گزشتہ کالم میں ملک میں نئے صوبوں کی ضرورت کے حوالے سے بحث کی گئی تھی ۔ بے شمار انتظامی مسائل کے باوجود اب بھی کچھ حلقوں کی جانب سے ملک میں نئے صوبوں کے معاملے کو اس لیے متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ اس موضوع پر حال ہی میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں ایسے ماہرین کو مدعو کیا گیا تھا جو اس اہم معاملے کی حساسیت سے پوری طرح باخبر نہیں تھے اور اس حوالے سے معترض حلقوں کے تحفظات دور نہیں کر سکے۔ ملک میں نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ نیا نہیں بلکہ مختلف ادوار میں ملک میں مختلف حلقوں کی طرف سے نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے‘ مگر اشرافیہ اس راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنی رہی۔ غالباً 2019ء میں ایم کیو ایم نے سندھ میں نئے صوبے کے قیام کے لیے زور و شور سے جد و جہد شروع کی تھی لیکن شنید ہے کہ اُس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ نے پیپلز پارٹی کی حمایت کرتے ہوئے ایم کیو ایم کی اس جدوجہد کو آگے نہیں بڑھنے دیا تھا۔ اب چونکہ مقتدرہ کی طرف سے بھی ملک میں نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے غور کیا جا رہا ہے تو جلد اس حوالے سے کوئی عملی پیش رفت متوقع ہے۔ اس ضمن میں مَیں نے بھی مقتدر حلقوں کو آئین اور قانون کے مطابق نئے صوبوں کے قیام کے لیے کچھ دستاویزات بھجوائی ہیں۔ 1955ء میں آئین ساز اسمبلی نے ملک کے پانچوں صوبوں کو کالعدم قرار دے کر وَن یونٹ کی بنیاد رکھی تھی جسے اُس وقت کی عسکری قیادت کی مکمل حمایت حاصل تھی اور ملک کے ممتاز سیاستدان حسین شہید سہروردی بھی ون یونٹ کے پُر زور حامی تھے اور ان کی کوششوں سے 1956ء کے دستور میں وَن یونٹ کو آئینی طور پر تسلیم کر لیا گیا لیکن بعد میں ثابت ہوا کہ وَن یونٹ کے تحت ملک کے انتظامی معاملات کو احسن طریقے سے چلانا ممکن نہیں۔
ریاستِ پاکستان کو ایک مضبوط انتظامی ریاست بنانے کے لیے اب مقتدرہ ملک میں نئے صوبے بنانے کے حوالے سے سنجیدہ نظر آتی ہے۔ اس ضمن میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے ایک کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔ ملک میں نئے صوبوں کے قیام سے نہ صرف سیاسی استحکام آئے گا بلکہ انتظامی معاملات میں بہتری سے عوام کا طرزِ زندگی بھی بہتر ہوگا۔ موجودہ حالات کے تناظر میں انتظامی بنیادوں پر ملک میں 15 صوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ تقسیم خالص انتظامی بنیادوں پر ہونی چاہیے کیونکہ لسانی یا نسلی بنیادوں پر نئے صوبوں کی تشکیل سے وحدتِ پاکستان کے تصور کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ ملک میں نئے صوبوں کے قیام اور آئینی اصلاحات کے ساتھ ساتھ سینیٹ کا الیکشن براہِ راست کرانے کے لیے بھی آئین میں ترمیم کی جانی چاہیے۔دنیا بھر میں کئی ملکوں میں اب سینیٹ کا الیکشن براہِ راست ہوتا ہے۔سینیٹ کے براہِ راست الیکشن کے لیے ملک کو سو حلقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت اور مقتدرہ کے ایک پیج پر ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے صوبوں کے قیام کے ساتھ ساتھ سینیٹ کے براہِ راست الیکشن کیلئے بھی کوشش کی جانی چاہیے۔
دوسری طرف چیمپئنز ٹرافی میں ابتدائی دو میچوں میں بدترین شکست کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کے ٹورنامنٹ کے پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہونے کے بعد سے کھلاڑیوں اور کرکٹ بورڈ کو شائقین کرکٹ کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے۔پاکستان کو 29سال بعد چیمپئنز ٹرافی کی صورت میں بین الاقوامی کرکٹ ٹورنامنٹ کی میزبانی کا موقع ملا تو قوم نے نہایت جوش و خروش کے ساتھ قومی کرکٹ ٹیم سے یہ توقعات وابستہ کر لیں کہ دفاعی چیمپئن کی حیثیت سے کرکٹ ٹیم نہایت عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرے گی اور اپنے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کرے گی۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی بھی اس حوالے سے پُرعزم تھے لیکن قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی نے عوام کو سخت مایوس کیا ہے۔ کچھ شائقین کرکٹ کے مطابق قومی ٹیم کے کھلاڑی آج کل کرکٹ سے زیادہ اشتہاروں اور پی آر کمپین کی مد میں ہونے والی کمائی کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کرکٹ کے میدان میں عمدہ کھیل پیش نہیں کر پاتے۔ صرف پاکستانی کھلاڑی ہی اشتہاروں میں کام نہیں کرتے بلکہ باقی بڑی کرکٹ ٹیموں کے کھلاڑی بھی کرتے ہیں لیکن ان کی اِن سرگرمیوں سے ان کا کھیل متاثر نہیں ہوتا۔ماضی میں قومی ٹیم کے کھلاڑیوں پر سٹے بازوں سے ساز باز کے الزامات بھی لگ چکے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو جمہوری حکومتوں کے ادوار میں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ 1970ء سے قبل کرکٹ بورڈ کی حیثیت برائے نام تھی۔ 1973ء کے اوائل میں ذوالفقار علی بھٹو نے سروسز گروپ آف انڈسٹریز کے منیجنگ ڈائریکٹر چودھری محمد حسین کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین نامزد کیا تھا۔ مرحوم چودھری محمد حسین ایماندار انسان اور بہترین منتظم تھے۔ ان کے داماد اعجاز بٹ پاکستان کے نامور کرکٹر تھے۔ فضل محمود‘ اظہر عباس اور عبدالحفیظ کاردار‘ چودھری محمد حسین کی مشاورتی ٹیم کا حصہ تھے۔ چودھری محمد حسین کے صاحبزادے چودھری احمد مختار پاکستان کے وزیر دفاع بھی رہے اور دوسرے صاحبزادے چودھری احمد سعید پی آئی اے کے چیئرمین‘ جنہوں نے اصولوں کی بنیاد پر استعفیٰ دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج خلیل الرحمن رمدے سے بھی ان کی رشتہ داری تھی۔ چودھری محمد حسین نے کرکٹ بورڈ کو اپنے ذاتی وسائل سے مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر دیا تھا۔ ان کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ سیاست کا شکار ہوتا چلا گیا۔اگر کرکٹ بورڈ میں سیاسی مداخلت ختم نہ ہوئی تو آنے والے وقت میں ہماری کرکٹ ٹیم کی کارکردگی مزید مایوس کن ہو گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمینوں نجم سیٹھی‘ احسان مانی‘ ذکا اشرف اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں نسیم اشرف‘ ان سب نے اپنی مرضی کے کھلاڑیوں کو اپنے قریب رکھا جس سے ہماری کرکٹ متاثر ہوئی۔ کرکٹ بورڈ کے موجود چیئرمین سید محسن نقوی کو بورڈ کا چیئرمین مقرر کرنے کا مقصد یہی تھا کہ کرکٹ بورڈ کو سیاسی مداخلت سے دور رکھا جائے لیکن بعض سیاسی جماعتوں سے مضبوط تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں نے ایسا ممکن نہیں ہونے دیا۔
کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین نے گزشتہ سال جب یہ عہدہ سنبھالا تو یہ عندیہ دیا کہ کرکٹ ٹیم کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے جلد ٹیم کی سرجری ہونے والی ہے لیکن کرکٹ بورڈ سے جڑے بعض پرانے لوگوں نے ایسا ہونے نہیں دیا اور آج قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ محسن نقوی کی بطور نگران وزیراعلیٰ پنجاب عمدہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ان کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ سابق کھلاڑیوں اور کھیلوں کے تجزیہ کاروں کی طرف سے چیمپئنز ٹرافی میں قومی ٹیم کی شکست کی بڑی وجہ غلط کھلاڑیوں کی سلیکشن قرار دی جا رہی ہے۔ مستقبل میں سلیکٹر کے عہدے پر کسی بہتری شخص کی تعیناتی یقینی بنائی جانی چاہیے۔ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں سمیت بورڈ انتظامیہ کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔ محسن نقوی جرأت مند ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بورڈ انتظامیہ اور کرکٹ ٹیم کو ازسرِ نو منظم کریں۔ قومی ٹیم میں گروپ بندی کی خبریں بھی خوب گرم ہیں۔ کھلاڑیوں کی اَنا یا آپس کی چپقلش کی وجہ سے ملک کا نام بدنام نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ وزارتِ داخلہ کی مصروفیات کی وجہ سے محسن نقوی کرکٹ بورڈ کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے‘ اس تاثر کا بھی ازالہ کیا جانا چاہیے۔