گزشتہ دنوں اسلام آباد میں منرلز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد عالمی معدنی معیشت میں پاکستان کے کردار کو نمایاں کرنا تھا۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے 300 سے زائد مندوبین نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ اس دوران متعدد مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط اور دستاویزات کے تبادلے ہوئے جبکہ نئے وسیع معدنی ذخائر کی دریافت کا اعلان بھی سامنے آیا۔ اسی اجلاس میں بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پر سونے اور تانبے کے نئے وسیع ذخائر کی دریافت کا اعلان بھی کیا گیا۔ ریکوڈک کے مقام پر سونے‘ چاندی اور تانبے کے ذخائر نکالنے والی عالمی کمپنی بیرک گولڈ کے چیف ایگزیکٹو مارک برسٹو کا کہنا تھا کہ ریکوڈک پاکستان کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے بالخصوص بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کا باعث بنے گا۔ پاکستان کی بقا‘ ترقی اور خوشحالی ہم سب کی مشترکہ منزل ہے۔ پاکستان منرلز کانفرنس کی کامیابی میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے کلیدی کردار ادا کیا۔ بلاشبہ ہماری بیورو کریسی میں اعلیٰ ذہانت کے حامل افراد کی کمی نہیں۔ ان کو صحیح مقام پر رکھنا اور بروئے کار لانا ہی جنرل سید عاصم منیر کا ایجنڈا ہے۔
ریکوڈک سونے کے بڑے ذخائر میں گنا جاتا ہے۔ اگر سونے اور تانبے کی مجموعی پیداوار کو دیکھا جائے تو 70 ارب ڈالر کا تخمینہ ہے۔ ریکوڈک ایک پیداواری کان ہے اور اس منصوبے پر 2026ء سے مائننگ کا آغاز ہو گا۔ اب تک یہاں بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ سیندک اور ریکوڈک پاکستان کا بہت بڑا معدنی ذخیرے ہیں۔ مجھے حیرانی ہے کہ منرلز کانفرنس کے دوران سیندک پروجیکٹ کا ذکر سامنے نہیں آیا حالانکہ سیندک سے 1998ء میں اچھی خاصی مقدار میں سونا حاصل کیا گیا تھا۔ 1993ء میں چین کے تعاون سے یہاں کام کا آغاز ہوا تھا اور سیندک پروجیکٹ عالمی شہرت حاصل کر چکا تھا۔ 1995ء میں سیندک کا آزمائشی آپریشن شروع کیا گیا اور 1500 میٹرک ٹن تانبے اور سونے کی پیداوار کی گئی جبکہ اگلے ہی سال تکنیکی اور مالی وجوہات کی بنا پر اس منصوبے کاکام معطل کردیا گیا جس کے بعد 2003ء سے دوبارہ آپریشن بحال ہوا۔ سیندک پروجیکٹ شاہراہ تفتان کے ساتھ 16 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔اس امر کی تحقیق کی جانی چاہیے کہ سیندک پروجیکٹ کو نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں کیوں بند کر دیا گیا حالانکہ اُس دور میں چین کی حکومت نے یہاں 17 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی تھی۔
جب میری بلوچستان میں بطور الیکشن کمشنر پوسٹنگ تھی تو میں نے سیندک کا بھی دورہ کیا تھا اور مجھے یہ جان کر بہت حیرانی ہوئی تھی کہ اس منصوبے کو حکومت نے بند کر رکھا تھا۔ میں نے تقریباً چھ گھنٹے سیندک پروجیکٹ کا معائنہ کیا۔ سونا‘ تانبا اور چاندی نکالنے کے سارے مراحل مجھے دکھائے گیا اور بطور نمونہ تیار ہونے والا سونا‘ چاندی اور تانبا بھی مجھے دکھایا گیا۔ پہاڑ کاٹ کر بجلی کی مدد سے پانچ ہزار ڈگری سینٹی گریڈ تک پتھروں کو پگھلایا جاتا تھا مگر اُس وقت اس پروجیکٹ کی بجلی منقطع کر دی گئی تھی۔ میں نے اس پروجیکٹ کی دلخراش صورتحال کی رپورٹ وزیراعظم نواز شریف‘ گورنر بلوچستان میاں گل اورنگزیب‘ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف‘ کوئٹہ کے کور کمانڈر جنرل طارق پرویز‘ چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد اور ملک کے نامور سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھجوائی تھی۔ گورنر بلوچستان میاں گل اورنگزیب نے ذاتی طور پر مجھے بتایا کہ سیندک پروجیکٹ کو بند کرانے میں عالمی سازشوں کا کردار ہے۔ ایسی ہی کچھ باتیں مجھے نواب اکبر بگتی نے بھی بتائی تھیں۔ میرے خطوط کے جواب میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے میری حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ وہ یہ معاملہ ذاتی طور پر وزیراعظم کے نوٹس میں لائیں گے۔ کورکمانڈر کوئٹہ جنرل طارق پرویز نے بتایا کہ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے میرے مراسلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ سیندک پروجیکٹ کو فوجی فائونڈیشن کی تحویل میں لینے پر غور و خوض کیا جائے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مداخلت اور گورنر بلوچستان میاں گل اورنگزیب کی ذاتی دلچسپی کی بنا پر میاں نواز شریف نے سیندک کا دورہ کیا اور اسے بحال کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ سیندک پروجیکٹ کارپوریشن کی انتظامیہ نے بھی میرا شکریہ ادا کیا مگر دوبارہ کام کا آغاز نہیں ہوا۔ میرے پاس اب بھی سیندک کی رپورٹ کا مکمل ریکارڈ موجود ہے۔ اب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو‘ جو پاکستان منرلز کانفرنس کے محرک ہیں‘ اس معاملے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے کہ آخر سیندک پروجیکٹ کو بند کرنے کی وجوہات کیا تھیں۔ اُن دنوں میں نے ریکوڈک منصوبے کی جگہ کا بھی معائنہ کیا تھا۔ اُس وقت آسٹریلیا کے ماہرین اس علاقے کا جغرافیائی سروے کر رہے تھے اور تب یہ منصوبہ خام خیال لگ رہا تھا مگر آج ریکوڈک پاکستان کی معاشی ترقی کی شہ رگ قرار دیا جا رہا ہے۔
بلوچستان میں عوامی سوچ یہ ہے کہ حکومت پاکستان کو 2003ء سے 2017ء تک بلوچستان کے معدنی ذخائر سے تقریباً دو ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی۔ حکومت بلوچستان کو 2004ء سے 2022ء تک لگ بھگ سوا تیرہ ارب روپے رائلٹی اور 2.6 ارب روپے منافع کی مد میں دیے گئے۔ یہ رقم کن منصوبوں پر خرچ ہوئی‘ کسی کو علم نہیں۔ بلوچستان کے عوام بالعموم اور چاغی‘ نوشکی اور دالبدین جیسے پسماندہ علاقوں کو بالخصوص تعلیم‘ صحت‘ روزگار‘ پینے کے صاف پانی‘ ہسپتالوں‘ سکولوں‘ انفراسٹرکچر اور بجلی کے منصوبوں کی قلت کا سامنا ہے۔ اگر یہ رقم صوبائی خزانے میں جمع کرائی گئی تو اس کی آڈٹ رپورٹ یا اخراجاتی تفصیل کہاں دستیاب ہے؟ پارلیمنٹ میں عوامی نمائندگانِ بلوچستان اس معاملے پر مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں؟
سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے عالمی معاہدوں کو پس پشت ڈال کر ریکوڈک کے منصوبے میں مداخلت کی تھی اور بعض ارکانِ پارلیمنٹ بھی اس میں شامل تھے جس کی وجہ سے یہ منصوبہ متنازع ہوتا چلا گیا اور پاکستان کو اربوں ڈالر کا جرمانہ ہوا۔ اب بھی ملک میں بعض ایسے افراد موجود ہیں جو بھارت نواز سوچ رکھتے ہیں اور معدنیات کی عالمی کانفرنس سے خوفزدہ ہیں۔ سیاسی و عسکری قیادت کو چاہیے کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو احساس دلائے کہ ان کا صوبہ معدنیات سے مالا مال ہے اور صوبے کے یہ وسائل صوبے کی تعمیر و ترقی پر ہی خرچ ہوں گے۔ بس چند برس انتظار کر لیں‘ یہ صوبہ ملک کا خوشحال صوبہ بن جائے گا اور ان منصوبوں کی تکمیل سے بلوچستان میں صنعتوں کو بھی فروغ ملے گا۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی نگرانی میں ایس آئی ایف سی کا ادارہ بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے بہترین کام کر رہا ہے اور ان کی کوششوں ہی سے منرلز کانفرنس کامیاب ہوئی ہے۔ سیندک کے حوالے سے بھی جامع انکوائری کرائی جانی چاہیے کہ اس پروجیکٹ پر چین نے 17 ارب روپے کی خطیر لاگت سے سونے‘ تانبے اور چاندی کی برآمدات شروع کر لی تھیں تو پھر اچانک اسے کیوں بند کیوں کردیا گیا؟ اس کے محرکات کیا تھے؟ نواب اکبر بگتی‘ اُس وقت کے کور کمانڈر جنرل طارق پرویزاور گورنر بلوچستان میاں گل اورنگزیب نے جن محرکات اور پس پردہ کرداروں کے بارے میں آگاہ کیا تھا اس میں کتنی حقیقت تھی؟ جنرل (ر) طارق پرویز اپنی یادداشتوں کو بروئے کار لا کر اب اس معاملے پر بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔