"KDC" (space) message & send to 7575

بلوچستان میں نئے صوبے بنائے جائیں

بلوچستان کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہاں بلوچی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ 2023ء کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی صرف 40فیصد آبادی کی مادری زبان بلوچی ہے۔ بلوچ آبادی زیادہ تر بلوچستان اور پنجاب کے سرحدی علاقوں اور ایران کے عالمی بارڈر کے ساتھ ساتھ آباد ہے‘ جبکہ اندرون بلوچستان میں براہوی‘ سندھ کے ساتھ ملحقہ اضلاع میں سندھی اور پنجاب کے ساتھ ملحقہ اضلاع میں سرائیکی پنجابی آباد ہیں۔ اس کے علاوہ خیبرپختونخوا اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ پشتون آباد ہیں۔ جعفر ایکسپریس پر حالیہ حملے کے تناظر میں یہ معلومات قارئین تک پہنچانا بہت ضروری ہے۔ گزشتہ ہفتے جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے 33دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور ٹرین میں سوار 339مسافروں کو بازیاب کرانے کے لیے پاک فوج بالخصوص اس کی ضرار کمپنی نے جو بے مثال کردار ادا کیا‘ اس کے بعد سے یہ ستائش کا منبہ بنی ہوئی ہے۔ چین‘ امریکہ‘ روس‘ ایران‘ ترکیہ‘ یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس واقعہ اور دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والی قوتوں کی مذمت کی۔قومی اسمبلی میں بھی اس واقعہ کے حوالے سے مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ قرارداد کے متن میں جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کرنے اور شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے اور ملک کے امن کو تہہ و بالا کرنے والی دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ قوم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانے کا عزم کرتی ہے۔ مزیدکہا گیا کہ کسی بھی گروہ یا فرد کو ملک کے امن‘ خوشحالی اور خودمختاری کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے‘ ملک کی علاقائی حدود میں خوف‘ نفرت یا تشدد پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے اس واقعہ کے حوالے سے پریس کانفرنس میں اس عزم کا اظہار کیا کہ کسی کو ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پاکستان کے معصوم شہریوں کو سڑکوں‘ ٹرینوں‘ بسوں یا بازاروں میں اپنے گمراہ کن نظریات اور بیرونی آقاؤں کے ایما پر بربریت کا نشانہ بنائے۔ ان عناصر کا دین اسلام‘ پاکستان اور بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں اور سکیورٹی فورسز ہر قسم کی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے پُر عزم ہیں۔
دیکھا جائے تو بلوچستان کے مسائل سیاسی سے زیادہ انتظامی نوعیت کے ہیں۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو کل ملکی رقبے کا تقریباً 44فیصد ہے۔ اگر صوبے کو تین صوبوں میں تقسیم کر کے نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ شدت پسند تنظیموں کے ہتھے چڑھنے سے بچ سکتے ہیں۔ بیروزگار نوجوانوں کو بیروزگاری الاونس بھی دیا جانا چاہیے‘ حکومت 190ملین پاؤنڈز سے بے روزگاری الاؤنس ادا کر سکتی ہے‘ جو اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان کے فنڈز میں جمع ہیں۔ بلوچستان کو تین نئے صوبوں میں تقسیم کرنے سے نوجوانوں کی وہاں شروع ہونے والے ترقیاتی کاموں میں بھی دلچسپی پیدا ہو گی۔ وہاں کالج‘ یونیورسٹیاں اور صنعتی ادارے بھی قائم ہوں گے۔ گوادر اور تربت کے علاقے میں آئل ریفائنری میں سعودی سرمایہ کاری سے معاشی استحکام آئے گا جبکہ باقی علاقوں میں بنگلہ دیش کی طرح چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ عرب ممالک کو گوادر بندرگاہ میں سرمایہ کاری کے لیے بھی راغب کیا جانا چاہیے۔ افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت کو بھی باور کرایا جائے کہ افغانستان ایک لینڈ لاکڈ ملک ہونے کے وجہ سے گوادر بندرگاہ اس کے لیے عالمی تجارت آسان بنا سکتی ہے۔
یہ حقیقت اب پوشیدہ نہیں کہ بلوچستان میں شدت پسند عناصر بھارت اور افغانستان کی معاونت سے ماضی کے مقابلے میں کافی طاقتور ہو چکے ہیں۔ صوبے کا وسیع و عریض رقبہ اور دشوار گزار علاقے دہشت گردوں کے لیے ڈھال کا کام کرتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ چین کے تعاون سے شروع ہونے والے سی پیک منصوبے میں بلوچستان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے‘ اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ چین کے اس منصوبے کے تناظر میں بلوچستان امریکہ کے لیے بھی بہت اہمیت کا حامل خطہ ہے۔ بھارت کی طرف سے بلوچستان میں دہشت گردوں کی معاونت کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ وہاں عدم استحکام رہے اور چین کے تعاون سے شروع کیے جانے والے منصوبے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں۔ یعنی بلوچستان کے حوالے سے بھارت اور امریکہ کے عزائم کم و بیش ایک جیسے ہیں۔پاکستان میں چینی باشندوں پر دہشت گردانہ حملوں کا اصل مقصد بھی چینی منصوبوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔چین اس صورتحال سے آگاہ ہے۔ اس نے سی پیک میں لمبی چوڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے لہٰذا وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔ امید ہے کہ اگلے ماہ چینی وزیراعظم کے متوقع دورۂ پاکستان میں ان معاملات پر بات ہو گی۔ اگر افغانستان سے بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کی معاونت کا سلسلہ نہ رکا تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائیاں آنے والے دنوں میں افغانستان تک وسعت اختیار کر جائیں۔ بھارت کی طرف سے ان تنظیموں کی معاونت کے لیے بھی افغان سرزمین استعمال کی جا رہی ہے۔
دوسری طرف جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد سوشل میڈیا پر جو منفی بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی وہ قابلِ مذمت ہے۔ ملک دشمن عناصر یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام کو افواجِ پاکستان کے سامنے لا کھڑا کیا جائے‘ اور بعض طبقات سوشل میڈیا پر فوج مخالف پوسٹوں سے ان کا یہ کام مزید آسان کر دیتے ہیں۔ ان سوشل میڈیا پوسٹوں میں بی ایل اے کی حمایت اور اس تنظیم کے ساتھ بات چیت پر زور دیا گیا لیکن بی ایل اے جیسی تنظیموں کے ساتھ مکالمے کا وقت ختم گزر چکا ہے کیونکہ یہ اب ایک دہشت گردی تنظیم بن چکی ہے۔ دوسرا اب اکبر بگٹی جیسے سردار بھی موجود نہیں ہیں جوایسے معاملات پر قابو پانے کی اہلیت رکھتے تھے۔ عوام کو اس موقع پر پرانے زخم تازہ کرنے کے بجائے لمحہ موجود کا منظر نامہ پیش نظر رکھنا چاہیے اور اپنی حکومت اور اداروں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ بی ایل اے جیسی شدت پسند تنظیموں کے خلاف آپریشنز کے تناظر میں حکومت اور اداروں کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو بھی دہشت گردوں کی صف میں شمار کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک بلوچستان کے عوام کی محرومیوں کا تعلق ہے تو 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو خودمختاری مل چکی ہے۔ بلوچستان کے لیے مختص اربوں روپے صوبے کے حکمرانوں‘ سرداروں اور با اثر خاندانوں کی جیبوں میں جا رہے ہیں۔ اس لیے انہوں وفاق یا دیگر صوبوں کے بجائے اپنے حکمرانوں سے سوال کرنا چاہیے جو انہیں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے اور ان کا معیارِ زندگی بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ چند سال پہلے بلوچستان کے ایک صوبائی سیکرٹری کے گھر سے اربوں روپے برآمد ہوئے تھے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچستان کے وسائل صوبے کے بااثر افراد اپنے لیے خرچ کر رہے ہیں۔ جب تک بلوچستان کے عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں‘ ان کا احساسِ محرومی ختم نہیں کیا جاتا‘ بلوچستان سے دہشت گردی کا خاتمہ مشکل ہے۔ اور بلوچستان کے عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لیے نئے صوبوں کا قیام بہت ضروری ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں