"SBA" (space) message & send to 7575

سندھ طاس اور جنگِ آب کے محاذ

پہلگام واقعے سے پہلے ہی عالمی ماہرین پاکستان کے آبی وسائل کے بار ے میں دو باتیں کھل کر بتا چکے تھے۔ چونکہ اپنے ہاں سارا فوکس اپنی مرضی کی سیاسی مینجمنٹ اور اَن پاپولر لوگوںکو پاپولر الیکشن کا متبادل بنا کر ملک کے حقیقی لیڈر ثابت کرنے پر لگا ہوا ہے اس لیے کسی کے پاس بھی ان باتوں کی طرف توجہ دینے کا وقت نہ تھا۔ پہلی سٹڈی کے مطابق آج سے ساڑھے چار سال بعد یعنی 2030ء میں پاکستان کو پانی کی شدید کمی اور فوڈ سکیورٹی کے خدشات کا سامنا ہوگا۔ دوسرا یہ کہ بھارت نے ماہ جنوری سال 2023ء میں پاکستان کو ایک نوٹس بھجوایا تھا۔ یہ نوٹس سندھ طاس معاہدے کے تحت 90 دن کا Advance Decleration of Intent کہلاتا ہے جس کے تحت سندھ طاس معاہدے کے دونوں فریقین میں سے کوئی بھی ملک دوسرے ملک کو معاہدے میں موڈی فیکیشنز یا معاہدے کی Abrogation کی قبل از وقت اطلاع دیتا ہے۔
بھارت نے جنوری کے نوٹس کا بہانہ تین حوالوں سے گھڑا تھا۔ پہلا حوالہ کہتا ہے‘ پانی کے بہائو میں واٹر شفٹنگ آ گئی ہے۔ بھارت سرکار کا دوسرا بہانہ تھا کہ پانی کے استعمال کے Usage Patterns تبدیل ہو گئے ہیں۔ بھارتی نوٹس میں تیسرا حیلہ یہ شامل کیا گیا کہ سندھ طاس سے متعلقہ دریائوں میں Demographic تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ اس بار ے میں وزارتِ پانی وبجلی یا سرکار قوم کو بتائے کہ 90 روز کے اندر بھارتی نوٹس کی تنسیخ اور دو روز پہلے ہونے والے یکطرفہ بھارتی اقدامات کے خلاف سندھ طاس ٹریٹی کو بچا کر رکھنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ اس مرحلے پر حوالے کے لیے دو واقعاتی ریفرنس یہاں درج کرنا ضروری ہوں گے۔
پہلا واقعاتی ریفرنس: سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں World Bank Facilitation کے نتیجے میں ہوا تھا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈس دریا اور اُس کی Tributaries بشمول دریائے جہلم‘ دریائے چناب‘ دریائے راوی‘ دریائے بیاس اور دریائے ستلج کے پانی کی شیئرنگ کا فارمولا ترتیب پایا تھا۔ اب غیر جانبدار عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے نتیجے میں انڈس کے دریا اور اُس کے معاون دریائوں میں پانی کا بہائو متاثر ہوگا‘ جس کے نتیجے میں پاکستان کی زراعت‘ پینے کے پانی کی سپلائی اور ڈیمز سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداوار بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان فوری طور پر سندھ طاس معاہدے میں موجود Dispute Resolution کے میکانزم کو حرکت میں لائے۔ سندھ طاس ٹریٹی میں اسے گریڈڈ میکانزم فار ڈِسپیوٹ ریزولوشن کہا گیا ہے۔ اگر یہ قانونی کارروائی فوری طور پر شروع کر دی جائے تو اس کے دو نتائج پاکستان کے حق میں نکل سکتے ہیں۔
پہلا نتیجہ‘ بھارت کے اس عالمی پروپیگنڈے کا جواب دینا ہے جو بھارتی سرکاری اور غیر سرکاری سوشل میڈیا نے ساری دنیا میں پھیلا دیا ہے۔ ہم اسے المیے سے کم اور کیا کہیں کہ ایک طرف بھارت نئے زمانے کی جنگوں کا بہترین ہتھیار یعنی سوشل میڈیا اور ٹویٹر (ایکس) پر پروپیگنڈا اور پوری دنیا میں پاکستان کو پہلگام کا ملزم ثابت کرنے کے لیے پوری قوت لگا رہا ہے‘ جس کے مقابلے میں پاکستان میں غلط پالیسیوں کی وجہ سے ٹویٹر بند ہے‘ سوشل میڈیا مفلوج ہو چکا ہے اور انٹرنیٹ کچھوے کی رفتار سے چل رہا ہے۔ ہر روز اس پر بندشوں کے نئے نئے حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ نااہل سرکار سمجھ رہی ہے کہ بندشوں کی بارش پاکستان کے عین مفاد میں ہے۔
دوسرا واقعاتی ریفرنس: ہر دردمند شخص پاکستان کے پانیوں کو بیچ کر بیرونِ ملک موجیں لگانے والے وطن فروشوں کے خلاف آواز بلند کرتا آیا ہے۔ اس وطن فروشی کے نتیجے میں ایشیا کی فوڈ باسکٹ اور ہمارے سر کے تاج‘ پنج آب کے پانچوں دریا ریت کے ٹیلوں میں بدل چکے ہیں۔ قوم فیصلہ سازوں سے جاننا چاہتی ہے کہ پانچ سو روپے رشوت لینے والے کلرک اور مرغی چور بچے کے خلاف سپریم کورٹ تک مقدمات کا پیچھا کرتے ہو۔ یہ تو بتائو وہ کردار اور مکروہ چہرے آج بھی سامنے ہیں‘ جنہوں نے ایک بار نہیں بلکہ تین بار سندھ طاس سے بگلیہار ڈیم تک پاکستان کے مفادات بیچ ڈالے۔ کہاں ہیں وہ بڑھکیں مارنے والے وزیر جنہیں قوم کے آبی وسائل بیچنے والوں کی میلی آنکھیں کیمرے پر بھی نظر نہیں آ رہیں۔سندھ طاس پر بھارتی کارروائی پر طبلِ آبِ جنگ بجانے کے لیے قوم کو متحد کرنا ضروری ہے۔ دنیا کی کوئی فوج اکیلے جنگ نہیں لڑ سکتی نہ جیت سکتی ہے ۔ اس وقت عوام میں موجودہ حکمرانوں کی وجہ سے تاریخ کی بدترین تقسیم‘ تنائو اور پولرائزیشن ہے۔ صرف چند تاحیات منشی مشدّی اور مشقتی سمجھتے ہیں کہ جنگ سوشل میڈیا سے آگے نہیں جا سکتی۔ اللہ نہ کرے جنگ ہو‘ لیکن ہماری سرکار جوقوم کی نمائندگی نہیں کرتی وہ قوم کو متحد کیسے کر سکتی ہے؟
بھارت کی عالمی شہرت یافتہ مصنف ارون دھتی رائے نے Booker Prize جیتنے والی اپنی تصنیف The God of Small Things میں کمال کی بات کہی۔ رائے کہتی ہیں: بھارت میں اس وقت جو قوم پرستی ہم دیکھ رہے ہیں وہ دراصل اشرافیہ کی جنگی للکار ہے۔ یہ للکار بھوک‘ ناانصافی اور عدم مساوات سے پبلک کی توجہ ہٹانے کا ذریعہ ہے۔ حکمران اشرافیہ خوف اور نفرت سے فائدہ اُٹھاتی ہے اور حکومتی ناکامیوں اور مظالم سے توجہ ہٹاتی ہے‘‘۔ انگلش ناولسٹ‘ تاریخ دان اور شاعر George Orwell نے جنگ کے بارے میں طبقاتی سماج کا حوالہ دے کر سات سمندر کوزے میں بند کر دیے۔ جارج لکھتے ہیں: ایک طبقاتی سماج صرف غربت اور جہالت کی بنیاد پر ہی قائم رہ سکتا ہے۔ وہاں جنگ اس لیے نہیں ہوتی کہ جیتی جائے‘ بلکہ اس لیے ہوتی ہے کہ ہمیشہ جاری رہے‘ تاکہ قابض طبقہ عوامی وسائل پر قبضہ جاری رکھ سکے۔
وطن عزیز کو آبی وسائل میں کہاں پہنچا دیا گیا۔ چار پڑوسی ملکوں سے تقابل کر لیں۔ بھارت میں پانچ ہزار 334 ڈیم مکمل جبکہ 411 ڈیم زیرِ تعمیر ہیں۔ مہاراشٹر‘ مدھیہ پردیش‘ گجرات‘ کرناٹک اور اوڈیسا میں تین ہزار سے زیادہ ڈیم ہیں مگر پانی پر اندرونی تنائو نہیں۔ افغانستان میں کاجاکی ڈیم1950ء‘ کمال خان ڈیم 2021ء میںبنا۔ گریشِک ڈیم‘ سلمہ ڈیم‘ آغا جان ڈیم‘ باغ درہ ڈیم اور واہان درہ ڈیم کمرشل فروٹس کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ایران 600 سے زیادہ ڈیم بنا چکا ہے۔ چین کے پاس98 ہزار ڈیم ہیں۔ہماری بے سمتی پر ہمارے شاعر مصطفی زیدی نے عشروں پہلے کہا تھا:
جہاز اُڑ گئے بمباریوں کے عزم کے ساتھ
کہیں سے دل کی صدا آئی اس طرح جیسے
فلپ کے بلب کے آگے چراغ کے آنسو...

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں