پاکستان کے بارے میں اسد الدین اویسی صاحب کے خیالات آپ نے سُن لیے۔ ان کی اسلامی حمیت کے بارے میں اب آپ کا کیا خیال ہے؟
وہ ایک بھارتی شہری ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت کے لیے غیر پسندیدہ ہیں۔ بلند آہنگ اور شعلہ بیان ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین جیسے ہی طبلِ جنگ بجا‘ ان کی ان خصوصیات کا رخ بھارتی حکومت سے ریاستِ پاکستان کی طرف ہو گیا۔ انہوں نے بھارتی ریاست کا آموختہ دہرایا۔ دہشت گردی میں پاکستان کو‘ کسی تحقیق کے بغیر‘ مجرم قرار دیا۔ وہ حکومت سے اپنے سب اختلافات بھلا کر اُس کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
اپنی نوعیت کایہ پہلا واقعہ نہیں۔ دارالعلوم دیوبند بھی پاک بھارت محاذ آرائی میں ہمیشہ اپنی ریاست ہی کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ آپ کو جنرل پرویز مشرف صاحب کا دورۂ بھارت تو یاد ہوگا۔ مہتمم دارالعلوم نے جنرل صاحب کو ڈانٹا تھا کہ وہ بھارتی مسلمانوں کے معاملات سے الگ رہیں۔ کشمیر کے معاملے کو بھی بھارتی مسلمانوں نے کبھی مسلمانوں کا مسئلہ نہیں سمجھا۔ وہ اسے پاکستان اور بھارت کے مابین ایک تنازع قرار دیتے اور اپنی ریاست کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی دینی ذمہ داری کیا ہے؟ انہیں اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے یا مودی صاحب کے ہندوستان کے ساتھ‘ جو ہندوتوا کا علمبردار ہے؟ اسی سے متصل سوال پاکستان کے ہندو شہریوں کے بارے میں پیدا ہوتا ہے۔
اس سوال کے دو جواب پہلے سے موجود ہیں۔ پہلا جواب: یہ جغرافیائی سرحدیں استعمار کی دَین ہیں۔ ان کی کوئی دینی حیثیت نہیں۔ ساری دنیا کے مسلمان سیاسی وحدت کے اعتبار سے ایک امت ہیں۔ ان کو ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ مذہب ریاست سے بڑی سچائی ہے۔ ہم پہلے مسلمان ہیں اور اس کے بعد پاکستانی یا ہندوستانی۔ دوسرا جواب: اس وقت دنیا جس سیاسی نظم کے تحت قائم ہے‘ اس کی بنیاد قومی ریاست پر رکھی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی سیاسی وحدت ہے جس کی بنیاد مذہب نہیں۔ یہ ایک خاص خطۂ زمین میں آباد شہریوں اور ریاست کے مابین ایک معاہدے کے نتیجے میں قائم ہوتی ہے۔ اس کے شہری بلاتفریقِ مذہب ونسل یکساں حقوق کے مالک ہوتے ہیں۔ اس معاہدے کے مطابق ریاست شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتی ہے اور شہری ریاست کے قانون اور مفاد کے پابند ہوتے ہیں۔ ایک مسلم شہری کی یہ دینی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست سے وفادار رہے‘ اگرچہ اس کے اقدامات مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔
اگر پہلا مؤقف درست مان لیا جائے تو پھر اویسی صاحب اور اہلِ دیوبند کی دینی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں جو اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست اور اسلام کی تجربہ گاہ ہے۔ پھر ان کی وفاداری امتِ مسلمہ کے ساتھ ہونی چاہیے جس کی نمائندگی پاکستان کر رہا ہے۔ اگر دوسرا مؤقف صحت پر مبنی ہے تو پھر ان کو وہی کرنا چاہیے جو انہوں نے کیا۔ انہوں نے ریاست کے ساتھ اپنے عہد کی پاسداری کی اور یہی ان کی دینی ذمہ داری تھی۔
مسلمانوں کو یہ سوال پہلی بار درپیش نہیں ہوا۔ یہ سوال امریکی فوج میں موجود مسلم سپاہیوں کے بارے میں بھی اٹھا تھا جو افغانستان یا عراق میں‘ ایک مسلم ملک کے خلاف لڑنے پر مجبور تھے۔ علامہ یوسف القرضاوی جیسے اہلِ علم نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا تھا۔ ہمارے ہاں بھی یہ مسئلہ پیدا ہوا جب پاک فوج کو ان لوگوں کے خلاف اقدام کرنا پڑا جو کلمہ گو تھے اور پاکستان کے مفادات کے خلاف سرگرم تھے۔ پاک فوج آج بھی ان سے برسرِپیکار ہے جنہیں خوارج کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ یہ اصلاً بغاوت ہے اور ان پر بغاوت ہی کے قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ میں اس وقت اویسی صاحب جیسے اہلِ اسلام کی بات کر رہا ہوں جو ایک 'غیر مسلم‘ یا قومی ریاست کے شہری ہیں اور انہیں ایک ملک کے خلاف لڑنا ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا یا جو مسلم اکثریتی ملک ہے یا یوں کہیے کہ اسلامی ریاست ہے جس میں قرآن وسنت کے خلاف قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ یہ سنجیدہ سوالات ہیں جو ریاست کی نظریاتی تشکیل کے بعد لازماً پیدا ہوتے ہیں۔ قومی ریاست چونکہ ایک جدید تصور ہے‘ اس لیے ہمیں اپنی قدیم علمی روایت میں ان کے بارے میں براہِ راست کوئی راہنمائی نہیں ملتی۔ قدیم دارالاسلام اور دارالکفر جیسی اصطلاحوں کا اطلاق جدید ریاستوں پر نہیں ہوتا جن کے بہت سے شہری مسلمان ہیں۔ دارالحرب بھی ایک ایسا تصور ہے جو کسی دارالاسلام کی موجودگی کو لازم کرتا ہے۔ اگر ہم کسی ریاست کو دارالحرب قرار دیں تو اس کے لیے پہلے کسی دارالاسلام کا ہونا ضروری ہے جس سے پیکار کسی ریاست کو دارالحرب قرار دیا جائے۔
ان مباحث کی اہمیت اویسی صاحب جیسے لوگ ہی جان سکتے ہیں جنہیں آئے دن ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تقسیم نے بھارتی مسلمانوں کو جس نفسیاتی کیفیت سے دوچار کر دیا ہے‘ ہمیں اس کا پوری طرح اندازہ نہیں ہو سکتا۔ اگر تو ہم ریاست کے باب میں اٹھنے والی ان نظریاتی بحثوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے قومی ریاست کے ماڈل کو قبول کر لیں تو اس کیفیت سے نکلا جا سکتا ہے۔ پھر ریاست اور فرد کے تعلقات کی ایک غیر مذہبی تعبیر سے ایک مسلمان کسی داخلی کشمکش سے دوچار نہیں ہوتا۔ قائداعظم نے بھی بھارتی مسلمانوں کو یہی مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی ریاست سے وفادار رہیں۔ مذہبی تعبیر تو اس کے لیے لازم قرار دیتی ہے کہ وہ بھارت کو اسلامی ریاست بنانے کی کوشش کرے یا امت کے ساتھ اپنی نسبت کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات کا سامنا کرے۔
مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا ابوا لحسن علی ندوی جیسی شخصیات نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں رہنے کو ترجیح دی۔ ظاہر ہے وہ اپنے اس اقدام کی کوئی دینی توجیہ رکھتے ہوں گے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک اسلامی فکر کو آج جو بڑا چیلنج درپیش ہے‘ وہ اہلِ اسلام کے لیے ایک ایسے نظامِ فکر کی تشکیل ہے جو جدید سیاسی نظم سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے‘ انہیں یہ اطمینان دلائے کہ وہ اس میں رہتے ہوئے ایک دینی زندگی گزار سکتے ہیں۔ فقہ الاقلیات جیسا پیراڈائم روز مرہ کی نجی زندگی کے مسائل کا ایک حل پیش کرتا ہے‘ بنیادی فکری مسائل کا نہیں۔
اویسی صاحب آج جو کچھ کہہ رہے ہیں‘ کیا ان کا دل ان کے ساتھ ہے؟ جب ہم مسلمان اور ہندوئوں کو ایک دوسرے سے مختلف قرار دیتے ہیں تو پاکستان کے ہندو اس وقت کس کشمکش سے گزرتے ہوں گے‘ بالخصوص جب پاکستان اور بھارت برسرِ پیکار ہوں؟ دلوں کے حال تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے مگرجب خود کو ان کی جگہ رکھ کر دیکھتا ہوں تو جان سکتا ہوں کہ وہ کس مشکل میں مبتلا ہیں؟ ہم بعض اوقات غور نہیں کرتے کہ ہماری تفہیِم مذہب زندہ انسانوں کے لیے کیسے مسائل پیدا کرتی ہے۔ فقاہت‘ افراد پر مذہب کے آئیڈیلز کو نافذ کرنے کا نام نہیں‘ ان کے حالات کی رعایت سے ان کے لیے ایسے راستے تجویز کرنا ہے جو انہیں کسی احساسِ گناہ میں مبتلا کریں اور نہ کسی مشقت میں نہ ڈالیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے آئیڈیلز ان کے سامنے رہیں‘ جن پر وہ حالات کے مطابق عمل پیرا ہوں۔ دین کا مطلوب یہی ہے۔ میرے نزدیک پاک بھارت کشیدگی میں اگر وابستگی کا ماڈل قومی ریاست ہو تو دونوں ممالک کے مسلمان نفسیاتی اور فکری بحران سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ پھر اویسی صاحب جیسے مسلمانوں کو ریاست کے ساتھ وفاداری ثابت کرنے کے لیے جو اضافی مشقت اٹھانا پڑتی ہے‘ وہ اس سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔