"KMK" (space) message & send to 7575

ہیرو سے محبت کرنے والا بھی ہیرو سے کم نہیں ہوتا

مورخہ21 مارچ 2025ء کو‘ یعنی آج سے ٹھیک چار دن قبل جارج ایڈورڈ فورمین انتقال کرگیا۔ جارج فورمین باکسنگ کی تاریخ کا سب سے زوردار مکے مارنے والا ایک ایسا ناقابلِ فراموش کردار تھا جس کے ذکر کے بغیر باکسنگ کا کھیل نامکمل رہے گا۔ ایک دور تھا جب میں جارج فورمین المعروف ''بگ جارج‘‘ کو انتہائی ناپسند کرتا تھا۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ یہ محمد علی کا مدمقابل تھا۔ پھر میں نے جارج فورمین کو پسند کرنا شروع کردیا اور اس کی واحد وجہ بھی یہی تھی کہ جارج فورمین نے محمد علی کو نہ صرف پسند کرنا شروع کردیا بلکہ باکسروں کے مابین دوستی کے حوالے سے جارج فورمین محمد علی کا ''بیسٹ فرینڈ‘‘ تھا۔ اگر یہ دونوں بچپن میں ملے ہوتے تو سکول میں ''مائی بیسٹ فرینڈ‘‘ والا مضمون یقینا ایک دوسرے کے بارے میں ہی لکھتے۔
محمد علی نے 1960ء کے روم اولمپکس میں مڈل ہیوی ویٹ کلاس میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ انہی اولمپک گیمز میں پاکستان نے ہاکی میں پہلا گولڈ میڈل حاصل کیا۔ محمد علی کے گولڈ میڈل کے آٹھ سال بعد جارج فورمین نے 1968ء کے میکسیکو سٹی اولمپکس کے ہیوی ویٹ ڈویژن میں گولڈ میڈل جیتا۔ اس اولمپک میں پاکستان نے فائنل میں آسٹریلیا کو شکست دے کر ہاکی میں دوسرا گولڈ میڈل حاصل کیا۔
دنیائے باکسنگ کی تاریخ مرتب کرنے والے ماہرین جب اس کھیل میں زور دار مکے مارنے والے باکسروں کی فہرست مرتب کرتے ہیں تو سو میں سے نوے میں بگ جارج کو پہلا نمبر دیا جاتا ہے۔ جب 1974ء میں محمد علی اور جارج فورمین کے درمیان زائرے(موجود ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو) میں باکسنگ کی تاریخ کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا مقابلہ ہونے والا تھا تو ننانوے فیصد مبصرین اور ماہرین اسے نہ صرف یکطرفہ مقابلہ سمجھتے تھے بلکہ انہیں یقین تھا کہ بے پناہ زور دار مکے مارنے والا بگ جارج محمد علی کو پہلی بار فرش کی دھول بھی چٹا دے گا مگر محمد علی نے اپنی ایجاد کردہ فائٹنگ تکنیک ''Rope-a-dope‘‘کے ذریعے گزشتہ انتالیس مقابلوں میں ناقابلِ شکست جارج فورمین کو آٹھویں رائونڈ میں ناک آئوٹ کرکے باکسنگ کی تاریخ کا سب سے ناقابلِ یقین اور محیر العقول کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ باکسنگ کی تاریخ کے چند بڑے اَپ سیٹس میں سے ایک تھا۔
اس شکست نے جہاں باکسنگ کے اور بہت سے روایتی تصورات کا جنازہ نکالا‘ وہیں اس شکست نے جارج فورمین کی زندگی تبدیل کرنے کا کارنامہ بھی سرانجام دیا۔ اس مقابلے میں جسے ''رمبل اِن دی جنگل‘‘ کا نام دیا گیا تھا‘ مورخہ 30 اکتوبر 1974ء کو شکست کھانے کے بعد جارج فورمین نے اسی رات پانچ لوگوں سے باکسنگ کھیلی اور انہیں شکست دی۔ جارج فورمین سے ایک بار جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا کہ دراصل میں اپنی اس شکست کو ذہنی طور پر تسلیم ہی نہیں کر رہا تھا۔ میں اس مقابلے سے قبل ہی اپنی جیت کے بارے میں نہ صرف پُراعتماد تھا بلکہ over confident تھا۔ اس شکست نے میرا سارا باکسنگ کیریئر گہنا دیا تھا۔ میں صرف یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ رات محمد علی سے ہارنے والا دراصل حقیقی جارج فورمین نہیں تھا۔ جارج فورمین کنشاسا سے پیرس چلا گیا اور اگلے پندرہ دن تک وہ اپنے ہوٹل کے کمرے سے باہر نہیں نکلا۔ ان پندرہ دنوں نے اسے یہ سمجھایا کہ ہر بلندی کا انجام بالآخر پستی ہے اور دنیا میں کچھ بھی پائیدار نہیں۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ جارج فورمین نے باکسنگ سے ریٹائرمنٹ لے لی اور اگلے دس سال تک وہ باکسنگ رِنگ سے باہر رہا۔
ایک بار ایک اخبار نویس نے جارج فورمین سے انٹرویو کے دوران پوچھا کہ اسے1974ء میں محمد علی سے ہونے والی فائٹ کے بارے میں کوئی قلق‘ کوئی پچھتاوا یا ملال ہے؟ تو اس نے کہا: ہاں! ایک پچھتاوا ہے جو میرے دل کو مسلسل جکڑے ہوئے ہے اور وہ یہ کہ جب میں اپنی توقع کے برعکس محمد علی کو اس کی رسیوں پر لٹک کر خود کو بچانے اور محفوظ رکھنے کی کاریگری کے باعث کینوس پر لٹانے میں ناکام رہا تو میں نے مشتعل‘ برافروختہ اور عاجز آ کر اسے ہرانے کیلئے اس کی گردن پر پہلو کی جانب سے مسلسل مکے مارے جو باکسنگ کی اعلیٰ روایات کے منافی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے ایسا کیا۔ میں اب بھی راتوں کو اُٹھ کر سوچتا ہوں کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ مقابلے کے دوران اول اول میرے جذبات تھے کہ میں محمد علی کو جان سے مار دوں‘ لیکن میں خلافِ توقع جیتنے کے بجائے ہار گیا۔ میں نے اپنی اس ہار پر جتنا بھی غور کیا مجھے اپنی خامیوں‘ خوش فہمیوں اور غلطیوں کا اتنا ہی زیادہ احساس ہوا۔ اگر میں اس رات محمد علی سے شکست نہ کھاتا تو میں اُس جارج فورمین کو ہرگز دریافت نہ کرپاتا جو میں آج ہوں۔
محمد علی سے شکست کے کچھ عرصہ بعد ایک رپورٹر نے اس سے محمد علی سے دوسرے مقابلے کے امکانات بارے دریافت کیا تو جارج فورمین نے اسے ہنس کر کہا کہ میرے لیے یہی ایک شکست کافی سے زیادہ ہے۔ پھر اس نے رپورٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہا: میں ہار گیا ہوں اور اس نے مجھے شکست دی ہے۔ اسی دوران جارج فورمین عیسائیت کے اینجلیک فرقے سے وابستہ ہو کر مبلغ بن گیا۔ اس نے ہیوسٹن میں ایک چرچ بنایا اور اپنے گرجا گھر میں باقاعدہ وعظ دینا شروع کردیا۔ اس نے فورمین گرِل کے نام سے بار بی کیو تیار کرنے والی بھٹی اپنے نام سے رجسٹر کرائی اور فروخت کی۔ یہ گرِل دس کروڑ سے زائد تعداد میں فروخت ہوئی۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ اب فورمین شوز بھی متعارف کرائے گا۔ جارج فورمین کا کہنا تھا کہ وہ جوتے پیسے کے لیے نہیں‘ بلکہ دراصل اس تصور کو بڑھاوا دینے کیلئے مارکیٹ میں لانا چاہتا ہے کہ آپ کی ساری دولت اس چیز کے آگے ہیچ ہے‘ اگر آپ اچھے سے چل نہیں پاتے۔
1974ء میں محمد علی سے شکست کے بعد جلد ہی وہ ایک دوسرے کے بہترین دوست بن چکے تھے۔ دس سال تک رِنگ سے دور رہنے کے بعد 17 مارچ 1977ء کو ریٹائر ہونے والا جارج فورمین جب 9 مارچ 1987ء کو دوبارہ رِنگ میں اترا تو اس کی عمر 38 سال سے تجاوز کر چکی تھی۔ پانچ نومبر 1994ء کو جب وہ عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن مائیکل مورر کو شکست دے کر دوسری بار ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن بنا تو اس کی عمر 45سال 299 دن تھی۔ وہ اس عمر میں عالمی چیمپئن بننے والا دنیا کا سب سے معمر باکسر تھا۔ یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جو شاید تادیر قائم رہے۔81پروفیشنل باکسنگ فائٹس لڑنے والے جارج فورمین نے 76 مقابلوں میں فتح سمیٹی جن میں سے اس نے تمام 76 مقابلے ناک آئوٹ کی بنیاد پر جیتے۔
فورمین نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اگر آپ صبح کے وقت محمد علی کو فون پر پکڑ لیں تو وہ اپنی تمام تر بیماری اور علالت کے باوجود بڑے اچھے موڈ میں ہوتا ہے۔ ایک صبح فورمین نے اسے فون کیا تو بڑے خوشگوار موڈ میں تھا۔ دونوں نے دیر تک اپنی باتیں کیں‘ پھر اپنے بچوں کے بارے میں گفتگو کی اور بالآخر بات بچوں کے بچوں تک آن پہنچی۔ علی نے پوچھا: جارج! تمہارے کتنے گرینڈ چلڈرن ہیں؟ جارج کہتا ہے میں نے بتایا کہ چھ ہیں۔ محمد علی نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا: میرے آٹھ ہیں‘ جارج! میں پھر تم سے جیت گیا۔ محمد علی کی وصیت کے مطابق اس کے تین تابوت برداروں میں مائیک ٹائیسن، لینوکس لیوس‘ ول سمتھ اور جارج فورمین شامل تھے۔ 1984ء ایک انٹرویو کے دوران جارج فورمین نے رپورٹر کو بتایا کہ وہ اور محمد علی آپس میں صرف دوست ہی نہیں بلکہ اس نے اپنی اس زندگی میں محمد علی سے بڑھ کر کسی شخص سے محبت نہیں کی۔ قارئین! آپ خوب جانتے ہوں گے کہ جو شخص آپ کے محبوب ہیرو سے محبت کرتا ہو اس سے محبت ہو جانا قدرتی بات ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں