"KMK" (space) message & send to 7575

Good Cop, Bad Cop…(1)

اس ملک پر اللہ کا بڑا کرم ہے کہ یہاں ہمہ وقت کوئی نہ کوئی مسئلہ یا معاملہ سرگرم رہتا ہے اور عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائے رکھتا ہے۔ حکمران‘ مقتدرہ اور اس نظام سے مستفید ہونے والی اشرافیہ اس ہنگامے کی آڑ میں اپنا اُلو سیدھا کیے رکھتی ہے۔ عوام بیوقوف بن کر اس ڈرامے کی طرف متوجہ رہتے ہیں جو دراصل ایک ایسی سموک سکرین ہوتا ہے جس کی آڑ یا پردے میں مقتدرہ‘ حکمران اور ان کے دست و بازو اپنا اپنا کام اور مطلب نکالتے رہتے ہیں۔ عوام کی توجہ کہیں اور ہوتی ہے اور اس دوران اصل کھیل کا کسی کو اول تو علم ہی نہیں ہو پاتا‘ اور اگر ہو بھی تو اس آپا دھاپی میں کسی کی خاص توجہ حاصل نہیں کر سکتا۔ خاک نشین عوام کا دل لگا رہتا ہے اور نوری مخلوق چپکے سے اپنا کام نکال کر بڑے سکون سے پتلی گلی سے نکل جاتی ہے۔
فی الحال نہروں والا معاملہ گرم ہے اور اس میں سندھ کا مؤقف بڑی حد تک سمجھ میں بھی آتا ہے کہ میٹھا پانی سندھیوں کیلئے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ پاکستانی حکمرانوں نے شاید ماضی میں پانی کی متوقع کمی کے شدید اثرات کے بارے میں کبھی سنجیدگی سے سوچا بھی نہیں تھا۔ سندھ طاس معاہدے کے بعد دو دریائوں سے مکمل دستبرداری کے ساتھ ساتھ بھارت نے سندھ کے علاوہ پاکستان کے حصے میں آنے والے دیگر دو دریائوں جہلم اور چناب کے پانی کے ساتھ جو کیا ہم اس پر آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے۔ اس دوران انڈس واٹر کمیشن کے پاکستان کی جانب سے مقرر کردہ کمشنر سید جماعت علی شاہ بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں کے خلاف اپنا فرض نبھانے میں مکمل ناکام رہے اور عشروں تک اس ذمہ دار پوسٹ پر فائز رہنے کے دوران بھارت کی جانب سے دریائے چناب اور جہلم پر پانی ذخیرہ کرنے اور پانی کا رُخ بدلنے والے پروجیکٹس کی تعمیر کے دوران نہ صرف خود خاموش رہے بلکہ اس دوران انہوں نے کوشش کی کہ بھارت کی طرف سے اس آبی جارحیت بلکہ آبی دہشت گردی کی خبر بھی کسی کے کانوں تک نہ پہنچے۔ بھارت نے ان سالوں میں درجنوں چھوٹے چھوٹے ڈیموں کی مدد سے دریائے جہلم اور دریائے چناب کے پانی کو پاکستان کی جانب آنے سے روکنے کے منصوبے بنائے اور ان پر عمل بھی کر لیا۔ 2002ء سے 2009ء کے دوران لیہہ میں تعمیر ہونے والے نیمو بازگو ڈیم کے معاملے میں دم سادھے بیٹھے رہے تاوقتیکہ یہ ڈیم مکمل ہو گیا۔ اس ڈیم کے بنانے کا واحد مقصد سیاچن میں تعینات بھارتی فوجیوں کو بجلی کی بلاتعطل فراہمی تھی۔ اسی طرح وہ بگلیہار ڈیم کی تعمیر پر اپنا فرض نبھانے میں ناکام رہے۔جب معاملات خرابی کی آخری حد تک پہنچ گئے اور جماعت علی شاہ کا کردار میڈیا میں ہونے والی چیخ و پکار کے باعث عوامی سطح پر کھل کر آشکار ہوا تو سرکار کی آنکھیں کھلیں مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا تھا۔ دسمبر 2010ء میں بگلیہار ڈیم کی تعمیر پر عالمی عدالت میں کیس کے دوران جماعت علی شاہ کو اس کے عہدے سے فارغ کیا گیا تو انہوں نے عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ تک اس عہدے پر فائز رہنے کے حقدار ہیں۔ عشروں تک وہ واٹر کمشنر رہے اور اس دوران بھارت نے لگ بھگ 62 چھوٹے بڑے ڈیم بنائے مگر کمشنر صاحب ان ساری خلاف ورزیوں پر خاموش رہے‘ بقول شخصے وہ پاکستان سے تنخواہ لیتے ہوئے بھارتی مفادات کی نگرانی کرتے تھے۔مختلف فورمز پر ہونے والے عوامی احتجاج پر حکومت کی آنکھیں کھلیں اور جماعت علی شاہ کو عہدے سے ہٹا دیا۔ بعد ازاں نہایت سنجیدہ الزامات کے باعث ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا مگر وہ اس کے باوجود 2012ء میں کینیڈا فرار ہو گئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے خلاف ملک سے غداری کو کیس چلایا جاتا مگر وہ کینیڈا میں مزے کر رہے ہیں۔
پنجابی کی کہاوت ہے کہ جب دودھ زمین پر گر جائے تو اس پر رونے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ تاہم حالت یہ ہے کہ ستلج اور راوی تو ہم نے از خود بھارت کو بیچ دیے اور دریائے جہلم و چناب کا یہ عالم ہے کہ ان میں آج کل کسی عام سی نہر کے برابر پانی چل رہا ہے۔ میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران موٹر وے سے آٹھ دس بار آتے اور جاتے ہوئے ان دونوں دریائوں کے اوپر سے گزرا ہوں۔ میں نے اپنے بچپن میں بھی ان دریائوں کی روانی اور طغیانی دیکھی ہے۔ گرمیوں میں ایسا چوڑا پاٹ کہ پانی کناروں سے نکل کر اردگرد پھیل جاتا تھا مگر اب صورتحال ایسی ہے کہ دریا کے اردگرد پانی کا پھیلنا تو رہا ایک طرف‘ دریا کا اصل دھارا اور پاٹ جو ایک میل کے لگ بھگ ہوا کرتا تھا‘ اب سکڑ کر محض سو ڈیڑھ سو گز پر آ چکا ہے۔ دریا کا راستہ پانی کے بجائے ریت کے ٹیلوں سے بھر چکا ہے۔ پانی تو پنجاب میں بھی نہیں مگر یہاں کا کاشتکار اپنے حقوق اور اپنے پا نی کے معاملے میں لاتعلق بھی ہے اور بے حس بھی۔ یہ شاید پنجابیوں کا مزاج ہے کہ وہ اپنے حقوق کی پامالی اور غصب ہونے پر احتجاج کے بجائے صبر پر یقین رکھتے ہیں۔
جن نہروں پر شور مچ رہا ہے بھلا ان کا پانی عام پنجابی کاشتکار کو کب ملتا ہے؟ پنجاب میں کبھی دوامی نہریں یعنی بارہ ماہی نہریں ہوتی تھیں اب ایسی کسی نہر کا نام و نشان باقی نہیں۔ پھر چھ ماہی نہریں ہوتی تھیں وہ بھی سوکھی پڑی ہیں اور کاشت کے سیزن میں بھی ان میں پورا پانی نہیں آتا۔ مجوزہ نہروں کا پانی پنجاب کے غریب کاشتکار کی قسمت میں نہیں ہے مگر بدنام پنجاب ہو رہا ہے۔ اگر کسی ادارے میں پنجابیوں کی تعداد زیادہ ہے تو اس کا ملبہ پنجاب پر ڈالنا سراسر زیادتی ہے کہ ادارہ جاتی سوچ کا پنجاب سے نہیں‘ ایک ذہنیت سے تعلق ہے اور اس کا ملبہ پنجابیوں پر ڈالنا کسی طور درست نہیں۔
پنجابی کوئی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں اور ان میں بھی سو خرابیاں ہوں گی مگر کم از کم پنجابی ازم اور صوبائی تعصب بالکل نہیں۔ بلوچستان سے ہر مہینے چار چھ محنت کشوں اور مزدوروں کی لاشیں پنجاب آتی ہیں اور ان غریبوں کا قصور صرف اتنا ہوتا ہے کہ ان کے شناختی کارڈوں پر ان کا پتا پنجاب کا اور خصوصاً جنوبی پنجاب کے کسی شہر کا ہوتا ہے۔ ادھر یہ عالم ہے کہ پنجاب کے ہر شہر میں درجنوں کوئٹہ چائے کے ہوٹل ہیں اور ان کو چلانے والوں کو اس علاقے کے لوگ خان صاحب‘ خان صاحب کہہ کر عزت اور محبت سے پکارتے ہیں۔ کوئٹہ والوں کے یہ ہوٹل پنجابیوں سے بھرے پڑے ہیں اور کسی کو ادھر یہ کہتے نہیں سنا کہ آپ کے بلوچ قوم پرست بلوچستان سے پنجاب میں لاشیں بھیج رہے ہیں اور آپ لوگ ادھر پنجاب میں مزے کرتے ہوئے نوٹ کما رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ پنجابی بلوچستان سے پنجاب میں آ کر ہوٹل کھولنے والوں کے واری صدقے جاتے ہوئے ان کے ہوٹلوں پر اُمڈے پڑے ہیں۔
پیپلز پارٹی کا رویہ اور ردعمل ان نہروں کے معاملے میں بڑا عجیب و غریب ہے۔ ایسے معاملات میں Good Cop/Bad Cop کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اس اصطلاح کو اگر تمثیل سے سمجھا جائے تو یوں سمجھیں کہ مسلم لیگ (ن) میں مقتدرہ کے حوالے سے جو Bad Cop ہے وہ میاں نواز شریف ہیں تاہم اسی جماعت میں مقتدرہ کو رجھانے اور اس سے کام نکلوانے کیلئے ایک Good Cop ہے جو میاں شہباز شریف ہیں۔ اسی طرح ان نہروں کے معاملے میں پیپلز پارٹی میں ایک Good Cop ہے اور وہ آصف علی زرداری ہیں جبکہ سندھ کے عوام‘ کاشتکار اور اپنے سیاسی حمایتیوں کو تھپتھپانے اور رجھانے کیلئے بلاول بھٹو Bad cop کا کردار سرانجام دے رہے ہیں۔ حکومت پر تیر برسانے‘ علیحدگی کی دھمکیاں دینے اور مرکزی حکومت گرانے کی تقریروں کیلئے بلاول بھٹو اپنی سیاسی بریگیڈ کے ہمراہ شعلہ بیانی میں مصروف ہیں اور صدرِ مملکت ان نہروں کی سمری پر دستخط کرنے کے بعد تقریباً روپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں