"KMK" (space) message & send to 7575

ہیٹھ گھٹیندی اے بھنگ وے خاناں

یہ جو آج کل میرے ذہن پر موٹروے سوار ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ میں خود ایک ہفتے سے مسلسل موٹروے پر سوار ہوں۔ اب اگر جواباً موٹروے میرے ذہن پر سوار ہو گئی ہے تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ بقول شعیب بن عزیز ''اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘۔
سفر لمبا ہو اور آپ خود گاڑی چلا رہے ہوں تو دل لگانے‘وقت گزارنے اور نیند بھگانے کیلئے جو واحد شے آپ کے کام آ سکتی ہے وہ گاڑی کا انٹرٹینمنٹ سسٹم ہے۔ مجھے پارسائی کا نہ تو کوئی دعویٰ ہے اور نہ ہی کوئی خام خیالی۔ اللہ میرے گناہ معاف فرمائے۔ کئی بری عادتوں کے ساتھ ساتھ میوزک سننے کی عادت بہت زیادہ نہ سہی مگر سفر میں تو گھنٹوں سنتا ہوں اور اس رحیم سے درگزر کے یقین کے ساتھ شرمندگی کے باوجود مستقل مزاجی سے یہ کام کرتا ہوں۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ کوئی گانا دِل کو چھو لیتا ہے اور ذہن سے لپٹ سا جاتا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے منصور ملنگی کا گانا ''ماہی تا میڈا پھلاں دا شوقی‘‘ ایسا دِل کو بھایا ہوا تھا کہ ملتان سے اسلام آباد کے سارے سفر میں یہ گانا بلامبالغہ دس بار تو سنا ہو گا۔ تیس منٹ پر مشتمل اس گانے کو دس بار سننے سے مراد ہے کہ یہ گانا مسلسل پانچ گھنٹے سنا گیا۔ یقین کریں مزید صرف اس لیے نہیں سنا گیا کہ سفر ختم ہو گیا تھا۔ گانے میں کسی ریاض نامی شاعر کے دوہڑے بھی تھے اور دو چار دیگر شاعروں کے بند بھی تھے۔ ایسے ایسے مصرع کہ دِل کی ''ٹلیاں‘‘ بجا دیں اور سلطان باہو کے مدفن‘گڑھ مہاراجہ سے تعلق رکھنے والے منصور ملنگی نے گایا بھی ایسے ڈوب کر کہ اگر دِل کے تار نہ چھوئے تو حیرت ہو گی۔ میں نے گانے کو از خود واپس دہرانے والا بٹن دبا دیا تھا اور گانا ختم ہونے کے بعد خودبخود شروع سے دوبارہ لگ جاتا۔ ادھر گانا لگا ہوا تھا اور ادھر میرا دل لگا ہوا تھا۔جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا‘ایسے ایسے مصرع آتے کہ دل کسی چنگاری کی طرح کبھی جل اٹھتا اور کبھی بجھ جاتا۔ سرائیکی شاعری بنیادی طور پر اداسی کی شاعری ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سرائیکی میں لکھے ہوئے عشق ومحبت کے کلاسیکی قصے سسی پنوں کا انجام سسی کے تھل میں ریت کے سمندر میں پیاسا مرنے پر ہوتا ہے‘شاید اسی لیے اداسی‘ الم اور درد سرائیکی شاعری کا جزو لاینفک بن کر رہ گئے ہیں۔ رہ گئی جدید سرائیکی شاعری تو یہ وسیب کی محرومیوں میں ایسی گندھی ہوئی ہے کہ احتجاج‘غم وغصہ‘مزاحمت اور مونجھ سے باہر نہیں نکل سکی۔ اب مونجھ کا کیا ترجمہ کروں؟ مونجھ کا ترجمہ بھی صرف مونجھ ہے اور اس کیفیت کو کسی ایک لفظ میں بیان کرنا ناممکن نہ سہی‘مگر اتنا مشکل ضرور ہے کہ مجھ جیسا نالائق اپنی کم علمی کا اعتراف کر لے۔
مذکورہ گانے کے دوران ایک شعر ایسا تھا کہ اس نے میری توجہ کھینچ لی۔ شعر تھا ''شہر لاہور دیاں اُچیاں ماڑیاں؍ ہیٹھ گُھٹیندی اے بھنگ وے خاناں‘‘۔ یعنی شہر لاہور کی اونچی حویلیاں ہیں جن کے نیچے بھنگ گھوٹی جاتی ہے۔ آپ جو بھی کہیں‘لیکن سچ یہ ہے کہ اس شعر نے مجھے جو لطف دیاوہ الگ ہے لیکن لطف سے زیادہ دل میں ایک تجسس سا پیدا ہوا کہ آخر اس شعر کا کیا سیاق وسباق ہے اور شاعر نے یہ شعر کس تناظر میں لکھا ہے۔ خیال کا گھوڑا بھی عجب شے ہے جس طرف منہ اٹھائے چل پڑے کوئی روک ٹوک نہیں اور یہ ایسے ایسے نتائج اخذ کرتا ہے کہ بندہ خود حیران رہ جاتا ہے۔ شعروں کا معاملہ تو ایسا ہے کہ بعض اوقات اس کے ایسے ایسے مفہوم اور مطالب کھلتے ہیں کہ خود شاعر سنے تو پہلے مفہوم نکالنے والے کی سوچ پر حیران رہ جائے اور پھر اس نئے زاویے سے اپنے شعر پر نظر دوڑائے تو پریشان ہو جائے۔
گانا چل رہا تھا مگر میں اب اسے سن نہیں رہا تھا۔ میرے دماغ میں تو یہ پھنس گیا تھا کہ آخر لاہور کی اونچی اونچی حویلیوں کے نیچے بھنگ گھوٹنے کو شاعر نے کس تناظر میں لکھا ہے اور اس کا کیا پس منظر ہو سکتا ہے۔ کافی دیر سر کھپانے اور غور وفکر کرنے پر بھی جب مجھ کم عقل کو اس شعر کی وجہ تسمیہ اور کوئی منطقی جواب نہ ملا تو میں تُکے مارنے پر آ گیا۔ مجھے گمان ہوا کہ یہ شعر دراصل تختِ لاہور کے حکمرانوں اور وسیب کے سیاستدانوں کی عکاسی کرتا ہے۔ قارئین! مجھے مرضی کا مطلب اخذ کرنے اور من پسند مفہوم نکالنے پر معاف کیجئے گا مگر مجھے لگا کہ ''لاہور کی اُچی ماڑی‘‘ سے مراد تختِ لاہور کے حکمرانوں کا وہ محل ہے جس کے نیچے بھنگ گھوٹی جاتی ہے اور پھر وسیب کے سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کو پلائی جاتی ہے‘جس کو پی کر وہ اپنے علاقے کی محرومیاں اور عوام سے کیے گئے وعدے بھول جاتے ہیں۔ انتظامی بنیادوں پر اپنے لیے علیحدہ صوبے کا حصول بھول جاتے ہیں۔ ادھورے‘ نامکمل‘بے اختیار اور بے کار قسم کے سب سیکرٹریٹ کے بہلاوے سے بہل جاتے ہیں۔ ایسے نام نہاد سیکرٹریٹ کو لے کر خوش ہو جاتے ہیں جس کے پاس نہ کوئی اختیار ہے اور نہ مسائل کا حل موجود ہے۔ افسروں کی ایسی فوج سے دل پرچا رہے ہیں جن کے پاس گریڈ تو ہیں لیکن محرومیوں کا مداوا نہیں ہے۔ ایسے لاچار اور بیکار افسروں سے خوش ہیں جو اپنے منہ سے مکھی اڑانے کیلئے بھی تختِ لاہور کی طرف دیکھتے ہیں۔
تخت لاہور کی اونچی حویلیوں کے نیچے جو بھنگ گھوٹی جاتی ہے وہ پی کر ہمارے عوامی نمائندے بھی مست ہیں اور وہ سیاسی جماعتیں بھی انٹا غفیل ہیں جو اقتدار سے فراغت کے بعد صوبہ جنوبی پنجاب کا نعرہ لگاتی ہیں۔ جب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ عدالت کے واضح حکم کے باوجود وہ اپنی پارٹی لیڈر کو بچانے کی غرض سے سوئس حکام کو خط لکھنے سے انکاری ہیں اور ان کو توہین عدالت میں سزا یقینی ہے تو انہوں نے اپنی یقینی رخصتی کا اندازہ لگاتے ہی سیاسی پوائنٹ سکور کرتے ہوئے صوبہ جنوبی پنجاب کا شوشہ چھیڑ دیا اور فراغت کے بعد دعویٰ کر دیا کہ ان کو صوبہ جنوبی پنجاب کا نعرہ لگانے کی سزا دی گئی ہے۔ اب وہ سینیٹ کے چیئرمین ہیں۔ پاکستان کے آئین کے مطابق دوسری یا تیسری بڑی آئینی پوسٹ پر براجمان ہیں لیکن اب انہیں صوبہ جنوبی پنجاب کی تشکیل کا نہ خیال آ رہا ہے اور نہ ہی وہ اس کیلئے خود یا اپنی پارٹی کی طرف سے ایک لفظ بھی کہہ رہے ہیں۔ تختِ لاہور کی بلند حویلیوں کے نیچے گھوٹی جانے والی بھنگ کے بڑے رنگ ہیں۔ کبھی یہ عہدے کی شکل میں پلائی جاتی ہے اور کبھی دیگر فوائد کی شکل میں۔ کبھی یہ مالی فوائد کی صورت میں پلائی جاتی ہے اور کبھی اقتدار کے جھولے کی شکل میں۔ جب تک اس کے پیالے بھر بھر کر منہ سے لگے رہتے ہیں پینے والے ایسے مست رہتے ہیں کہ انہیں اپنے لیے علیحدہ صوبے کا خیال تو رہا ایک طرف‘خواب بھی نہیں آتا۔
پیپلز پارٹی اقتدار سے فارغ ہو تو اسے صوبہ جنوبی پنجاب یاد آتا ہے۔ چودھری پرویزالٰہی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے محروم ہو جائیں تو ان کو صوبہ جنوبی پنجاب کا خیال آ جاتا ہے۔ پی ٹی آئی اقتدار میں نہ ہو تو اسے بھی صوبہ پنجاب کی انتظامی تقسیم کا بخار چڑھ جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو جب سیاسی خسارے کا احساس ہو تو وہ بھی اسمبلی میں ایک چھوڑ‘دو صوبوں کی قرارداد پاس کرکے سرخرو ہو جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ کی جیسے تیسے جیتی گئی سیٹوں کے زور پر مرکز میں اقتدار کی امیدوار مسلم لیگ (ن) کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ملکی صدارت‘سینیٹ کی چیئرمینی‘کے پی کی گورنری اور بلوچستان کا اقتدار تو لے سکتی ہے مگر اپنی بارگیننگ پوزیشن کو صوبہ جنوبی پنجاب کی تشکیل کیلئے استعمال نہیں کر سکتی۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جو تختِ لاہور کی اُچی ماڑی کے نیچے گھوٹی جانے والی بھنگ سے مستفید ہو رہے ہیں۔
میرے خیال میں تو منصور ملنگی کے گانے کے اس شعر سے یہی مفہوم نکلتا ہے۔ کسی کے ذہن میں کوئی اور مفہوم ہو تو میری معلومات میں اضافہ ہوگا۔ شعر پھر عرض ہے:
شہر لاہور دیاں اچیاں ماڑیاں
ہیٹھ گھٹیندی اے بھنگ وے خاناں

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں