"KMK" (space) message & send to 7575

صدرِ مملکت کی تقریر اور آئین کا آرٹیکل47

اس قوم پر اللہ کا یہ بڑا احسان ہے کہ اسے ہر دو چار دن کے بعد دل لگانے اور اصل مسائل سے بے غم کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی ایسی تازہ بہ تازہ شے میسر آ جاتی ہے جس سے نہ صرف اس قوم کی توجہ درپیش حقیقی مسائل سے ہٹ جاتی ہے بلکہ سوشل میڈیا اور محفلوں میں رونق بھی لگی رہتی ہے۔ کبھی کوئی واقعہ ہو جاتا ہے اور کبھی کوئی حادثہ۔ قدرت ہر دو چار دن کے بعد اس قوم کو کوئی نہ کوئی شغل دیے رکھتی ہے۔ سخت جانی کا یہ عالم ہے کہ اب تو کوئی حادثہ بھی حادثہ نہیں لگتا۔ پے در پے حادثات سے اس قوم کی کھال اتنی سخت ہو گئی ہے کہ اب کسی چھوٹے موٹے حادثے یا واقعے کا تو اس پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ اور قوم پر ہی کیا موقوف‘ سرکار تک شاک پروف ہو گئی ہے۔جو واقعات دنیا بھر میں حکومتوں کیلئے باعثِ شرم یا چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں ہمارے ہاں بالکل عام سی روٹین کی بات بن کر رہ گئے ہیں۔ دنیا بھر میں جن واقعات کو حکومتیں اپنے لیے اَنا اور عزت کا مسئلہ بنا لیتی ہیں ہمارے ہاں ٹھنڈے پیٹوں برداشت بھی کیے جاتے ہیں اور فوری طور پر بھلا بھی دیے جاتے ہیں۔ ریاست کی رِٹ نامی شے تو عرصہ ہوا رخصت ہو چکی ہے لیکن اصل صدمے کی بات یہ ہے کہ حکومت کو اپنی تہی دامنی اور بے حسی کا رتی برابر احساس نہیں ہے۔
دنیا بھر میں حکومتیں اور کچھ کریں یا نہ کریں‘ کم از کم اپنے ملازموں اور اہلکاروں کی پشت پناہی ضرور کرتی ہیں۔ سرکارکا ملازم کوئی عام آدمی نہیں بلکہ از خود سرکار ہوتا ہے‘ وہ ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے۔ جب وہ سرکار کی رِٹ قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو حکومت اس کی پشت پر کھڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت بذاتِ خود حکومت ہوتا ہے۔ مجھے ایک بار شفیق نے بتایا کہ کسی شخص نے امریکی محکمہ ڈاک کے کسی اہلکار کو‘ جب وہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا‘ محض ایک تھپڑ مار دیا تو اس پر نہ صرف امریکی محکمہ ڈاک نے بلکہ پوری ریاست نے اس واقعے کو مثال بناتے ہوئے سرکاری اہلکار کو دورانِ ڈیوٹی تھپڑ مارنے والے کے خلاف پوری طاقت سے کیس چلایا اور اسے قرار واقعی سزا دلوائی۔ ایسا نہیں کہ کوئی شخص ڈیوٹی پر موجود کسی شخص کو جسمانی نقصان پہنچائے اور پھر وہ قانون کی زد میں آئے بغیر صاف نکل جائے‘ تاہم ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں سرکاری اہلکار کی عزت و توقیر سے زیادہ ملزم کی سماجی‘ سیاسی اور سرکاری حیثیت کا مسئلہ درپیش آ جاتا ہے۔ کوئٹہ میں باوردی اور ڈیوٹی پر موجود ٹریفک پولیس کے افسر کو دن دہاڑے رکنِ صوبائی اسمبلی نے اپنی گاڑی کے نیچے کچل کر جان سے مار دیا۔ اس حادثے کی وڈیو فوٹیج تک موجود تھی‘ چشم دید گواہوں کی کمی نہیں تھی مگر ملزم صاف بری ہو کر اسمبلی پہنچ گیا۔ اس شہرہ آفاق کیس میں صوبائی حکومت نے اپنے اہلکار کی شہادت پر رکنِ صوبائی اسمبلی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے کے بجائے سارا زور اس بات پر لگایا کہ اس کا معزز رکنِ اسمبلی کسی طرح باعزت بری ہو کر واپس اسمبلی پہنچ جائے۔ رکن صوبائی اسمبلی کا باعزت بری ہونا دراصل ساری ریاست کو بے عزت کرنے کے مترادف تھا مگر ریاست نے رکن صوبائی اسمبلی کی باعزت بریت کو اپنی بے عزتی اور بے توقیری پر ترجیح دی۔ جب ریاستیں اپنے اہلکاروں‘ ملازموں اور افسروں کی عزت پر عہدے‘ طاقت‘ دولت اور حیثیت کو ترجیح دینے لگ جائیں تب کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ اگست 2024ء میں کچے میں بارہ پولیس اہلکاروں کی شہادت ہو گئی۔ سرکار نے اس اندوہناک واقعے پر اس طرح ردعمل دینے کے بجائے جیسا کہ اسے دینا چاہیے تھاصرف یہ کیا کہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر رحیم یار خان کو دیگر تین افسران کے ساتھ عہدے سے ہٹا دیا۔ مجھے گمان ہی نہیں یقین ہے کہ موصوف ڈی پی او اور معطل شدہ تین دیگر افسران نہ صرف اب تک بحال ہو چکے ہوں گے بلکہ ممکن ہے کہ پہلے سے بہتر پوسٹنگ کے مزے لوٹ رہے ہوں۔ کسی مہذب معاشرے میں ایسا ہوتا تو سارے محکمے کی رات کی نیند اُڑ چکی ہوتی۔ آئی جی صاحب نے ہر قسم کا آرام اپنے اوپر حرام کر لیا ہوتا اور ریاست اب تک کچے کا پکا بندوبست کر چکی ہوتی مگر عالم یہ ہے کہ کچا آباد ہے‘ ڈاکو شاد ہیں‘ پولیس آرام اور افسران مزے میں ہیں۔ کاش کسی نے سانحہ نو مئی کی کسی ایف آئی آر میں ان ڈاکوؤں کا نام لکھوایا ہوتا پھر دیکھتے کہ ریاست کس جانفشانی اور دلجمعی سے انکے خلاف ایکشن لیتی۔ مگر یہ خاک نشینوں کا خون تھا جو رزقِ خاک ہو گیا۔ دو دن اخبارات میں خبریں آئیں اور اس کے بعد راوی چین لکھتا ہے اور چین بھی کوئی ایسا ویسا۔
دو چار دن کوئی خبر چلتی ہے‘ ساری قوم اس کے پیچھے لگ جاتی ہے۔ کچھ دن کا رونق میلہ لگتا ہے اور پھر کوئی نئی خبر‘ کوئی نیا واقعہ یا حادثہ مداری کے نئے کرتب کی طرح اس تماش بین قوم کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ پھر کوئی نئی بات مارکیٹ میں آ جاتی ہے‘ قوم سوشل میڈیا پر اس سے لطف اندوز ہوتی ہے‘ لوگ اس کو صدقہ جاریہ سمجھ کر فارورڈ کرتے ہیں۔ دو چار دن اسی شغل میلے میں گزر جاتے ہیں۔ جیسے ہی واقعہ تھوڑا پرانا ہونے لگے‘ کوئی نیا واقعہ یا حادثہ مداری کی پٹاری سے نکل کر ساری قوم کو دوبارہ اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ پھر چار دن مزے میں گزر جاتے ہیں اور یہ چکر کبھی ختم نہ ہونے والے دائرے کی صورت چلتا رہتا ہے۔
تازہ واقعہ جناب آصف علی زرداری کی 23مارچ والی تقریر ہے۔ بقول شوکت گجر اگر ان کی جسمانی اور ذہنی حالت اس تقریر کے قابل نہیں تھی تو انہیں کس حکیم نے یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اس قوم کو اپنے اس عظیم بھاشن سے بہرہ مند فرمائیں؟ پھر مجھ سے کہنے لگا کہ یہ کس قسم کی ریاست ہے اور کس قسم کے حکمران ہیں؟ میں نے کہا: آپ تو ماشاء اللہ پڑھنے والے شخص ہیں آپ نے شہاب نامہ ضرور پڑھ رکھا ہوگا۔ اس میں آپ نے گورنر جنرل غلام محمد کا حال بھی پڑھا ہی ہوگا۔فالج کے باعث بولنے سے عاری تھے۔ ان کی گفتگو اور کسی کو سمجھ نہیں آتی تھی‘ سوائے ان کی امریکی سیکرٹری مس روتھ بورل کے‘ اور وہ ان کی غوں غاں کا جو بھی ترجمہ کر دیتی تھی اس پر عملدرآمد ہو جاتا تھا۔ اب یہ مس بورل پر منحصر تھا کہ وہ گورنر جنرل کی ناقابلِ فہم زباں کا کیا مفہوم بیان کرتی ہیں۔ فالج زدہ گورنر جنرل کی جسمانی صحت کا یہ عالم تھا کہ تھوک تک نہیں پھینک سکتا تھا۔ پھینکی گئی تھوک اس کے اپنے کپڑوں پر گر جاتی تھی مگر اس عالم میں بھی حرصِ اقتدار کا یہ عالم تھا کہ 1951ء سے 1955ء تک چار سال پاکستان کے گورنر جنرل رہنے والے غلام محمد نے اس دوران خواجہ ناظم الدین جیسے شاندار سیاسی کیریئر کے حامل وزیراعظم کو بیک جنبشِ لب‘ جس سے سوائے غاں غوں کے کچھ نہیں نکلتا تھا‘ برطرف کر دیا اور محمد علی بوگرہ کو اقوام متحدہ سے واپس بلا کر وزارتِ عظمی کی کرسی پر بٹھا دیا۔ قدرت اللہ شہاب نے غلام محمد کے ایسے ایسے واقعات لکھے ہیں کہ ان واقعات کے سامنے اپنے صدر زرداری کی تقریر نابالغ بچہ لگتی ہے۔
شوکت کہنے لگا: لیکن 1955ء سے 2025ء تک‘ کامل ستر برس گزر گئے ہیں‘ ان ستر سالوں میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے مگر ہم ہیں کہ وہیں کھڑے ہیں اور جسمانی و ذہنی طور پر فارغ حکمرانوں کے زیر سایہ زندگی گزار رہے ہیں۔ میں نے کہا: 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 47کے مطابق اگر صدر ذہنی یا جسمانی طور پر اپنے فرائض کماحقہٗ طور پر سرانجام دینے سے قاصر ہو تو اسے اس کے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ تم اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کر سکتے ہو۔ شوکت ہنس کر کہنے لگا: عدالتوں کی بھلی پوچھیں۔ جمشید دستی کا 2008ء والا جعلی ڈگری کیس گزشتہ 17 سال سے عدالت میں زیرِ سماعت ہے اور ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔ اس دوران جمشید دستی تین‘ چار بار الیکشن لڑ چکا ہے۔ اگر میرا کیس عدالت میں لگ بھی گیا تو فیصلہ ہونے سے کئی سال پہلے زرداری صاحب اپنی مدت صدارت پوری کر لیں گے۔ سچی گل اے کہ میرے کول تے ایناں ٹیم ای نئیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں