میری اپنے بیرونِ ملک مقیم دوستوں سے اس ایک موضوع پر کئی بار نہ صرف بحث ہو چکی ہے بلکہ ایک دو بار تو معاملہ بدمزگی تک جا پہنچا کہ میں اپنی بات کہنے میں لاگ لپٹ کا قائل نہیں اور جو میرے دل میں ہوتا ہے کھل کر کہہ دیتا ہوں۔ یہ نہیں کہ موقع پر بات نہ کی اور پھر گھر آکر کڑھنا شروع کردیا کہ میں نے یہ بات تب کیوں نہ کہہ دی۔ میرے کئی بیرونِ ملک رہائشی دوست جب یہ کہتے ہیں کہ وہ (یعنی اوور سیز پاکستانی) ہر سال تیس ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم پاکستان بھجواتے ہیں تو میں ان کی بات سن کر ان کی تائید کرتا ہوں اور یہ سچ بھی ہے۔ پھر وہ اس تیس ارب ڈالر کی بھیجی جانے والی رقم کو پاکستان پر اپنا کیا جانے والا احسان بتاتے ہیں‘ میں تب خاموش رہتا ہوں کہ دوستوں سے ہمہ وقت اختلاف کرنا مناسب نہیں لیکن جب وہ مزید پھیل جاتے اور اپنے اس احسان کو بنیاد بنا کر خود کو پاکستان کے نجات دہندہ‘ محسنِ اعظم اور ہم پاکستان میں رہنے والوں سے زیادہ پاکستان کے ہمدرد‘ مخلص اور جانثار بننے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر میری قوتِ برداشت جواب دے جاتی ہے۔ برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
میرا موقف ہے کہ بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانی یقینا پاکستان میں زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ تیس ارب ڈالر کے لگ بھگ یہ رقم پاکستان کی معیشت کیلئے ایک بہت بڑا سہارا بھی ہے اور مدد بھی‘ لیکن بیرونِ ملک سے بھیجی جانے والی رقم صرف پاکستان پر احسان نہیں بلکہ یہ بھیجنے والوں کی اپنی ضرورت اور مجبوری بھی ہے۔ خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقم تو سرا سر ان کی ضرورت اور مجبوری ہے کہ ان کے خاندان ادھر پاکستان میں رہتے ہیں اور وہ انہی کی بہتر زندگی کے خوابوں کی تکمیل کیلئے پردیس کاٹ رہے ہیں‘ مسافرت کی سختیاں برداشت کر رہے ہیں اور گھر سے دور محنت و مشقت کر رہے ہیں۔ اب بھلا وہ محنت سے کمائی جانے والی یہ رقم پاکستان اپنے گھر والوں کو نہیں بھیجیں گے تو کہاں بھیجیں گے؟ انکے سارے خاندان کا دارومدار اسی آمدنی پرہے۔ کسی خاندان کا کوئی فرد جیسے ہی کسی دوسرے ملک جاتا ہے اس خاندان کے لوگوں کا طرزِ زندگی بدل جاتا ہے۔ بیرونِ ملک سے آنیوالی اس کمائی کو پاکستان میں رہنے والے اس خاندان کے دیگر افراد میں سے بیشتر مالِ مفت سمجھ کر خرچ کرتے ہیں۔ ان کے اللّوں تللوں کو پورا کرنے کی غرض سے ان کے بیرونِ ملک کمائو پوت مزید محنت کرتے ہیں‘ اوور ٹائم لگاتے ہیں اور پاکستان میں روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گھر والوں کے طرزِ زندگی میں خود ساختہ ہونے والی اَپ گریڈیشن کا خرچہ پورا کرنے کیلئے کوشش کرتے ہیں کہ پہلے سے زیادہ رقم پاکستان بھجوائیں۔ اب بھلا اس میں پاکستان پر احسان کہاں سے آ گیا؟
ایک دوست کہنے لگا: ہم پاکستانی بینکوں میں پیسہ بھجواتے ہیں اور وہاں رکھتے ہیں۔ یہ تو احسان ہے نا؟ میں نے کہا: آپ اور ہم سب لوگ بینکوں میں رقم سیفٹی اور سکیورٹی کی وجہ سے رکھتے ہیں نہ کہ بینک یا پاکستان پر احسان کرتے ہوئے رکھتے ہیں۔ بینک میں پیسہ رکھنا ہماری خوشی نہیں‘ مجبوری ہے۔ بینک میں نہ رکھیں تو کہاں رکھیں‘ گھر میں رکھیں؟ ملک میں امن و امان اور چوری ڈکیتی کی جو صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ہم بینک میں رقم رکھتے ہوئے بینک پر احسان نہیں کرتے کہ ہمیں اپنی رقم کی حفاظت مقصود ہے جو گھر میں میسر نہیں۔ ہاں! بینک بھی یہ کام مفت میں نہیں کرتا۔ وہ ہمارے پیسے سے منافع کماتا ہے۔ گویا یہ دو طرفہ فائدے والی صورتحال ہے۔ بینک کمائی کرتا ہے اور ہمارا پیسہ محفوظ رہتا ہے۔ میں نے اپنے اس دوست سے کہا کہ وہ اپنا پیسہ بینک میں نہ رکھے تاکہ مملکتِ پاکستان اس کے اس احسانِ عظیم سے محفوظ رہ سکے۔ وہ حیرانی سے پوچھنے لگا کہ پھر وہ اپنا پیسہ کہاں رکھے؟ میں نے کہا: یہی تو میرا سوال ہے جس کا جواب تم خود دے رہے ہو۔ دنیا کا نظام اسی باہمی تعاون سے چل رہا ہے۔ نوکر اور مالک‘ فیکٹری مالک اور ورکر‘ دکاندار اور اس کا ملازم‘ سب اسی دو طرفہ فائدے کی ڈوری میں بندھے ہوئے ہیں۔ کسی کو ہماری سروس درکار ہے اور وہ اس کے عوض ہمیں ادائیگی کرتا ہے۔ ہمیں پیسے کی ضرورت ہے اور ہم کام کرتے ہیں۔ دنیا ازل سے اسی طرح چل رہی ہے اور اسی طرح چلتی رہے گی۔ ہاں! اس میں استحصال کے عنصر کو بہرحال خارج کرنا چاہیے۔
رہ گئی بات یورپ‘ امریکہ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ میں مقیم پاکستانیوں کی‘ تو وہ بھی پاکستان میں رقم اپنے خاندان کے اُن لوگوں کو بھیجتے ہیں جن کو وہ ادھر چھوڑ جانے کا بوجھ اپنے دل پر لیے ہوتے ہیں۔ بوڑھے والدین‘ بھائی بہن‘ ضرورتمند رشتے دار‘ پاکستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری اور اعلیٰ درجے کی ہائوسنگ سکیموں میں پلاٹوں کی خریداری‘ بھلا یہ سب چیزیں پاکستان پر احسان کب سے ہونے لگ گئیں؟
میرے ایک دوست برطانیہ میں منی ٹرانسفر کمپنی چلاتے ہیں۔ ان کے پاس کئی بار گھنٹوں بیٹھنے کا اتفاق ہوا۔ اس دوران ان کی کمپنی کے ذریعے پاکستان پیسے بھیجنے والوں کا بہت قریب سے جائزہ لینے کاموقع ملا۔ برطانیہ سے پاکستان رقم بھجوانے والوں میں سے نوے فیصد سے زائد افراد اپنے ضعیف والدین‘ بہن بھائیوں کے بچوں کی شادی‘ خاندان میں کسی ضرورت یا پاکستان میں اپنی کسی پراپرٹی کے خرچے از قسم چوکیدار کی تنخواہ‘ مرمت یا ٹیکس وغیرہ کیلئے پیسے بھیجتے تھے۔ حتیٰ کہ والدین کو بھیجی جانے والی رقم بھیجنے سے قبل اس دن برطانوی پائونڈ کے پاکستانی روپے میں شرح تبادلہ پوچھ کر اسے ہر ماہ بھیجی جانے والی طے شدہ رقم پر ضرب تقسیم کرکے برطانوی پائونڈ بھجواتے تھے۔ بھیجنے والوں کی غالب تعداد پچاس سے سو ڈیڑھ سو پائونڈ ماہانہ بھجواتی تھی۔ اب بھلا اس رقم کا پاکستان پر احسان سے کیا تعلق ہے؟ میں نے ایک بار سخت بات کہہ دی کہ آپ لوگ دراصل اپنے بوڑھے والدین کو یہ رقم اپنی اس شرمندگی کے معاوضے کے طور پر بھیجتے ہیں جو انہیں اس عمر میں پاکستان چھوڑ آنے کی وجہ سے آپ کو ہوتی ہے۔ آپ یہ رقم اپنے ضمیر کا بوجھ اور احساسِ جرم کو کم کرنے کیلئے بھیجتے ہیں۔ اس پر وہ فساد پڑا کہ اللہ کی پناہ۔
امریکہ میں بھی اسی موضوع پر کئی بار بحث ہوئی۔ وہاں بھی اس بات کی تائید ہوئی کہ پاکستان بھیجی جانیوالی رقم کا بیشتر حصہ گھر والوں کو‘ ضرورتمند عزیزوں‘ رشتہ داروں کو یا جائیداد وغیرہ کی خرید کیلئے بھیجا جاتا ہے۔ جن لوگوں کے والدین یا بہن بھائی پاکستان میں نہیں رہتے یا والدین حیات نہیں‘ وہ لوگ تب سے پاکستان ہی نہیں گئے۔ والدین کے رخصت ہوتے ہی یہ باب بند ہو گیا۔ یہ ساری باتیں مجھے آج فروری کی ترسیلاتِ زر کا پڑھ یاد آئی ہیں کہ چند ماہ قبل جب اوورسیز پاکستانیوں میں مقبول جماعت کے بانی عمران خان نے پاکستانیوں کو ترسیلاتِ زر پاکستان بھیجنے سے منع کیا تو میری مانچسٹر میں مقیم ایک دوست سے اس سلسلے میں بات ہوئی۔ وہ کہنے لگا کہ خان کی اس اپیل کا بڑا پُراثر نتیجہ نکلے گا۔ میں نے کہا کہ لوگ پاکستان میں رقم نہ تو پاکستان کیلئے بھیجتے ہیں اور نہ عمران خان کیلئے‘ وہ اپنی مجبوری سے بھیجتے ہیں اور یہ مجبوری کسی اپیل کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھے گی۔ مگر وہ دوست بضد تھا کہ ترسیلاتِ زر بند ہو جائیں گی۔ پھر کہنے لگا وہ خود بھی پیسے پاکستان نہیں بھیجے گا۔ حالت یہ ہے کہ اس دوست کا کوئی قریبی عزیز پاکستان میں نہیں رہتا اور اس نے گزشتہ کئی سال سے پاکستان میں ویسے بھی ایک پیسہ نہیں بھیجا۔ اسے خاندانی مجبوریوں کا علم ہے اور نہ ہی ادراک۔
اس سال فروری میں پاکستانیوں نے ترسیلاتِ زر کی صورت میں تین ارب دس کروڑ ڈالر بھجوائے ہیں جو گزشتہ سال ماہِ فروری میں بھیجی جانے والی رقم سے 38 فیصد زائد ہے۔ مجبوریاں اپیل سے بالاتر ہوتی ہیں۔