دہشت گردی کے خلاف متحدہ سیاسی آواز اور متفقہ قومی بیانیہ اب وقت کی اولین ضرورت بن چکا ہے۔ ہم گزشتہ تین دہائیوں سے دہشت گردی کے ناسور سے نمٹ رہے ہیں۔ ہزاروں نہیں‘ لاکھوں جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ ہمارے فوجی جوان و افسر قربانیاں دے رہے ہیں۔ شہری بھی قربان ہو رہے ہیں۔ سینکڑوں ارب ڈالر کا نقصان بھی اٹھا چکے ہیں مگر یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور دہشت گردی کا ناسور ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اگرچہ ہم نے اس جنگ میں کئی فقید المثال کامیابیاں حاصل کی ہیں اور دنیا ہمارے اداروں کی صلاحیتوں کی معترف بھی ہے لیکن یہ ناسور ختم نہیں ہو رہا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہے دہشت گردوں کو ملنے والی بیرونی معاونت۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان تنظیموں کی سپورٹ کا خاتمہ کرنا ازحد ضروری ہے۔
اس مشکل وقت میں قوم پاک فوج اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہے مگر سیاسی قیادت اور وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنے ہی جھمیلوں میں مگن نظر آ رہی ہیں۔ قومیں مشکل وقت میں چٹان کی طرح ڈٹ کر کھڑی ہوتی ہیں‘ منقسم نہیں ہوتیں۔ جب دشمن حملہ کرے تو قومیں اپنی فوج اور سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہیں نہ کہ ان پر تنقید کرتی ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو اپنی فورسز کی حوصلہ شکنی کر کے مضبوط ہوا ہو۔ اگر ہماری سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف جنگ نہ لڑیں تو ریاست کا وجود کیسے برقرار رہ سکتا ہے؟ یہ وقت سیاسی یا نظریاتی اختلافات کا نہیں بلکہ اتحاد کا ہے۔ اگر ہم اپنی ہی فورسز پر تنقید کر کے انہیں کمزور کریں گے تو دشمن مزید طاقتور ہوگا۔
جعفر ایکسپریس پر حملہ دراصل ریاست پر حملہ ہے۔ اس وقت بلوچستان کے حالات تشویشناک ہیں اور صوبے کے محب وطن حلقے صوبائی حکومت سے شدید متنفر ہیں۔ بلوچستان کے سرکردہ قبائلی رہنماؤں کو بھی صوبائی حکومت کی کرپشن اور گورننس پر شدید تحفظات ہیں۔ بلوچستان معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے۔ اس کا رقبہ تین لاکھ سینتالیس ہزار مربع کلومیٹر سے زائد ہے اور یہ کُل ملکی رقبے کا 43 فیصد سے زائد ہے۔ بدقسمتی سے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی بلوچستان میں مسلح بغاوت کا آغاز ہو گیا تھا جس سے نمٹنے کے لیے فوجی آپریشن کا آغاز ہوا مگر یہ سلسلہ کبھی تھم نہیں سکا۔ ہر دور میں بلوچستان میں آرمی آپریشن ہوتا رہا۔ پرویز مشرف کے دور میں نواب اکبر بگتی کا جان بحق ہونا ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہے گا۔ بلوچستان کے الیکشن کمشنر کی حیثیت سے میری بلوچستان کے تمام اہم سیاسی و قبائلی رہنماؤں سے ملاقات رہی ہے‘ وہ سب وفاق کے حامی ہیں۔ ان کا گلہ بھی یہی ہے کہ بلوچستان میں وفاق کی بے جا مداخلت سے ان کے جمہوری حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔
آج بلوچستان میں مسلح دہشت گرد تنظیمیں عالمی معاونت سے متحد اور تیار ہو چکی ہیں‘ جبکہ ہمارے دفاعی ادارے ملک کے اندرونی خلفشار‘ انتشار اور محلاتی سازشوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ان کو وہ سپورٹ نہیں مل رہی جو ان کا استحقاق ہے۔ حکومت کے اندرونی حلقوں میں افواج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف سرگوشیاں کی جاتی ہیں اور اپنے مخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے خلاف باقاعدہ مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ دوسری جانب بلوچستان عالمی گریٹ گیم کا بھی حصہ بنا ہوا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ عالمی طاقتوں نے بلوچستان کی قیادت کے لیے ماہ رنگ بلوچ کا انتخاب کر لیا ہے۔اس کو بلوچستان کے اندرونی طاقتور حلقوں سے بڑی تقویت مل رہی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ عالمی سول سوسائٹی کو بھی اپنی جانب متوجہ کر رہی ہیں اور نوبیل پیس پرائز سے متعلق ایک بیان دے کر اس نے عالمی میڈیا کی توجہ بھی کھینچ لی ہے۔ دراصل یہ معاملہ اس وقت زیر بحث آیا جب سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ ماہ رنگ بلوچ ان افراد میں شامل ہے جن کو 2025ء کے نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس نے خود اس کی تصدیق کی ہے مگر کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جس سے آزادانہ طور پر اس دعوے کی تصدیق ہو سکے کیونکہ نوبیل امن انعام کے لیے تمام نامزدگیاں خفیہ رکھی جاتی ہے۔ البتہ اس سے ماہ رنگ بلوچ کے غیر ملکی ایجنسیوں سے گٹھ جوڑ کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ پاکستان اس وقت عالمی ایجنڈے کی زد میں ہے اور بڑی طاقتوں نے یہاں اپنے تمام مہروں کو آگے بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ مستقبل قریب میں خیبر پختونخوا میں قیادت کے بحران کے حل کے لیے ملالہ یوسفزئی کو آگے لانے کی حکمت عملی تیار ہو رہی ہے۔ ملالہ یوسفزئی کو نوبیل پرائز دلانے کے پیچھے یہی محرک نظر آتا ہے۔ 2019ء میں بھارت کے فلم میکروں نے 70کروڑ خرچ کر کے ملالہ یوسفزئی کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بنائی تھی‘ جس کا نام ''گل مکئی‘‘ رکھا گیا اور اس کا پریمیم لندن میں ہوا تھا۔
اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت بلوچستان میں ایمرجنسی لگانے کے بعد بلوچستان کی اسمبلی اور حکومت کو معطل کر کے ایسا عبوری سیٹ اَپ تشکیل دینا چاہیے جس کو ہر مکتبِ فکر کی حمایت حاصل ہو۔ اس طرح صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی حالات سنگین ہیں اور صوبے پر وفاق کی حاکمیت برائے نام ہی ہے۔ آئے دن دہشت گردی کی وجہ سے عوام کا وفاق پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ کے پی کے گورنر فیصل کریم کنڈی ایک متحرک شخصیت ہیں لیکن ان کا حکومت پر کنٹرول نہیں ہے۔ بلوچستان میں عبوری سیٹ اَپ لانے کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا میں بھی آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے حکومت اور اسمبلی کو معطل کر کے ایسا عبوری سیٹ اَپ سامنے لایا جانا چاہیے جس کو عوامی تائید حاصل ہو اور تین سال تک یہ عبوری نظام لانے سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حالات نارمل ہو جائیں گے۔ جب دونوں صوبوں میں عبوری نظام نافذ ہو جائے تو وفاق میں بھی اہم تبدیلی لاتے ہوئے‘ سسٹم میں رہتے ہوئے ہی وفاقی حکومت کو تبدیل کر دینا چاہیے۔ ملک کو اس وقت غیر نمائندہ حکومت کی نہیں بلکہ ایک ایسے سسٹم کی ضرورت ہے جو عوام کو مطمئن کر سکے۔ اس وقت پارلیمنٹ سے قوم کا اعتماد اٹھ چکا ہے اور موجودہ سسٹم کے ہوتے ہوئے دہشت گردی سے نجات ملنا مشکل ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے سی پیک کے عظیم منصوبے بھی مؤخر ہونے کا خطرہ ہے۔ ایسے غیر یقینی ماحول میں عوامی جمہوریہ چین کو اپنے منصوبے خطرے کی زد میں نظر آ رہے ہیں جس سے سرمایہ کاری بھی محدود ہوتی جائے گی۔ سعودی عرب جو دس ارب ڈالر سے آئل ریفائنری لگانے کا سوچ رہا تھا‘ وہ بھی مطمئن نظر نہیں آ رہا ہے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ بلوچستان میں اس وقت حالات بہت خراب ہیں۔ دہشت گردی کا اتنا بڑا واقعہ ہوا ہے کہ 400 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اگر کسی اور ملک میں دہشت گرد کسی کارروائی میں 400 لوگوں کو یرغمالی بنا لیتے تو اس ملک کا وزیراعظم ہنگامی صورتحال نافذ کر دیتا لیکن یہاں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے افراد اسے ایک ایس ایچ او کی مار سمجھتے ہیں اور سنجیدگی سے مسئلے کے حل کے لیے لائحہ عمل کی تیاری پر آمادہ نظر نہیں آ رہے۔