پاکستان نے آج سے لگ بھگ پینسٹھ برس قبل سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے ستلج‘ چناب اور راوی کے پانی سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے ان دریاؤں کا پانی راجستھان کے صحرا کی طرف موڑ دیا۔ راجستھان تک پانی پہنچانے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کیے گئے۔ وہاں زراعت کے فروغ کے لیے ریت کے اونچے اونچے ٹیلے ہٹائے گئے اور دوسرے علاقوں سے لاکھوں ٹن زرخیزمٹی لا کر وہاں بچھائی گئی لیکن بھارتی حکومت کی ان تمام کوششوں کے باوجود وہاں زراعت شروع نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ راجستھان کی زمین سارا پانی فوراً جذب کر لیتی تھی اور فصلوں کی مناسب افزائش نہیں ہوپاتی تھی۔
بھارتی راجستھان کے برعکس پاکستان میں چولستان کے صحر ا کی صورتحال مختلف ہے۔ ملک کے ماہرینِ موسمیات اور آبی وسائل کے ماہرین بخوبی جانتے ہیں کہ چولستان کی ساٹھ لاکھ ایکڑ زمین کو قابلِ کاشت بنانے کے لیے دریائے سندھ سے چھ نہریں نکالنے کے کیا فوائد ہو سکتے ہیں۔ ملک میں جب 1991ء میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھااُس وقت صوبوں کے لیے دستیاب پانی کی مقدار 114 ملین ایکڑ فٹ سے زائد تھی جو اَب کم ہو کر تقریباً 95 ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے‘ اور اس کمی کا نقصان تمام صوبوں کو پہنچا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے اصل محرک اُس وقت کے وزیر توانائی و تجارت ذوالفقار علی بھٹو تھے‘ جنہوں نے اس معاہدے کی بھرپور وکالت کی تھی اور صدر ایوب خان کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا جبکہ محترمہ فاطمہ جناح نے اس کی سخت مخالفت کی تھی‘ اور اس وقت کے آبی ماہرین نے اسے پاکستان کے لیے زہرِ قاتل قرار دیا تھا۔اس معاہدے کے تحت منگلا‘ تربیلا اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر مقصود تھی تاکہ بھارت کے حصے میں آنے والے تین دریاؤں کے متبادل کے طور پر ملک میں پانی کے نئے ذخائر تعمیر کیے جا سکیں۔ سندھ طاس معاہدے کی روح بھی یہی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کالا باغ ڈیم کی بھرپور حمایت کی تھی اور اس عظیم منصوبے پر کام بھی شروع ہوا تھا۔ منگلا اور تربیلا ڈیم صدر ایوب خان کے دور میں مکمل ہوئے‘ لیکن تربیلا ڈیم کا افتتاح ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں ہوا۔
منگلا اور تربیلا ڈیم کے بعد بھارت نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر روکنے کے لیے اس منصوبے کی مخالفت کے لیے پاکستان میں شدید مہم شروع کرا دی‘ اور یہ منصوبہ صدر ایوب خان کے زوال کے بعد ختم ہو گیا۔ بعد ازاں دہائیوں بعد وزیراعظم نواز شریف اور صدر پرویز مشرف نے اس منصوبے کی حمایت میں نئی مہم شروع کی لیکن مضبوط بھارتی لابی نے انہیں بھی کامیاب نہ ہونے دیا۔ آج دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنے کے خلاف بھی وہی مضبوط لابی سرگرم ہے‘ جو کالا باغ ڈیم کی مخالف ہے۔شنید ہے کہ صدر آصف زرداری نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دریائے سندھ سے نئی نہری نکالنے کے منصوبے کی حمایت کی اور ساٹھ لاکھ ایکڑ زمین کو قابلِ کاشت بنانے کا فیصلہ کیا۔ اگر یہ زمین سرسبز ہو گئی تو زراعت کے شعبے میں ایک سبز انقلاب آ جائے گا اور پاکستان زرعی خود کفالت حاصل کر لے گا مگر بدقسمتی سے بھارتی لابی اس منصوبے کی بھرپور مخالفت کر رہی ہے۔
شاید بلاول بھٹو زرداری صاحب کو اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کالا باغ ڈیم کے زبردست حامی تھے اور انہی کی کوششوں سے اس ڈیم کے لیے عالمی بینک سے خطیر رقم کی گرانٹ کا معاہدہ صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں ممکن ہوا تھا۔ اِس وقت سندھ حکومت کی طرف سے اس منصوبے کی مخالفت کی جا رہی ہے جبکہ وفاقی حکومت کا یہ مؤقف سامنے آیا ہے کہ چھ نہروں کے منصوبے پر صدر زرداری کی دستاویزی منظوری موجود ہے۔ حکومت کے بقول صدر زرداری اس منصوبے کی باضابطہ منظوری دے چکے ہیں۔میرے خیال میں نواز شریف صاحب کو چاہیے کہ وہ بطور قائد پاکستان مسلم لیگ (ن) اس حوالے سے اپنا مؤقف واضح کریں۔
دوسری طرف اگر دہشت گردی کی بات کی جائے تو یہ مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے‘ جس کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ قومی معیشت کی بحالی کی کوششوں کی کامیابی دہشت گردی کے خاتمے سے مشروط ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس مسئلے پر ہر صورت قابو پایا جائے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ عالمی دہشت گردی انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے 163 ممالک میں دہشت گردی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ دہشت گردی میں اضافے کے باوجود نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد امن و امان قائم رکھنا صوبوں کی ذمہ داری ہے لیکن صوبائی حکومتوں کے مابین ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ ہر صوبائی حکومت اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کو ترجیح دے رہی ہے۔
اس وقت حکومت اور مقتدرہ ایک پیج پر ہیں۔ اس لیے عوام حکومت کی جانب سے ان کو ریلیف پہنچانے کے لیے یا معاشی بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات کو مقتدرہ سے منسوب کرتے نظر آتے ہیں۔ حالیہ دنوں پاکستان میں عالمی سطح پر معدنی وسائل سے متعلق جو کانفرنس منعقد ہوئی ہے اس سے ملکی معدنی ذخائر پر سرمایہ کاری کے دروازے کھل جائیں گے۔ پاکستان ترقی کی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے اور اس پیشرفت میں جنرل عاصم منیر اور ان کی ٹیم کا وژن نمایاں ہے۔چند روز پہلے حکومت کی طرف سے گھریلو صارفین کے لیے سات روپے 41پیسے فی یونٹ اور صنعتی صارفین کے لیے سات روپے 69پیسے فی یونٹ بجلی سستی کرنے کا اعلان کیا گیا‘ لیکن اگر افسر شاہی کی طرف سے عوام تک یہ ریلیف پہنچانے میں کسی کوتاہی کا مظاہرہ کیا گیا تو اُسے حکومت کے سامنے جوابدہ ہونا ہو گا۔ بجلی سستی کیے جانے کے بعد حکومتی ٹیم کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح ساٹھ سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے‘ لیکن حکومت کا یہ دعویٰ درست معلوم نہیں ہوتا۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ 1960ء کی دہائی کے پلاننگ کمیشن کا ریکارڈ طلب کریں اور اس کا موازنہ موجودہ پلاننگ کمیشن سے کریں۔ 1965ء میں تو آٹا دس روپے فی من‘ ڈالر چار روپے‘ پاؤنڈ سات روپے‘ پٹرول ایک روپے فی گیلن‘ خوردنی تیل دو روپے فی لٹر‘ چینی ایک روپیہ فی کلو ‘ مرغی‘ بکرے اور گائے کا گوشت ایک روپیہ یا آٹھ آنے فی کلو تھا جبکہ اب ان چیزوں کی قیمتیں بلند ترین سطح پر ہیں۔ چکن کی قیمت پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس لیے مہنگائی میں تاریخی کمی کے دعوے سوچ سمجھ کر کرنے چاہئیں۔ ایسی غلط دعووں سے حکومتی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔
اس وقت حکومت کو اپوزیشن سے بظاہر کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں کیونکہ اپوزیشن تقسیم ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف کے کچھ ارکانِ اسمبلی کی کرپشن کی داستانیں ان کے اپنے ہی ساتھی بیان کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے اراکین عمران خان کی رہائی کی برائے نام کوششوں میں مصروف ہیں حالانکہ خان صاحب کو جب بھی ریلیف ملا عدالت سے ہی ملے گا۔ ابھی تک تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کا معاملہ التوا کا شکارہے‘ یوں نظر آ رہا ہے کہ اس کی توثیق بہرحال آئینی بنچ ہی کرے گا۔اس وقت قومی اسمبلی میں تقریباً 80 مخصوص نشستیں خالی ہیں جبکہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں سینیٹ کی 11 نشستوں کا معاملہ بھی ابھی تک طے نہیں ہو سکا۔