قارئین! یار دوست اور ناقدین اکثر مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ معاشرہ خرابی کی جس سطح اور نہج پر پہنچ چکا ہے اس میں بہتری کی امید رکھنا خام خیالی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں اور تم خواہ مخواہ اپنا وقت اور تحریر اس معاملے میں مسلسل ضائع کیے جا رہے ہو۔ میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ مجھ سے صرف میرے کام کے بارے میں پوچھا جائے گا اور میرا کام تو لکھنا ہے۔ اللہ نے میرا رزق اسی کام سے وابستہ کر رکھا ہے اور وہ کریم مجھ سے میری اوقات اور دائرہ کار سے بڑھ کر سوال نہیں کرے گا۔ تاہم مجھے اپنی ذمہ داریوں سے کسی صورت بری الذمہ قرارنہیں دیا جائے گا‘ اگر میں انہیں پورا نہ کروں گا۔ مایوس میں بھی ہوتا ہوں مگر یہ مایوسی دائمی نہیں‘ وقتی ہوتی ہے۔ میں ایک عام سا انسان ہوں۔ حالات سے کبھی کبھی مایوس بھی ہوتا ہوں۔ دل میں یہ بھی خیال آتا ہے کہ حالات جتنے بگڑ چکے ہیں اور ان میں کسی طور بہتری کی کوئی امید یا آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے تو دل بیٹھ سا جاتا ہے‘ مگر پھر اندر سے آواز آتی ہے کہ مایوسی کفر ہے۔حالات کی خرابی کا تذکرہ کرنے سے یہ مقصود ہرگز نہیں کہ مزید مایوسی پھیلائی جائے بلکہ اس تذکرے کا مقصد یہ ہے کہ احساسِ زیاں کو ابھار کر قوم کو‘ معاشرے کو اور عوام کو بہتری کی طرف مائل کیا جائے۔ اس سارے عمل میں سب سے ضروری چیز معاشرے کی بہتری میں عام آدمی کی شمولیت ہے۔ یہ معاشرہ کسی دشمن کا نہیں کہ صرف اس پر طنز کے تیر چلا کر دل ٹھنڈا کیا جائے اور گھر جا کر چین کی نیند سویا جائے۔ یہ ہمارا اپنا معاشرہ ہے اور اس میں پیدا ہونے والی ہر خرابی کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے شکار ہم ہی ہیں اور اس میں پیدا ہونے والی بہتری کے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فیض یاب ہونے والے بھی ہم ہی ہیں۔ اگر اس بہتری سے فائدہ اٹھانے والے ہم ہی ہیں تو پھر اس کی بہتری کیلئے ہم خود کچھ کیوں نہ کریں؟ صرف دوسروں سے‘ سرکار سے‘ اداروں سے اور غیبی مدد کے انتظار میں کیوں بیٹھے رہیں؟ سارا نہ سہی‘ مگر اس بگاڑ کا وہ حصہ تو ہم ٹھیک کر ہی سکتے ہیں جس کا باعث ہم خود ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس معاشرتی بگاڑ میں سب سے بڑے حصہ دار بھی ہم خود ہی ہیں۔
آخر ون وے کی خلاف ورزی روکنا صرف پولیس کی ذمہ داری ہی کیوں ہو؟ اچھے بھلے پڑھے لکھے‘ تعلیم یافتہ‘ بظاہر مہذب دکھائی دینے والے ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ ہر قسم کے ٹریفک قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کرتے ہیں اور اس پر ان کو نہ تو کوئی شرمندگی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ملال‘ بلکہ اکثر کو اپنی ان حرکتوں پر فخر کرتے دیکھا ہے۔ اب بھلا ٹریفک پولیس کیا کرے؟ چند چوکوں پر دو یا تین ٹریفک وارڈن ہوتے ہیں۔ خلاف ورزی کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ دو تین بندوں کے بس کی بات ہی نہیں کہ وہ سب کو روک کر ان کا چالان کر سکیں۔ اوپر سے ڈھٹائی اور دلیری کا یہ عالم ہے کہ اگر ٹریفک پولیس والا کسی ایک کو روک کر اس کا چالان کاٹ رہا ہے تو یار لوگ اسے مصروف پا کر مزید کھل کھیلنے پر آ جاتے ہیں اور اس کے عین سامنے سے الٹے رخ گزر جاتے ہیں۔
اس ذکرِ ملتان میں دراصل ہمارا ہر شہر‘ سارا معاشرہ اور ہم سب من حیث القوم شامل ہیں۔ صرف بوسن روڈ کا تذکرہ کروں تو نو نمبر چونگی سے لے کر ناردرن بائی پاس چوک تک اس پر چھ عدد یوٹرن ہیں۔ پہلے سات تھے‘ ان میں سے ایک جو بہت زیادہ تکلیف اور تنگی کا باعث تھا‘ ابھی حال میں ہی بند کر دیا گیا ہے۔ بچ جانے والے ان چھ یوٹرنز میں سے ایک کو ضلعی انتظامیہ ''پروٹیکٹڈ‘‘ یعنی محفوظ یوٹرن بنانے جا رہی ہے۔ دیکھتے ہیں لوگ اس پروٹیکشن کا کیا حشر کرتے ہیں لیکن ابھی حال یہ ہے کہ دو یوٹرنز کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ کسی بھی یوٹرن کے درمیان زیادہ سے زیادہ فاصلہ چند فرلانگ کا ہے۔ نو نمبر چونگی سے بائی پاس چوک کا کل فاصلہ ساڑھے چار کلومیٹر سے کم ہے۔ یعنی یہ ساڑھے چار کلومیٹر دو عدد چوک اور چھ عدد یوٹرنز پر مشتمل ہے۔ اس ساڑھے چار کلومیٹر پر مشتمل فاصلے پر آپ سات جگہ سے مڑ سکتے ہیں۔ لیکن عالم یہ ہے کہ ہر دو یوٹرنز کے درمیان لوگ یہ حساب لگاتے ہیں کہ کون سا یوٹرن نزدیک ہے۔ آگے والا یا پیچھے والا‘ یعنی اس چیز سے غرض نہیں کہ میں کس پر مڑ سکتا ہوں اور کس پر نہیں مڑ سکتا۔ پیچھے جانے کا مطلب ہے ون وے کی خلاف ورزی کرکے پیچھے جا کر نزدیکی یوٹرن سے موڑ مڑ لیا جائے۔ نوے فیصد رکشے‘ تیس چالیس فیصد موٹر سائیکل والے تو اس شارٹ کٹ پر عمل کرتے ہی ہیں‘ بڑی گاڑیوں والے بھی اس غیر قانونی حرکت سے فیض یاب ہونے والوں میں شامل ہیں۔ جہاں یہ یوٹرن کچھ زیادہ نزدیک ہو وہاں سو فیصد رکشے والے اور ستر اسی فیصد موٹر سائیکل والوں کے ساتھ لینڈ کروزر اور ڈبل کیبن والے بھی دس روپے کا ڈیزل بچانے کیلئے سارے ٹریفک نظام کو تہ تیغ کرتے ہوئے ٹریفک کی روانی کو برباد کرکے دندناتے گزر جاتے ہیں۔ کسی کو روکیں تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جس قسم کی صورتحال گزشتہ دنوں لاہور کے ایک انڈر پاس میں پیش آئی اور اس کی وڈیو وائرل ہوگئی۔
دو روز قبل میں لاہور جانے کیلئے گھر سے وہاڑی چوک پر واقع بس کے اڈے پر جانے کے لیے کمہاراں والا چوک سے گزر رہا تھا تو دیکھا کہ میری امریکہ یاترا کے دوران ضلعی انتظامیہ نے ٹریفک پولیس کی مدد سے اس چار کلومیٹر پر مشتمل دو طرفہ تین رویہ یعنی کل چھ لین والی سڑک کے دونوں طرف انتہائی بائیں جانب سبز رنگ سے موٹر سائیکلوں کے لیے ایک مخصوص لین بنا دی ہے۔ مجھے ملتان سے ایک دوست نے امریکہ وڈیو کلپ بھیج کر اس موٹر سائیکل لین سے آگاہی دی تھی۔ یورپی ممالک میں تو سڑک کے آخری کنارے پر یا سڑک سے علیحدہ ایک پتلی سی سائیکل لین بھی ہوتی ہے مگر ہمارے شہروں میں سائیکل کا رواج تو تقریباً ختم ہی ہو گیا ہے اس لیے موٹرسائیکل کیلئے وقف شدہ یہ لین دیکھ کر خوشی ہوئی کہ چلیں بہتری کی طرف کوئی قدم تو اٹھا۔اس سڑک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تقریباً چار کلومیٹر تک سارا راستہ بغور دیکھتا رہا کہ کتنے موٹر سائیکل سوار اپنے لیے اس مختص کردہ لین میں موٹرسائیکل چلا رہے ہیں۔ آپ یقین کریں میں محض کالم کا پیٹ بھرنے کی غرض سے بات نہیں بنا رہا‘ اس سڑک پر سبھی موٹرسائیکل سوار اس سبز لین کے بجائے درمیان والی بلکہ انتہائی دائیں جانب والی لین‘ جو تیز رفتار گاڑیوں کے مخصوص ہوتی ہے‘ میں موٹرسائیکل بھگائے چلے جا رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ صرف ایک معزز صورت بزرگ موٹر سائیکل اس سبز لین میں چلا رہے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ چلیں کم از کم ایک شخص تو باقاعدہ اس لین میں موٹر سائیکل چلا رہا ہے مگر میری خوشی بالکل عارضی ثابت ہوئی۔ اس معقول صورت شخص نے بھی اچانک اپنی موٹر سائیکل دائیں جانب موڑی اور گاڑیوں کے درمیان بھگانا شروع کر دی۔ اب سبز بائیک لین بالکل خالی تھی۔آپ ہی بتائیں کہ اس سلسلے میں سرکار کیا کرے؟ کتنے پولیس والے اس کام پر متعین کیے جائیں؟ کہاں کہاں ٹریفک وارڈن کھڑے کیے جائیں؟ شاہ جی سے اس ساری صورتحال پر اپنا رونا روتے ہوئے ان سے اس کا حل پوچھا تو کہنے لگے کہ اس کا واحد اور قابلِ عمل حل یہ ہے کہ اس ملک کے ہر بندے کے اوپر ایک بندہ بطور نگران متعین کیا جائے جو ہمہ وقت اس کی نگرانی کرے۔ تاہم سب سے ضروری بات یہ ہے کہ یہ بندہ ہم میں سے نہ ہو بلکہ کسی مہذب معاشرے سے لاکر اس کام کو سرانجام دینے کیلئے متعین کیا جائے۔ میں نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگے کہ اگر وہ ہم میں سے ہوا تو جس کی نگرانی پر تعینات کریں گے وہ اسی سے مل کر گڑ بڑ شروع کر دے گا۔ اگر پہلے اکیلا بندہ مسئلہ پیدا کر رہا تھا تب وہ دونوں مل کر کام خراب کریں گے۔ ایک سے بھلے دو والی بات ہو جائے گی۔ میں تو شاہ جی کا منہ ہی دیکھتا رہ گیا۔