"KMK" (space) message & send to 7575

بہتر معیشت کے اشاریے کیا ہیں اور کہاں ہیں؟

اس ملک میں سیاسی‘ لسانی اور فرقہ وارانہ گروہ بندی تو ہمیشہ سے تھی ہی‘ زیادہ گمبھیر مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ ماہرین جو کبھی صرف اپنے بہترین علم کے مطابق حقیقت آشکار کیا کرتے تھے‘ اب وہ بھی اس گروہ بندی کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ صورتحال باقی لوگوں کیلئے کیسی ہے مجھے علم نہیں‘ تاہم مجھ جیسا کم علم جو کبھی ماہرینِ معاشیات کی گفتگو اور تجزیوں سے علم اور نتائج کشید کیا کرتا تھا اب سراسر کنفیوز ہے اور اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس بات پر یقین کرے اور کس پر نہ کرے۔
اس ملک میں سب سے مقبول شے سازشی تھیوری ہے اور ہمارا خیال ہے کہ اگر اس پر یقین نہ کیا تو شاید ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو جائے گا۔ ان تھیوریوں میں آئی ایم ایف کی مذمت نہایت اعلیٰ درجے پر فائز ہے۔ ہم ہمہ وقت اس ملک کی معاشی بربادی کا سارا ملبہ آئی ایم ایف پر ڈال کر اپنا جی خوش کر لیتے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ آئی ایم ایف ہمیں زبردستی یا دھکے سے اپنا مجبور اور محکوم بنا رہا ہے؟ ہم خود اس کے پاس قرض کی درخواست لے کر جاتے ہیں‘ اس کی منت کرتے ہیں‘ اس کے ترلے لیتے ہیں‘ اس کی شرائط مانتے ہیں۔ اور اس کی شرائط ہیں کیا؟ اس کی شرائط ہیں کہ آپ اپنا پیسہ گھاٹے والے سرکاری اداروں میں نہ ڈبوئیں۔ اس کا مطالبہ ہے کہ خسارے میں چلنے والے صنعتی اور کمرشل ادارے پرائیویٹائز کر دیے جائیں۔ اس کا مطالبہ ہے کہ سرکار کی جانب سے سو فیصد فراڈ پر مبنی سبسڈی ختم کر دی جائے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ کاروبار وہ کریں جن کا کام ہے نہ کہ حکومت کاروبار میں پڑ جائے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ ٹیکس کا نظام درست کیا جائے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ ٹیکس کا سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے کے بجائے کاروباری اور صنعتی طبقے پر بھی ڈالا جائے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ فضول اور بے مقصد وزارتیں ختم کی جائیں۔ اس کا مطالبہ ہے کہ حکومتی اخراجات کم کیے جائیں۔ اس کا مطالبہ ہے کہ غیر ترقیاتی اخراجات کی کٹوتی کی جائے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ سرکاری افسران کے اثاثے پبلک کیے جائیں۔ اس کا مطالبہ ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کے زیر کفالت لوگ اپنے اثاثے ظاہر کریں اور تمام قابلِ ٹیکس لوگ صرف ٹیکس نہ دیں بلکہ اس کی ریٹرنز بھی جمع کرائیں۔
اب آپ خود بتائیں ان میں سے کون سا مطالبہ غلط ہے‘ کیا چیز قابلِ اعتراض ہے اور کون سی شے ہے جو معاشی ترقی کے خلاف ہے؟ ہمارے اخراجات زیادہ ہیں اور آمدنی کم ہے۔ ہم نہ اپنے اخراجات کم کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں اور نہ ہی آمدن بڑھانے کی طرف توجہ کر رہے ہیں۔ آمدن کم اور خرچ زیادہ ہو تو پھر کام ادھار لیے بغیر نہیں چل سکتا اور ہم اسی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف ہمیں آمدنی اور خرچ کے درمیان منفی فرق کو پورا کرنے کیلئے ادھار دیتا ہے۔ جیسے بینک آپ کو ادھار دیتے وقت اس ادھار کی واپسی یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرتا ہے اور ادھار دی گئی رقم سے زیادہ کی جائیداد یا کوئی اور شے رہن رکھتا ہے‘ اسی طرح آئی ایم ایف ہمیں ادھار دیتے وقت اپنی رقم کی وصولی یقینی بنانے کیلئے ہم پر کچھ شرائط عائد کرتا ہے تاکہ اس کا ادھار نہ ڈوب جائے۔ اب اس میں حیرانی والی کیا بات ہے؟
ایمانداری کی بات ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی جگہ پر میں ہوں تو اس سے بھی زیادہ سخت شرائط رکھوں اور سرکار کے اللوں تللوں پر پابندی لگائے بغیر ایک ٹکا بھی نہ دوں۔ عالم یہ ہے کہ ادھر آئی ایم ایف کا وفد ہمارے ساتھ قرض کی بات چیت کیلئے پاکستان آیا اور ادھر ہم نے ادھار ملنے کی امید کا چراغ روشن ہوتے ہی اپنی اٹھائیس رکنی وفاقی کابینہ کو بڑھا کر ڈبل کر دیا۔ جس روز قرض معاملے کا آخری دن تھا اس روز مزید تین وزرا نے حلف اٹھا لیا۔ متوقع خوشحالی کی خوشی میں سید عمران احمد شاہ کو وفاقی وزیر برائے وزارت تحفیف غربت وسماجی تحفظ کا عہدہ تفویض کیا گیا۔ آپ اندازہ کریں کہ ابھی قرض اصولی طور پر منظور بھی نہیں ہوا تھا اور تخفیف غربت کے نام پر ایک بیروزگار سیاستدان کو وزارت کی نوکری بخش کر اس کے روزگار کا مناسب بندوبست کر دیا۔ اس پر مجھے ایک پرانا لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک سردار نے اپنے نوکر کو شراب لینے کیلئے بازار بھیجا اور اپنی مطلوبہ شے کی آمد سے قبل ہی خوشی میں ناچنا اور بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیا۔ کسی پڑوسی نے پوچھا: سردار جی! بُہتی پی لئی اے؟ (زیادہ چڑھا لی ہے)۔ سردار جی کہنے لگے: نئیں اوئے! اجے لین لئی بندہ بھیجیا اے (نہیں بھئی! ابھی تو لینے کے لیے بندہ بھیجا ہوا ہے)۔ یعنی قرض ملا نہیں اور وزیروں کی ایک پوری بٹالین مزید بھرتی کر لی گئی۔
افسروں کیلئے بلامبالغہ سینکڑوں ڈبل کیبن ڈالے خریدے جا رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیروں کی تنخواہ میں 900 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزرا کی تنخواہوں میں 195 فیصد اور مشیروں کی تنخواہ میں 188 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر کی تنخواہ دو لاکھ اور وزیر مملکت کی تنخواہ ایک لاکھ اسی ہزار سے بڑھا کر 5 لاکھ 19ہزار ہو گئی ہے۔ ادھر حکومت کا دعویٰ ہے کہ مہنگائی کم ہو گئی ہے۔ بندہ پوچھے کہ اگر مہنگائی کم ہو گئی ہے تو پھر وزرا کی تنخواہیں کم کرنے کے بجائے بڑھائی کیوں گئی ہیں؟
ملکی معیشت بہتر کرنے اور آمدنی بڑھانے کا سب سے مؤثر اور تیر بہدف نسخہ تو یہ ہے کہ آمدنی بڑھائی جائے اور اخراجات کم کیے جائیں۔ حکومت دونوں میں سے ایک کام بھی نہیں کرنا چاہتی۔ اخراجات کم کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں اور آمدنی بڑھانے کا اس کے پاس کوئی فارمولا نہیں ہے۔ اللہ خوش رکھے عرصہ سے روپوش سابق وزیر مراد سعید کو‘ جب پی ٹی آئی کی حکومت آنے والی تھی تو فرماتے تھے کہ ہم سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے پاکستانیوں کے کالے دھن کے دو سو ارب ڈالر واپس لائیں گے اور اس میں سے آدھے پیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے منہ پر ماریں گے اور باقی آدھی رقم سے ملک کو خوشحال بنا دیں گے۔ نہ وہ پیسے آئے‘ نہ قرضہ اترا اور نہ خوشحالی آئی۔ ایسے منصوبوں کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ چلیں مراد سعید تو سیاسی نابالغ تھا‘ اپنے موجودہ وزیر خزانہ جو نہایت ہی اعلیٰ پائے کے ماہر معاشیات بتا کر لائے گئے ہیں‘ فرماتے ہیں کہ ہم بیرونِ ملک پاکستانیوں کی بھیجی جانے والی رقوم میں زبردست اضافہ کرکے ملکی معیشت کو بہتر کر دیں گے۔ یعنی معاشی بہتری کی ساری امید اب بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی جانے والی رقوم سے وابستہ کر لی گئی ہے۔ اگر اس سال قدرتی طور پر باہر سے رقوم زیادہ آنے لگ گئی ہیں تو اس میں وزارتِ خزانہ‘ وزیر خزانہ اور ماہرین معاشیات کا کیا کارنامہ ہے؟ اگر کل کلاں یہ رقم کم ہو گئی تو اس کی ذمہ داری کون اپنے سر لے گا؟ماہرینِ معاشیات ملک کی اقتصادی حالت بہتر کرنے کیلئے پیداوار میں اضافے‘ درآمدات میں کمی اور برآمدات کا ہدف بڑھانے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ خام مال برآمد کرنے کے بجائے ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی تیاری پر زور دیتے ہیں۔ برآمدات بڑھانے کے لیے ان کی مینو فیکچرنگ لاگت کم کرکے عالمی منڈی میں اسے مسابقت کے قابل بناتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ان میں سے ایک کام بھی نہیں ہو رہا۔
معیشت کی بہتری کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ملک میں مڈل کلاس میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اُلٹ ہو رہا ہے۔ اپر کلاس اور لوئر کلاس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مڈل کلاس مسلسل کم ہو رہی ہے۔ گمان غالب ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں مڈل کلاس ناپید ہو جائے گی۔ ملک میں بیروزگاری‘ مہنگائی اور امیر طبقہ بڑھتا جا رہا ہے۔ سرکار معاشی اشاریوں کو مثبت قرار دے رہی ہے۔ یہ مثبت اشاریے کیا ہیں؟ اور اس سے عام آدمی کی زندگی میں کیا بہتری آئی ہے؟ اگر کوئی یہ عقدہ حل کر دے تو بندہ اس کا شکرگزار رہے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں