"KDC" (space) message & send to 7575

بھاری بھرکم کابینہ مسائل کا حل نہیں

وفاقی کابینہ میں توسیع سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کیلئے کم کابینہ کیساتھ ملکی معاملات چلانا مشکل ہو رہا تھا اس لیے گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ میں توسیع کرتے ہوئے مزید 12وزرا‘ نو وزرائے مملکت اور تین مشیروں کو شامل کیا گیا۔گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے نئے اراکین کو وزارتوں کے قلمدان سونپ دیے گئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے مشرقی اور مغربی پاکستان کیلئے صرف آٹھ وزرا کا تقرر کیا تھا جبکہ موجودہ دور حکومت پاکستان میں وزرا کی تعداد 30 سے زائد ہو چکی ہے۔ مشیران‘ معاونِ خصوصی‘ کوآرڈی نیٹرز اسکے علاوہ ہیں‘ یعنی کابینہ کا مجموعی حجم 50سے زائد ہو چکا ہے۔ عمران خان کی کابینہ کی تعداد 86 تھی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے مقابلے میں بھارت‘ امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس کی کابینہ کے ارکان دو درجن سے بھی کم ہیں۔ بطور مشیرِ وزیراعظم حلف اٹھانے والوں میں پرویز خٹک بھی شامل ہیں لیکن شنید ہے کہ کابینہ نے انہیں بطور مشیر تسلیم نہیں کیا اور ان کے ساتھ سرد مہری کا رویہ روا رکھا گیا ہے۔
دوسری طرف حکومت نے رمضان المبارک کے حوالے سے ملک میں مختلف ریلیف پروگرام شروع کیے ہیں۔ ان میں سے ایک پاکستان بیت المال کی وساطت سے اس ماہِ مبارک میں 50 لاکھ افراد کیلئے افطاری کا انتظام ہے۔ اس مقصد کیلئے حکومت نے محکمہ بیت المال کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں خصوصی سٹالز کا اہتمام کیا ہے جہاں مستحق افراد کو افطاری باکس تقسیم کیے جاتے ہیں۔ قومی احتساب بیورو کو اس سارے عمل پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس ادارے کا آڈٹ کرانا قومی مفاد میں ہے۔ افطاری باکسز کے علاوہ وفاقی حکومت 40 لاکھ گھرانوں کو 'ڈیجیٹل والٹ‘ کے ذریعے پانچ ہزار روپے فی کنبہ تقسیم کر رہی ہے۔ اس کیلئے وفاقی حکومت نے 20 ارب روپے مختص کیے ہیں اور یہ پیکیج پورے ملک کے عوام کیلئے ہے۔ وفاقی حکومت کے علاوہ صوبائی حکومتوں نے بھی رمضان ریلیف پیکیجز کا اجرا کیا ہے۔ پنجاب حکومت نے رمضان پیکیج کیلئے 30 ارب روپے مختص کیے ہیں اور اس پروگرام کے تحت 30 لاکھ مستحق گھرانوں کو دس ہزار روپے فی خاندان فراہم کیے جا رہے ہیں۔صوبائی حکومتوں کے یہ ریلیف اقدامات خوش آئند ہیں۔ اگر وفاقی اور پنجاب حکومت کے یہ اقدامات حقیقی معنوں میں عوام کو ریلیف پہنچانے کا باعث بنتے ہیں تو اس سے عوام میں حکومت کا مثبت تاثر اجاگر ہو گا۔ مگر حکومتی ریلیف پیکیجز کے حوالے سے سب سے اہم کام انہیں کرپشن سے پاک بنانا ہے کیونکہ ہمارے ہاں ہر جگہ کرپشن کا عنصر موجود ہے۔ بیورو کریسی میں کرپٹ افسران کی موجودگی اب کوئی راز نہیں رہی۔ ماضی میں عوام کے ریلیف کیلئے شروع کیے گئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی کرپشن کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ نگران پنجاب حکومت کے دور میں عوام کیلئے شروع کیے گئے رمضان ریلیف پیکیج پر سوالات اٹھنے کے بعد محسن نقوی نے کیبنٹ کی منظوری سے اس ضمن میں قومی احتساب بیورو سے انکوائری کی استدعا کی۔میں چونکہ نگران حکومت کا حصہ تھااس لیے اس امر سے آگاہ ہوں کہ جب قومی احتساب بیورو نے انکوائری شروع کی تو بیورو کریسی میں خوف وہراس پھیل گیا۔ لہٰذا صوبائی حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت کو رمضان ریلیف پیکیجز میں شفافیت یقینی بنانے کیلئے کڑی نگرانی رکھنی چاہیے۔ عموماً کسی حکمران کے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد کرپشن کے کیسز سامنے آتے ہیں‘ اگر موجودہ حکمران چاہتے ہیں کہ ان کے اقتدار سے علیحدگی کے بعد کرپشن کے حوالے سے ان پر انگلی نہ اٹھے تو انہیں اس عمل میں قومی احتساب بیورو کو آن بورڈ رکھنا چاہیے۔ رمضان ریلیف پیکیج میں شفافیت یقینی بنانے کیلئے اولین اقدام مستحق افراد کا انتخاب ہے۔ معلوم نہیں حکومت نے مستحق افراد کا کیا پیمانہ مقرر کر رکھا ہے۔
اُدھر مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق کی خود کش دھماکے میں شہادت کے بعد سے دینی حلقوں میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ مولانا سمیع الحق کو 2018ء میں اسلام آباد میں قتل کیا گیا تھا۔ ان کے قتل پر انکوائری کمیشن بھی تشکیل دیا گیا تھا لیکن ان کے قتل کی کوئی وجہ سامنے نہیں آسکی۔ مولانا سمیع الحق کے والد بزرگوار مولانا عبدالحق حقانی قومی اتحاد کے سرگرم اور سرکردہ رہنما تھے۔ انہوں نے مارچ 1977ء کے الیکشن میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے لیکن قومی اتحاد کی ساکھ کو اس وقت سخت ٹھیس پہنچی جب مولانا عبدالحق صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ نصراللہ خٹک کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ قومی اتحاد کے اہم رہنما مولانا مفتی محمود اور سابق معروف لیڈر بارک اللہ اکوڑہ خٹک پہنچے تو مولانا عبدالحق نے بتایا کہ ان سے جعل سازی کے ذریعے کاغذاتِ نامزدگی واپس لینے کا ڈرامہ رچایا گیا۔ حقیقت میں ان کے پاس وزیراعلیٰ سرحد نصراللہ خٹک کے دو مشیران آئے تھے اور کسی بہانے ان سے دستخط کرائے گئے کیونکہ ان کی بینائی کمزور تھی۔ بعد ازاں مولانا جب یہ معاملہ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سجاد احمد جان کے روبرو پیش ہوا تو مولانا عبدالحق نے حلفیہ دستاویزات جمع کرائی کہ نصراللہ خٹک کے دو مشیران ان کے پاس آئے تھے اور دھوکا دہی سے دستخط کرائے گئے ہیں جس پر چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) سجاد احمد جان نے مولانا عبدالحق کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے لیکن بعد ازاں دھاندلی کے ذریعے مولانا عبدالحق کو ہرا دیا گیا۔ ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ اب بھی ریکارڈ پر موجود ہو۔ مولانا عبدالحق کے کاغذاتِ نامزدگی کے بارے میں یہ واقعہ مجھے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر)سجاد احمد جان نے خود سنایا تھا۔اُس وقت اے پی پی کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر احمد بھی وہاں موجود تھے‘ تب میری پوسٹنگ سرگودھا ڈویژن میں بطور ریجنل الیکشن کمشنر تھی اور میں سرگودھا ڈویژن کا ریکارڈ لے کر چیف الیکشن کمشنر سے ملنے گیا تھا۔
اُدھر یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ صدر ٹرمپ اندرونی معاملات‘ روس یوکرین جنگ اور غزہ اسرائیل جنگ جیسے عالمی نوعیت کے معاملات سے نمٹنے کے بعد اپنی توجہ پاکستان کی طرف مبذول کریں گے۔ سفارتی حلقوں سے اطلاعات مل رہی ہیں کہ امریکی سفارتخانے کے سیاسی امور کے ماہرین پاکستان کے آٹھ فروری کے انتخابات کا جائزہ لینے کیلئے کچھ این جی اوز کی رپورٹ کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ اس مقصد کیلئے اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں‘ یورپی یونین کمیشن اور غیر ملکی مبصرین کی رپورٹس بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔ علاوہ ازیں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلوں پر بھی غورو خوض ہو رہا ہے۔سنا ہے کہ پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس اور انٹرا پارٹی الیکشن کیس کے فیصلوں کے حوالے سے بھی قانونی ماہرین کی رائے لی جا رہی ہے اور صدر ٹرمپ کے لیے جامعہ سمری تیار کی جا رہی ہے۔دیکھیے اس حوالے سے کیا سامنے آتا ہے۔
آخر میں اگر پنجاب حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کی تشہیری مہم کی بات کریں تو ہر حکومت اپنے منصوبوں کے افتتاح یا ان کے مکمل ہونے پر تشہیری مہم چلاتی ہے۔ صدر ایوب خان نے بھی دس سالہ جشنِ ترقیات منایا تھاحالانکہ ان کے وزرا نے اس اقدام کی مخالفت کی تھی لیکن الطاف گوہر‘ جو سیکرٹری وزارتِ اطلاعات و نشریات تھے‘ نے یہ مہم شروع کروا دی اور اس مہم کے تین ماہ بعد صدر ایوب خان کی حکومت ختم ہو گئی۔ پنجاب حکومت کی حالیہ تشہیری مہم سے جہاں حکومت کی طرف سے عوام کی سہولت کیلئے شروع کیے گئے متعدد منصوبوں کا پتا چلتا ہے وہیں اس مہم سے مسائل کے شکار میڈیا اداروں کو بزنس بھی ملا ہے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ صدر ایوب خان کے زوال کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ان کے دس سالہ جشنِ ترقیات کے باوجود عوام میں بے چینی ختم نہ ہوئی اور اس جشنِ ترقیات کے بعد ان کا اقتدار ختم ہو گیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں