دوسری عالمی جنگ کے بعد جب دنیا کی دو سپر پاورز‘ امریکہ اور سوویت یونین کے مابین نظریاتی‘ سیاسی‘ معاشی اور عسکری شعبوں میں کشمکش کا آغاز ہوا تو دونوں طاقتوں نے ایک دوسرے کے خلاف اپنے ہم خیال ساتھی ملکوں پر مشتمل اتحاد قائم کرنا شروع کر دیے۔ اس کی ابتدا امریکہ نے 1949ء میں کی جب کینیڈا اور مغربی یورپ کے ممالک پر مشتمل شمالی اوقیانوسی معاہدے NATO کی بنیاد رکھی گئی۔ جواب میں سوویت یونین نے مشرقی یورپ کے ممالک کو ملا کر 1955ء میں وارسا پیکٹ تشکیل دیا۔ دونوں فوجی معاہدوں کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سرد جنگ کا مرکز یورپ میں تھا لیکن 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد مشرق وسطیٰ اور 1951ء میں کوریا جنگ کے بعد جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق بعید بھی سوویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ کی لپیٹ میں آ گئے اور اس کے نتیجے میں امریکہ نے ان خطوں کے ''دفاع‘‘ کے لیے فوجی اتحاد قائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس طرحSoutheast Asia Treaty Organization(SEATO) اور معاہدۂ بغداد‘ جو عراق کی علیحدگی کے بعد سینٹو (CENTO) کے نام سے مشہور ہوا‘ علی الترتیب 1954ء اور 1955ء میں قائم ہوئے۔ پاکستان ان دونوں معاہدوں کا رکن رہا۔ البتہ سینٹو میں پاکستان کی موجودگی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ امریکی کوشش کے باوجود بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے اس معاہدے میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ پنڈت نہرو کے انکار کی وجہ عام طور پر یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ سوشلسٹ خیالات کی وجہ سے سوویت یونین کے حامی تھے اور اس کے خلاف کسی معاہدے میں شمولیت کے لیے تیار نہ تھے‘ لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ پنڈت نہرو جنوبی ایشیا اور بحر ہند پر مشتمل خطے میں بھارت کی سیادت قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس کی طرف واضح اشارے اُن کی کتاب ''ڈسکوری آف انڈیا‘‘ میں ملتے ہیں جس میں انہوں نے بحر ہند کے مشرق اور مغرب میں واقع بالترتیب ایسٹ انڈنیز (انڈونیشیا)‘ ہند چین اور ملائیشیاو خلیج فارس اور افریقہ کے مشرقی ساحل پر واقع ممالک میں ہندو تہذیب اور کلچر کے آثار کا حوالہ دے کر پورے جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے خطے کے لیے ایک نئی منرو ڈاکٹرائن (Monroe Doctrine) کی تجویز دی۔ واضح رہے کہ1823ء میں امریکی صدر جیمز منرو نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کے بارے میں ایک اہم اعلان کیا تھا‘ جوچار اصولوں پر مبنی تھا:1۔ مریکہ یورپی ممالک کے مابین (جنگ وغیرہ) اور اندرونی معاملات سے کوئی سروکار نہیں رکھے گا۔ 2: امریکہ مغربی کرۂ ارض یعنی شمالی اور جنوبی امریکہ میں موجود یورپی ممالک کی نوآبادیات کو تسلیم کرتا ہے۔ 3: البتہ اس میں یورپی ممالک کو نئی نوآبادیاں قائم کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ 4: شمالی اور جنوبی امریکہ میں اگر کسی یورپی ملک نے طاقت کے ذریعے کسی قوم پر تسلط قائم کرنے کی کوشش کی تو امریکہ اسے اپنے خلاف معاندانہ اقدام تصور کرے گا۔ مختصراً یہ کہ اس اعلان کے ذریعے امریکہ نے مغربی نصف کرۂ ارض خصوصاً لاطینی (جنوبی) امریکہ کو امریکہ کا مکمل حلقۂ اثر قرار دے کر یورپی اقوام کے لیے اس کے دروازے بند کر دیے۔ اسی طرز کی پالیسی کی بنیاد پر آزاد بھارت کے پہلے وزیراعظم بھی مشرق وسطیٰ سے جنوب مشرقی ایشیا تک پھیلے بحر ہند کے خطے میں بھارت کی مکمل بالادستی کے خواہشمند تھے اور انہوں نے اپنی اس خواہش کا اعلانیہ اظہار بھی کر رکھا تھا۔ تاہم خطے کے دوسرے ممالک جن میں (مشرقی و مغربی)پاکستان کے علاوہ نیپال اور سری لنکا بھی شامل تھے‘ نہرو کے ان خیالات سے متفق نہیں تھے اور وہ آزاد اور خودمختار ممالک کی حیثیت سے رہنا چاہتے تھے۔
1950ء کی دہائی کے دوران پاکستان کی امریکی سرپرستی میں قائم دفاعی معاہدوں میں شمولیت اور پاک امریکہ دو طرفہ دفاعی تعلقات نے بھارت اور سوویت یونین کو مزید قریب لانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ بھارت کو سوویت یونین کی طرف سے نہ صرف سیاسی اور سفارتی حمایت حاصل رہی بلکہ دفاعی شعبے میں اسلحہ اور ہتھیاروں کے لیے بھارت کا کلیتاً انحصار سوویت یونین پر تھا۔ اس کی مسلح افواج کے تینوں شعبے یعنی آرمی‘ ایئر فورس اور نیوی 70 فیصد سے زیادہ حد تک روسی ہتھیاروں سے مسلح تھے۔ 1991ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد صورتحال میں بنیادی تبدیلی رونما ہوئی اور بھارت نے اسلحہ اور ہتھیاروں کے لیے دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی خریداری معاہدے کرنا شروع کر دیے‘ ان میں یورپی ممالک کے علاوہ امریکہ بھی شامل تھا۔
امریکہ جو شروع ہی سے جنوبی ایشیا میں چین کے اثر ورسوخ کے آگے بند باندھنے کا خواہشمند تھا‘ نے بھارت کی پالیسی میں اس تبدیلی کو خوش آمدید کہا اور تجارت‘ تعلیم‘ صنعت‘ زراعت اور دفاع سمیت مختلف شعبوں میں بھارت کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کرنا شروع کر دیا۔ بھارت اور امریکہ کے مابین دفاعی تعاون کی حقیقی بنیاد 2005ء میں رکھی گئی جب اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے امریکہ کا دورہ کیا۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے ساتھ ان کی ملاقات کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں امریکی صدر نے بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر ڈیل پر دستخط کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا اور اس سلسلے میں قانونی رکاوٹیں دور کرنے کے لیے امریکی کانگریس سے درخواست کر کے انہیں دور کرانے کا وعدہ کیا۔ وزیراعظم منموہن سنگھ اور صدر بش کی اس مفاہمت کے بعد 2008ء میں امریکہ اور بھارت نے سول نیوکلیئر ڈیل پر دستخط کر دیے جس کے تحت امریکہ نے نہ صرف پُرامن مقاصد کے لیے بھارت میں ایٹمی پلانٹ نصب کرنے بلکہ ان میں استعمال ہونے والے ایٹمی ایندھن کی سپلائی پر پابندیوں کو ہٹانے کا بھی اعلان کیا۔ 2005ء میں منموہن سنگھ کے دورۂ امریکہ کے دوران بھارت اور امریکہ کے مابین دفاعی شعبے میں تعاون اور دفاعی ٹیکنالوجی کے ٹرانسفر کے ایک فریم ورک پر بھی دستخط ہوئے‘ جس کے تحت امریکہ نے بھارتی استعداد بڑھانے کے لیے جدید ترین ڈیفنس ٹیکنالوجی بھارت کو ٹرانسفر کرنے کا اعلان کیا۔ 2014ء کے بھارت کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی اور نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے اب تک بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں مزید گہرائی اور وسعت پیدا ہوئی ہے۔ امریکہ اور بھارت کے مختلف شعبوں مثلاً تجارت‘ سرمایہ کاری‘ صنعت‘ زراعت‘ تعلیم‘ دفاع‘ آئی ٹی‘ خلائی تحقیق اور ہتھیاروں کی خریدو فروخت میں دوطرفہ بنیاد پر نمایاں اضافہ ہوا ہے اور دونوں ملکوں کے مابین تعاون اور شراکت کاری کا سلسلہ علاقائی سے بڑھ کر عالمی سطح تک پھیل چکا ہے۔
2005ء میں وزیراعظم منموہن سنگھ اور صدر بش نے امریکہ بھارت دفاعی تعلقات کی بنیاد رکھی اور صدر اوباما نے بھارت کو امریکہ کا ایک بڑا دفاعی پارٹنر قرار دیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اپنی پہلی صدارتی مدت میں فروری 2020ء میں بھارت کا دورہ کر چکے ہیں‘ انہوں نے بھی بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو وسعت دی ۔ اس کا ثبوت امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ بھارت کی ''کواڈ‘‘ (Quad) کے اتحاد میں شمولیت ہے۔ اس اتحاد میں شمولیت نے بھارت کو امریکہ کا گلوبل سٹرٹیجک پارٹنر بنا دیا۔ اب بھارت اور امریکہ کے تعلقات دوطرفہ بنیادوں پر تعاون تک محدود نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ سے لے کر مشرق بعید اور بحر ہند سے جنوب مشرقی ایشیا اور بحر الکاہل تک پھیلے ہوئے ''انڈو پیسفک‘‘ ریجن میں امریکہ کے سٹرٹیجک مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری کواڈ پر ہے۔ اس ذمہ داری کے تحت بحر ہند اور بحر الکاہل میں ہر سال کواڈ کی بحری مشقیں بھی ہوتی ہیں جن میں بھارتی بحریہ کے جنگی جہاز اور آبدوزیں بھی شرکت کرتی ہیں۔ (جاری)