارجہ کے ریٹائرڈ بیورو کریٹس کا تسلط ہے۔ ان تنظیموں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنی چاہیے۔
اب بات کرتے ہیں پاک سعودی معاہدے کی۔ اس حوالے سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اس معاہدے کا کیا فائدہ ہوگا؟ لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ اس دفاعی معاہدے کے ذریعے سعودی عرب تو اپنی جغرافیائی حدود کا تحفظ چاہتا ہے لیکن اس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا؟ اس معاہدے سے پہلے پاکستانی اور سعودی حکام کی بہت سی بیٹھکیں ہوئیں‘ جن میں پاکستانی حکام نے سعودی عرب کو بتایا کہ ہمیں آپ سے کیا چاہیے۔ پاکستانی حکام نے سعودی عرب پر واضح کیا کہ اس معاہدے کے ذریعے ہمیں بھارت اور اسرائیل کے ناپاک گٹھ جوڑ کے خلاف آپ کی حمایت درکار ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ سعودی عرب کو اس وقت خطرہ اسرائیل سے ہے اور پاکستان کو بھارت سے۔ بھارت کا ایک اہم اتحادی اسرائیل ہے۔ اس طرح اسرائیل صرف عرب ممالک کیلئے ہی نہیں بلکہ پاکستان کیلئے بھی بہت بڑا خطرہ ہے۔ حکومتِ پاکستان کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بھارت کی ہندو انتہا پسند حکومت نے پاکستان پر حملے کا ایک اور منصوبہ بنا رکھا ہے اور بھارت جب بھی اپنے ان جارحانہ عزائم کو عملی جامہ پہنائے گا اس وقت اسرائیل اس کو سپورٹ کرے گا۔ یاد رہے کہ اسرائیل ماضی میں بھی کئی بار پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو نشانہ بنانے کی کوشش کر چکا ہے۔ یہ کہانی 80ء کی دہائی سے شروع ہوتی ہے‘ جب اسرائیل نے عراق کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا تھا۔ اس وقت اسرائیل پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر بھی حملہ کرنا چاہتا تھا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے 1967ء اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگوں میں عرب ممالک کو ایئر فورس کے ذریعے پروٹیکشن دی تھی۔ پاکستانی فضائیہ نے ان جنگوں کے دوران نہ صرف عرب ممالک کی فضائی سرحدوں کا تحفظ کیا بلکہ اسرائیلی جہازوں کو بھی تباہ کیا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان نے معرکہ حق میں بھارت کے بہت سے جہاز گرائے تھے۔ اس لیے اسرائیل پاکستان کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ پاکستانی حکام کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ یہ معلومات شیئر کی گئیں کہ ہمیں بھارت کی جانب سے ایک اور حملے کا خدشہ ہے اور آپ کو اسرائیل کی جانب سے حملے کا خطرہ ہے‘ ایسی صورت میں دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کی ضرورت ہے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں