لالہ فاروق تسنیم بھی اس دنیائے فانی سے جہانِ ابدی کی طرف کوچ کر گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ فاروق تسنیم ملتان کی طلبہ سیاست کا ایک روشن ستارہ اور محبت کا استعارہ تھا۔ عام سیاسی گرگوں سے یکسر مختلف۔ چھل‘ کپٹ‘ جھوٹ ‘ چکر بازی اور فریب سے کوسوں دور ایک ایسا طالبعلم رہنما جس کا واحد اور سب سے مؤثر ہتھیار اُس کا وہ خلوص تھا جس کے ساتھ وہ سارے کالج کے طلبہ کے ساتھ ملتا تھا اور پیش آتا تھا۔ کیا حامی اور کیا مخالف‘ وہ سب سے یکساں محبت سے ملتا تھا۔ لہجہ نرم‘ مزاج میں عاجزی‘ طبیعت میں انکساری ‘ یادداشت ایسی شاندار کہ کالج کے تقریباً ہر طالبعلم کے نام سے واقف اور کسی بھی مسئلے کے شکار طالبعلم کے ساتھ ہمہ وقت چلنے پر تیار۔ جب میں ایمرسن کالج میں داخل ہوا تو فاروق تسنیم سے پہلی ملاقات کالج کے موچی دروازے المعروف کرش ہال میں ہوئی جہاں وہ ہر نئے آنے والے طالبعلم سے باہمی تعارف میں مصروف تھا۔ گو کہ میری اُس سے کالج داخلے سے بھی پہلے کی شناسائی تھی تاہم میں جب بطور کالج کے طالبعلم اس سے ملا تو اس کے حقیقی جوہر تب مجھ پر آشکار ہوئے۔
فاروق تسنیم میرے ایمرسن کالج میں داخل ہونے سے پہلے ہوئے الیکشن میں جنرل سیکرٹری منتخب ہوا تھا۔ مجھے اس الیکشن کا سارا حال اس لیے معلوم ہے کہ میں تب ایمرسن کالج کی ہمسائیگی میں گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی میں تھا اور ہم آدھی چھٹی کے دوران الیکشن کی گہماگہمی دیکھنے ادھر آ جاتے تھے۔ اس یونین کا صدر منظور خان تھا جو بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی میں میاں عبدالشکور (الخدمت فاؤنڈیشن والے) کیساتھ نائب صدر منتخب ہوا۔ ایمرسن کالج کی طلبہ یونین کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ اُس سال یونین کی حلف برداری کی تقریب کے مہمانِ خصوصی صدر آزاد جموں و کشمیر سردار عبدالقیوم خان تھے۔ یہ دور طلبہ سیاست کے حوالے سے بڑا ہنگامہ خیز اور بھرپور تھا اور اس دور میں ایسے ایسے طالبعلم رہنما موجود تھے کہ ان میں اپنی جگہ بنانا بڑا مشکل کام تھا مگر سادہ دل اور عاجزی میں گندھے ہوئے فاروق نے نہ صرف اپنی جگہ بنائی بلکہ خود کو ایک مقبول اور ہر دلعزیز طالبعلم رہنما کے طور پر منوایا بھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب زکریا یونیورسٹی ابھی وجود میں نہیں آئی تھی اور ایمرسن کالج میں ہی ایم اے کی کلاسز لگا کرتی تھیں۔ طلبہ یونین میں عہدوں کی تقسیم یوں تھی کہ صدر ایم اے کا طالبعلم ہوتا تھا‘ جنرل سیکرٹری سال چہارم سے اور جوائنٹ سیکرٹری سال دوم سے ہوا کرتا تھا۔
وہ طبعاً ایک ملنسار اور دوستوں کو جوڑ کر رکھنے والا شخص تھا اور اس کی یہ خوبی ہم پر تب زیادہ کھلی جب وہ اپنا زمانہ طالبعلمی اور اس سے جڑی ہوئی طلبہ سیاست گزار کر عملی زندگی میں آیا۔ وہ ایمرسن کالج کی طلبہ یونین کے جنرل سیکرٹری کا عہدہ بڑی واضح اکثریت سے جیت کر سرخرو ہوا‘ تاہم اگلے سال ہی زکریا یونیورسٹی کا قیام عمل میں آ گیا اور ایمرسن کالج سے ایم اے کی کلاسز ختم کرکے ان کلاسوں کو زکریا یونیورسٹی منتقل کردیا گیا۔ اس کے بعد ایمرسن کالج میں صرف بی اے تک کی کلاسیں رہ گئیں اور صدر یونین کے عہدے کیلئے ایم اے کے بجائے بی اے فائنل کا طالبعلم امیدوار کا اہل ٹھہرا دیا گیا۔ فاروق تسنیم نئی بننے والی ملتان یونیورسٹی (بعد ازاں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی) میں ایم اے اردو میں داخل ہو گیا اور یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا پہلا جنرل سیکرٹری منتخب ہوا۔ یہ پہلا سال تھا اس لیے سبھی عہدیدار سال اول کے طالبعلم تھے۔ اگلے سال جب فاروق تسنیم ایم اے سال دوم کا طالبعلم تھا تو وہ ملتان یونیورسٹی کی طلبہ یونین کا صدر منتخب ہو گیا۔ میں فاروق کی شخصیت پر غور کروں تو بڑی عجیب و غریب چیزیں سامنے آتی ہیں۔ لڑائی جھگڑے اور مار کٹائی سے کوسوں دور رہنے والا پُرامن اور ٹھنڈی طبیعت کا حامل ہونے کے باوجود‘ اس زمانے میں جب طلبہ یونینز بڑی متحرک اور طالبعلم رہنما بھی بہت متحرک ہوتے تھے‘ فاروق اپنی دھیمے لہجے والی شخصیت کے ساتھ نہ صرف اپنی جگہ بنائے ہوئے تھا بلکہ وہ اس دور میں بھی مقبول طلبہ رہنماؤں میں شمار ہوتا تھا۔ مزید حیران کن بات یہ تھی کہ وہ خود ہر قسم کے لڑائی جھگڑے اور گرما گرمی کا عملی طور پر حصہ نہ ہونے کے باوجود کسی بھی مشکل صورتحال میں موقع سے ڈر کر کبھی غائب نہیں ہوا تھا۔ ہاں! البتہ ہم اس پر ہنستے تھے کہ بہرحال اتنی بار پولیس کے قابو میں نہیں آیا جتنی بار اسے آنا چاہیے تھا۔
یہ ضیا الحق کے مارشل لاء کا زمانہ تھا تاہم ابھی طلبہ یونینز پر پابندیاں عائد نہیں ہوئی تھیں۔ فاروق تسنیم اس دور میں بطور صدر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی تمام طلبہ یونینز کی تنظیم کا قائد تھا اور جاوید ہاشمی کے بعد ملتان میں طالبعلم رہنما کے طور پر اپنا مقام منوانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ وہ یونیورسٹی سے فارغ ہوا تھا کہ بلدیاتی انتخابات آ گئے۔ سیاست کا رسیا فاروق تسنیم اس میدان میں بھی کود پڑا لیکن ضیاالحق کے دور سے ہی سیاست میں پیسے کا عمل دخل شروع ہو چکا تھا اور سفید پوش فاروق تسنیم کے پاس نئے انتخابی تقاضوں سے نپٹنے کیلئے دھن دولت تو تھی نہیں‘ سو اُس نے اسے خیرباد تو کہہ دیا تاہم اس کی سیاست میں متوقع آمد کو دوسری جانب موڑنے کیلئے جنرل ضیا الحق نے ملتان کے دورے کے دوران جن لوگوں سے ملاقات کی ان میں فاروق تسنیم بھی شامل تھا۔ اسی ملاقات میں جنرل ضیا نے سرکاری نوکری کی کنڈی ڈال کر فاروق تسنیم کو پھانس لیا اور سیاست کی راہ کے مسافر کو نوکری کی راہ پر ڈال کر ملتان سے کسی متوقع مڈل کلاس عوامی نمائندے کے سیاسی مستقبل کا دھڑن تختہ کر دیا۔
فاروق تسنیم عملی طور پر تو سیاست سے دستبردار ہو گیا لیکن اس کے اندر جو عوامی رابطے اور دوستوں سے جڑے رہنے والا ایک شخص تھا نوکری کی ڈور سے بندھ جانے کے باوجود اپنی راہ سے مکمل لاتعلق نہ رہ سکا۔ اس نے ایک چھوٹی سی تنظیم 'پاکستان ینگ کونسل‘ بنا لی جس میں اس کے ساتھ ہمارا ایک اور دوست‘ ایمرسن کالج طلبہ یونین کا سابقہ جوائنٹ سیکرٹری بشیر احمد خان بھی تھا۔ آپ یوں سمجھیں کہ دو افراد پر مشتمل یہ ایسی تنظیم تھی جس کا کام صرف اور صرف دوستوں سے رابطہ رکھنا تھا اور رابطہ بھی کوئی ایسا ویسا۔
فاروق تسنیم سے دوستی کو قریباً پانچ عشرے ہو چکے ہیں اور وہ گزشتہ تین عشروں سے ملتان چھوڑ کر لاہور منتقل ہو چکا تھا مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ دوستوں کے ساتھ رابطے میں نہ ہو۔ جب تک عید کارڈ بذریعہ ڈاک بھیجنے کا رواج تھا‘ فاروق تسنیم کا عید کارڈ محبت بھری یاد دہانی کا ایسا قاصد تھا جو اس کے خلوص کا سندیسہ لے کر ہر سال آتا تھا۔ پھر عید کارڈ ماضی کے دھندلکوں میں کھو گیا تو اس نے فون کو آدھی ملاقات سے بڑھ کر رابطے کا ذریعہ بنا لیا۔ وہ لاہور میں ملتان کے دوستوں کو جوڑے رکھنے کا نام تھا۔ ملتان سے جو دوست بھی ہجرت کرکے لاہور گیا اس کو کسی اور نے خوش آمدید کہا ہو یا نہ کہو‘ فاروق تسنیم نے اس کیلئے اپنے بازو ہمیشہ واکیے رکھے۔ وہ لاہور میں ملتان کے دوستوں کو ایک دوسرے سے ہمہ وقت جوڑے رکھنے میں مصروف رہا۔ مستقل لاہور میں رہائش پذیر ہونے کے باوجود وہ ملتان کے دوستوں کی تمام تر خوشیوں اور غموں کا شریک تھا۔ لاہور میں وہ مہاجرینِ ملتان کا آسرا بھی تھا اور سرپرست بھی۔مسلسل مسافرت میں مصروف اس مسافر کو اپنی اس عادت کے سبب جو ملال ہے وہ صرف یہ ہے کہ اپنے بہت سے دوستوں کے پاس یہ وقتِ آخر موجود نہ تھا اور بہت سے دوستوں کو ان کی زندگی کے آخری سفر میں کندھا نہ دے سکا۔ پروفیسر باقر خان‘ مرغوب عامر کھتران‘ وڈا باوا فاروق کاشمیری اور اب فاروق تسنیم اس مسافر کی مہمان گردی کے دوران اپنے مالک کے ہاں حاضر ہو گئے اور اس مسافر کے پاس سوائے ملال اور جانے والوں کیلئے دعائے خیر کے اور کچھ بھی نہیں۔
کسی نے ہم سے کہا آنکھ موند کر دیکھو
ہمیں سنائی دیا کل من علیھا فان