"KDC" (space) message & send to 7575

بانی پی ٹی آئی کے خطوط‘ مقاصد کیا ہیں؟

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے عسکری قیادت کے نام خطوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ گزشتہ ہفتے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا تھا کہ عمران خان نے بطور سابق وزیراعظم آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خط لکھ کر ان سے پالیسیوں میں تبدیلی کی اپیل کی ہے لیکن سکیورٹی ذرائع نے بانی پی ٹی آئی کی جانب سے آرمی چیف کو کوئی خط موصول ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرمی چیف کو ایسا کوئی خط موصول نہیں ہوا اور نہ ہی مقتدرہ کو ایسے کسی خط میں کوئی دلچسپی ہے۔بعد ازاں آٹھ فروری کو بھی عمران خان نے اپنے ایکس (ٹویٹر)اکاؤنٹ پر آرمی چیف کے نام ایک خط شیئر کیا جس میں انہوں نے عوام اور فوج کے درمیان مبینہ اعتماد کی کمی کو دور کرنے کے لیے 'اصلاحی اقدامات‘ کی تجویز دی۔اس خط میں انہوں نے اپنے ساتھ جیل میں ہونے والے سلوک کا بھی ذکر کیا لیکن مقتدر حلقوں کی طرف سے اس خط پر بھی کوئی ردِ عمل نہیں آیا۔ اطلاعات ہیں کہ عمران خان آئندہ ہفتے بھی ایک خط لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ مگر یہ خط بے سود ہیں کیونکہ مقتدرہ نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور یہ بات واضح کر چکی ہے کہ تحریک انصاف کسی معاملے پر بات چیت کی خواہاں ہے تو اسے سیاسی جماعتوں سے بات کرنی چاہیے۔ لیکن تحریک انصاف کی قیادت سیاسی جماعتوں سے بات چیت پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ ماضی میں حکومت اور تحریک انصاف کے مابین سیاسی معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی جتنی کوششیں ہوئیں‘ سب بے سود ثابت ہوئیں۔ اس کی تازہ ترین مثال گزشتہ ماہ دیکھنے کو ملی جب تحریک انصاف نے حکومت سے مذاکرات سے انکار کر دیا۔
بانی تحریک انصاف کی طرف سے عسکری قیادت کے نام خطوط کا یہ سلسلہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے صوبائی صدر کی تبدیلی کے بعد شروع ہوا ۔ شنید ہے کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے نئے صوبائی صدر جنید اکبر خان کو بشریٰ صاحبہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہ وہی جنید اکبر خان ہیں جنہوں نے چند روز قبل یہ بیان دیا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں حکومت کو ووٹ دینے کے لیے انہیں 75 کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔ بادی النظر میں ان کا یہ دعویٰ بے بنیادہے۔ جنید اکبر نے تو چند روز قبل ایک ٹی وی پروگرام میں تحریک انصاف میں شامل بعض سیاستدانوں کو ایجنسیوں کے نمائندے بھی قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے بعض رہنما مقتدرہ کو باقاعدہ حلف نامے جمع کرا کے تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ اگرچہ ان کے اس دعویٰ کے جواب میں ابھی تک ان کی پارٹی کی طرف سے کوئی ردِعمل نہیں آیا تاہم ماضی میں‘ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ایسا ہو چکا ہے جب اپوزیشن جماعتوں میں شامل بعض سیاسی رہنماؤں نے مقتدرہ کو باقاعدہ حلف نامے جمع کرائے تھے۔ مجھے یہ بات جنرل پرویز مشرف کے چیف آف سٹاف جنرل حامد جاوید اور طارق عزیز‘ جو اُن کے سکیورٹی امور ڈویژن کے سیکرٹری تھے‘ نے بتائی تھی کہ اپوزیشن کے بعض رہنما‘ جو مختلف سیمیناروں اور مذاکروں میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ دراصل ہم نے خود انہیں اس کی ایک خاص حد تک اجازت دی ہوئی ہے اور ان کے باقاعدہ حلف نامے ہمارے پاس موجود ہیں۔ اس طرح بعض چینلز کے اینکر پرسنز بھی ہماری رضامندی سے اپنے پروگرام مرتب کرتے ہیں اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس تناظر میں میڈیا ہاؤسز پرجو تنقیدی پروگرام کیے جاتے ہیں‘ ان کے پس منظر کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے حکومت کے خلاف مشترکہ محاذ قائم کرنے کے لیے ایک اور کوشش کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو حکومت مخالف تحریک کا حصہ بنالیا ہے۔شنید ہے کہ اُنہیں اس اتحاد کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے تاہم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ابھی صرف اپوزیشن جماعتوں کی ایک میٹنگ ہوئی ہے‘ کوئی باقاعدہ اتحاد تشکیل نہیں پایا ۔ شاہد خاقان عباسی کے علاوہ اپوزیشن کے اس اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن‘ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا‘ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی‘ مجلس وحدت المسلمین کے رہنما علامہ راجا ناصر عباس‘ سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر‘ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب‘ اسد قیصر اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے حکومت سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کمیشن کے تحت آزادانہ اور شفاف انتخابات کرائے۔حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے ان مطالبات پر فی الحال کوئی کان نہیں دھرا‘ باقی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اپوزیشن کو اس اتحاد کا کوئی فائدہ ہوتا ہے یا نہیں۔
دوسری طرف عمران خان کے خلاف چلنے والے القادر ٹرسٹ کیس کی بات کی جائے تو اس کیس کو معمول کا کیس سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ کیس طوالت اختیار کرتا ہے تو تحریک انصاف حدیبیہ پیپرز ملز کیس دوبارہ کھولنے کی درخواست دے سکتی ہے۔ اکتوبر 2018ء میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب کی طرف سے شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز سے متعلق نظرثانی اپیل خارج کردی تھی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس کیس کے تفصیلی فیصلے میں لکھا تھا کہ حدیبیہ ریفرنس کا مقصد ملزمان ( نواز شریف، شہباز شریف) کو دباؤ میں لانا تھا۔ ملزمان کو دفاع کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ نیب نے ریفرنس کو غیر معینہ مدت تک زیر التوا رکھا اور قانونی عمل کی نفی کی ہے۔ ہمارے فیصلے میں کوئی غلطی ہوتی تو میں پہلا شخص ہوں گا جو درستی کرے گا۔ نیب نے 1229 دن بعد اپیل دائر کی۔ زائد المیعاد ہونے پر اپیل خارج کر دی گئی۔ اب سپریم کورٹ کے سینئر جج صاحبان اس کیس کو ازسرنو کھولنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔
زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر بات کی جائے تو عمران خان اس وقت 14 سال قید کی سزا بھگت رہے ہیں اور اگر انہیں اپنی یہ سزا مکمل کرنا پڑی تو ہو سکتا ہے تب تک ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہو چکا ہو۔ ان کی پارٹی کے صوبائی صدر جنید اکبر خان نے اپنے پارٹی رہنماؤں پر جو الزامات لگائے ہیں اس سے پارٹی میں مزید تقسیم پیدا ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں اگر اپوزیشن اتحاد شاہد خاقان عباسی کو اپنا سربراہ مقرر کرتا ہے تو وہ اپنی پارٹی کو پی ٹی آئی کے متبادل کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ شنید ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے اعلیٰ حلقوں سے اس حوالے سے مذاکرات بھی چل رہے ہیں۔ اگر شاہد خاقان عباسی مقتدر حلقوں کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اگلا سال نئے انتخابات کا سال ثابت ہو سکتا ہے۔نئے عام انتخابات جب بھی ہوں‘ لیکن ایک بات بہت وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اُن انتخابات سے قبل بننے والی نگران حکومت میں وزیر داخلہ سید محسن نقوی کو اہم عہدہ تفویض ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کر دیا جائے۔ سید محسن نقوی تعمیری کاموں میں مہارت رکھتے ہیں جس کا ثبوت ہم نگران حکومتِ پنجاب کے دور میں اور موجودہ حکومتی دور میں بھی دیکھ چکے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں