عالمی تجارت اور مستقبل کی سیاسی بساط پر امریکہ‘ چین اور دیگر عالمی طاقتوں کی صف بندیاں اور آئندہ چالیں کیا ہوں گی‘ یہ وقت ہی بتائے گا۔ اگر عالمی سطح پر تجارتی اور سیاسی محاذ آرائی اسی انداز میں بڑھتی رہی تو بعید نہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک کے لیے امریکہ اور چین کی اُبھرتی ہوئی نئی سرد جنگ کے تناظر میں سابقہ سرد جنگ کی مانند‘ کسی ایک کیمپ کا انتخاب مجبوری بن جائے۔ اگر ایسا ہوا تو چین کے ساتھ پاکستان کی روایتی دوستی‘ سی پیک اور معاشی انحصار امریکہ کو مزید کھٹکنے لگے گا۔ ایسے میں پاکستان کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی پر از سر نو غور کرے اور اُس کیمپ میں شمولیت اختیار کرے جو حقیقی معنوں میں اس کے معاشی مفادات اور سلامتی کو ترجیح دیتا ہو۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں منعقدہ اوورسیز پاکستانیز کنونشن سے جنرل عاصم منیر نے بین الاقوامی تناظر میں خطاب کیا۔ آرمی چیف کے خطاب میں جہاں دہشت گردوں اور ملک کے اندر ونی اور بیرونی دشمنوں کیلئے واضح پیغام اورتنبیہ تھی‘ وہیں اوورسیز پاکستانیوں کیلئے تسلی‘ یقین و اعتماد کا پیغام بھی تھا۔ آرمی چیف نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو یقین دلایا کہ افواج پاکستان کی موجودگی میں فتنہ الخوارج کبھی بھی اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔اپنے خطاب میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف پاکستان کے سفیر ہی نہیں بلکہ پاکستان کی وہ روشنی ہیں جو پورے اقوام عالم پر پڑتی ہے۔ بلاشبہ اوور سیز پاکستانی ملک کا سرمایہ ہیں لیکن اگر اس کنونشن سے ہٹ کر بات کی جائے تو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اوورسیز پاکستانی سالانہ تقریباً 34 ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر پاکستان بھیجتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں بھارتی شہری سالانہ 129 ارب ڈالر کی خطیر رقم بھارت بھیجتے ہیں۔ اوورسیز بھارتیوں نے کبھی اپنی حکومتوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ انہیں پارلیمنٹ میں مخصوص نمائندگی دی جائے یا انہیں بیرونِ ملک سے بھارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے۔ بھارتی تارکینِ وطن کے لیے نہ تو پوسٹل بیلٹ کی سہولت موجود ہے اور نہ ہی انہیں بھارتی سفارت خانے میں ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے۔ جس بھارتی شہری نے ووٹ ڈالنا ہو‘ اسے بھارت آ کر اپنے حلقے میں جا کر ووٹ ڈالنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں انڈین سٹیزن ایکٹ 1955ء کے تحت دہری شہریت کی بھی اجازت نہیں‘ اور جو کوئی بھارتی شہری امریکہ یا یورپی ممالک کی شہریت حاصل کر لے‘ اسے بھارتی شہریت ترک کرنا پڑتی ہے۔ بھارت میں کوئی بھی سرکاری ملازم دہری شہریت نہیں رکھ سکتا۔
بھارتی تارکین وطن کے برعکس اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے گاہے پارلیمنٹ میں نمائندگی اور پوسٹل بیلٹ جیسی سہولتیں فراہم کرنے کے مطالبات سامنے آتے رہتے ہیں۔ مارچ میں چارارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر پاکستان بھجوانے پر اوورسیز پاکستانیوں کو حکومت کی طرف سے بہت پذیرائی ملی۔ شنید ہے کہ انہیں سرکاری اخراجات پر پاکستان مدعو کیا گیا اور ریاستی مہمانوں کا پروٹوکول دیا گیا۔ اس وقت ملک کے مجموعی زرِمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں جن میں نجی بینکوں میں جمع شدہ ڈالر بھی شامل ہیں‘ جبکہ بھارت کے زرِمبادلہ کے ذخائر 676 ارب ڈالر ہیں۔ اس کنونشن کے بعد سے میرے ذہن میں یہ سوال اٹکا ہوا ہے کہ اوورسیز کنونشن کے انعقاد سے ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر کیا مثبت اثر پڑے گا؟
اس وقت وفاقی حکومت کو ریاستی مفاد کے تناظر میں مقتدرہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ حکومتِ وقت پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے آٹھ فروری 2024ء کے انتخابات کو متنازع بناکر‘ ان انتخابات پر ہونے والے 60 ارب روپے کے اخراجات کو ضائع کرکے ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ اپوزیشن کی طرف سے ان انتخابات کو مشکوک بنانے کے لیے فارم 45 اور 47 کا شور مچایا گیا لیکن وہ الیکشن ٹربیونلز میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکی۔ انتخابی دھاندلی کے الزامات کے برعکس گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں کئی شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اقتصادی نمومیں بہتری‘ برآمدات میں اضافہ اور سماجی اہداف کی تکمیل کے واضح آثار دکھائی دے رہے ہیں۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ ایک ارب 85 کروڑ 90 لاکھ ڈالر سرپلس ہے جبکہ گزشتہ برس اسی مدت میں یہ خسارہ ایک ارب 65 کروڑ 20 لاکھ ڈالر تھا‘ جو معیشت کے لیے بھاری بوجھ تھا۔ بظاہر سٹیٹ بینک کے گورنر‘ وزیر خزانہ اور وزیراعظم کی پریس کانفرنسز اور خطابات عوام کو مطمئن نہیں کر پاتے لیکن بہر حال معاشی اشاریوں میں بہتری کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ وفاق کے علاوہ پنجاب حکومت بھی کافی متحرک ہے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے درجنوں عوام دوست اور ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام صوبائی حکومت سے خائف نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف اگر تیزی سے تبدیل ہوتی عالمی سیاسی صورتحال کی بات کی جائے تو یہ پاکستان کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے خلیجی ریاستوں کے دورے کرنے اور وہاں کے حکمرانوں کو اپنے ہاں مدعو کرنے کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس وقت اصل ضرورت امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی ہے تاکہ پاکستان ٹرمپ کی ٹیرف جنگ میں محفوظ رہ سکے۔ امریکی نائب صدر ڈی جے وینس نے بھارت کا چار روزہ دورہ کیا ہے جہاں ان کے بچے بھارتی لباسوں میں ملبوس بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ہنستے کھیلتے نظر آئے۔ امریکی نائب صدر کا یہ دورہ بھارت امریکہ تعلقات کو مزید مضبوط کرتا نظر آتا ہے جبکہ ہماری حکومت اور اپوزیشن کی تمام تر توجہ صرف اڈیالہ جیل پر مرکوز دکھائی دیتی ہے۔
دوسری جانب پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین 15 سال کے تعطل کے بعد خارجہ سیکرٹری سطح پر مشاورتی مذاکرات کا آغاز ایک بڑی کامیابی ہے۔ حکومت پاکستان کو بنگلہ دیشی سربراہِ حکومت ڈاکٹر محمد یونس کو دورۂ پاکستان کی دعوت دینی چاہیے۔اس تناظر میں مقتدرہ کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا ہو گا۔پاکستان بتدریج معاشی بحران سے نکل رہا ہے۔ جمہوری عمل کو مزید مضبوط بنانے کے لیے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی بہت ضروری ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری وہاں آتی ہے جہاں سیاسی استحکام موجود ہو اور جمہوری ادارے آئینی حدود میں کام کر رہے ہوں۔
اُدھر بلوچستان میں بھی سیاسی استحکام کی فضا بن رہی ہے۔ اختر مینگل کی جانب سے دھرنا ختم کرنے کے بعد وفاقی حکومت کے لیے بلوچستان کے لیے نئے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ اختر مینگل سنجیدہ اور بردبار سیاستدان ہیں۔ جام کمال خان نے اختر مینگل اور حکومت کے مابین مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا۔ جام کمال اس وقت ممبر قومی اسمبلی ہیں اور وہ اس سے قبل بلوچستان کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ جام کمال خان ایک محب وطن سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد جام محمد یوسف بھی بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں جبکہ ان کے دادا جام غلام قادر خان ایوب دور میں وزیر تھے۔جام کمال خان کی وزارتِ اعلیٰ میں بلوچستان کے حالات قدرے بہتر تھے۔ اس لیے انہیں دوبارہ وزیراعلیٰ بلوچستان بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔پاکستان اب خطرات سے باہر آ چکا ہے۔ خلیجی ممالک پاکستان میں امن و استحکام کے خواہاں ہیں۔ افغانستان بھی پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے ۔ بلوچستان میں امن و امان بحال ہو رہا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ جون میں بجٹ کی منظوری کے بعد وفاق میں اہم تبدیلیاں رونما ہوں گی۔