شریف اللہ کی گرفتاری پر امریکہ کی جانب سے پاکستان کی ستائش اور بارہ مارچ سے امریکہ آنے والے پاکستانیوں پر متوقع سفری پابندی کا معاملہ کوئی بین الاقوامی مسئلہ نہیں بلکہ یوں سمجھیں یہ مطلب پرست مالک اور لالچی و مستعد نوکر کے مابین روزمرہ کا معاملہ ہے۔ مطلب پرست آقا معاوضہ دینے کے بعد ملازم کی مستعدی پر اسے شاباش سے تو نوازتا ہے لیکن اس قسم کی کاوشوں کو ادائیگی کے عوضانے میں ڈال کر بھول جاتا ہے اور ایسے کاموں کی انجام دہی پر نوکر کی وفاداری اور مستعدی پر اسے مستقبل میں کسی قسم کی رعایت وغیرہ کے قابل نہیں سمجھتا۔ ایک طرف اپنی بے مثل وفاداری اور جانثاری کے عوض معاوضے کی وصولی کے بعد ہر بار یہ توقع باندھ لی جاتی ہے کہ مطلب پرست اور طوطا چشم آجر اس کام کی انجام دہی کے بعد بھی اس کا تا دیر مشکور و ممنون رہتے ہوئے اس کا یہ احسان زندگی بھر یاد رکھے گا لیکن دوسری طرف وہ ہر کام کی بروقت اور مناسب ادائیگی کے بعد خود کو کسی قسم کی احسان مندی وغیرہ جیسی متروک چیز سے بری الذمہ سمجھتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بے شمار سابقہ تجربات کے باوجود ہر بار امریکہ سے مستقبل میں احسان مند رہنے کی فضول توقع باندھ لینا کارِ لاحاصل ہے۔ لہٰذا شریف اللہ کی گرفتاری کے بعد اعلیٰ حضرت ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ جانے والے پاکستانی مسافروں پر متوقع پابندیوں کے معاملے پر کسی واویلے یا کہرام مچانے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے۔ پاکستان کی جانب سے انجام دی جانے والی کارکردگی پر امریکی ادائیگی کے بعد حساب بے باق ہو جانے کا معاملہ اب روٹین کی بات ہے‘ تاہم اگر ہم ہر بار کی طرح اس بار بھی امریکہ سے کوئی توقع باندھ لیتے ہیں تو یہ ہماری حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
ٹرمپ کے اصلی اقدامات وہ ہیں جن کا تعلق مکمل طور پر امریکہ سے ہے۔ چھ ہفتے کے مختصر سے وقت میں سو سے زیادہ ایگزیکٹو آرڈرز جاری کرکے ریکارڈ قائم کرنے والے صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر یوٹرن لیتے ہوئے دو روز قبل میکسیکو اور کینیڈا پر عائد کیے جانے والے درآمدی ٹیرف کو ایک بار پھر کچھ عرصے کیلئے مؤخر کرنے کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کردیا ہے۔ اس سے قبل صدر ٹرمپ نے میکسیکو اور کینیڈا کو یونائیٹڈ سٹیٹ‘ میکسیکو‘ کینیڈا ایگریمنٹ (USMCA) کے تحت درآمد ہونے والی اشیا کو حاصل رعایتوں اور خصوصی سٹیٹس کے زمرے سے نکال کر 25 فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان اور ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا۔ پھر ایک اور ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے اس ٹیرف کو مؤخر کیا۔ پھر دوبارہ ایک اور ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے اسے لاگو کیا اور اب تیسری بار یوٹرن لیتے ہوئے میکسیکو کی صدر کلاڈیا شیئن باؤم (Claudia Sheinbaum) سے گفتگو کے بعد دوبارہ عائد کردہ ٹیرف کو دوسری بار مؤخر کر دیا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تیاری کے کئے جانے والے اقدامات اور جاری کیے جانے والے حکم نامے اسی طرح یو ٹرن لیتے ہوئے واپس لیے جاتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سے امریکی مارکیٹ دباؤ کا شکار تھی اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے نے معاملات کو مزید تنزلی کی طرف دھکیل دیا تھا۔ پہلے تو امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ مارکیٹ وغیرہ جیسی فضولیات کو دیکھتے ہی نہیں‘ تاہم ان کا اصرار تھا کہ ان کے اقدامات کی اہمیت وقتی حوالوں سے نہیں‘ دیرپا اثر پذیری کے حساب سے امریکہ کو ترقی اور مضبوطی کی طرف لے جانے کے حوالے سے ہے۔ اب نئے ایگزیکٹو آرڈر کے مطابق کینیڈا اور میکسیکو سے درآمد شدہ اشیا پر 25فیصد ٹیرف کا اطلاق دو اپریل 2025ء تک موخر کر دیا گیا ہے۔
اس سے قبل صدر ٹرمپ کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر اور ان کو امریکہ سے بے دخل کرنے جیسے حکمنامے کے بعد غیر ملکی تارکین وطن‘ جن میں میکسیکو سے آنے والے غیر قانونی ورکرز کی اکثریت ہے‘ میں خاصی ہلچل اور بے چینی پھیل گئی تھی اور نامکمل کاغذات والے یا غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والے اس پکڑ دھکڑ اور سختی کے بعد کام وغیرہ چھوڑ چھاڑ کر ادھر اُدھر ہو گئے تھے۔ اس ساری دوڑ دھوپ اور شروع شروع میں ہونے والی گرفتاریوں کے بعد خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ مارکیٹ میں ورکرز کی بُری طرح کمی واقع ہو گئی۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکی کھیتوں میں زیادہ تر تعداد میکسیکو یا جنوبی امریکہ کے دیگر ممالک سے غیر قانونی طریقے سے آنے والے کھیت مزدورکام کرتے ہیں۔ گورا اس قسم کے معمولی‘ مشکل اور مشقت طلب مزدوری والے کام خود نہیں کرتا بلکہ دوسری اقوام سے کرواتا ہے۔ جیسے ہی صدر کا ایگزیکٹو آرڈر جاری ہوا اور اس پر عملدرآمد شروع ہوا کھیت سے مزدور غائب ہو گئے اور معاملہ صرف یہیں تک نہیں تھا کہ کھیت مزدور غائب ہو گئے بلکہ لائیو سٹاک کا شعبہ‘ جو امریکہ کا بہت بڑا اکنامک سیکٹر ہے‘ اس میں بھی ڈیری وپولٹری فارمز اور ان سے متعلقہ دیگر ضمنی کاموں میں بھی سو فیصد نہ سہی مگر ستر‘ اسی فیصد لیبر انہی جنوبی امریکی مزدوروں پر مشتمل تھی۔ اب اس ایگزیکٹو آرڈر کا براہِ راست اثر ملک کی زراعت‘ لائیو سٹاک اور ان سے جڑے دیگر شعبہ ہائے زندگی پر پڑنا شروع ہو گیا۔ زمینداروں اور فارم مالکان پر اس ساری صورتحال کا برا اثر پڑا۔ اس حکمنامے کے متاثرین میں ہر قسم کا امریکی شامل تھا‘ کیا ٹرمپ کا حامی اور کیا ٹرمپ کا مخالف۔ کیا ریپبلکن اور کیا ڈیموکریٹ‘ کسی میں کوئی تخصیص نہ رہی۔
یہ صورتحال صرف یہیں تک محدود نہیں‘ دکانوں پر زیادہ تر کام کرنے والے یہی ہسپانوی بولنے والے تارکین وطن ہیں‘ جو نہ صرف محنتی اور سخت جان ہیں بلکہ نسبتاً کم اجرت پر کام کرنے کی وجہ سے دکانوں‘ مارکیٹوں‘ گیس سٹیشنوں اور دیگر شعبوں میں کام کرنے کے حوالے سے مقبول اور چھائے ہوئے ہیں۔ ہمارے فلوریڈا کے کاروباری دوست بتانے لگے کہ ادھر میامی میں اکثر علاقوں میں وہ بندہ دکان پر کام کر ہی نہیں سکتا جسے ہسپانوی زبان نہ آتی ہو۔ یہ کوئی قانونی نہیں بلکہ علاقائی مجبوری ہے کہ یہاں ہسپانوی زبان بولنے والوں کی اتنی تعداد آباد ہے کہ ہسپانوی زبان سے نابلد شاپ ورکر یا گیس سٹیشن ورکر چل ہی نہیں سکتا۔ رہوڈ آئی لینڈ والے ہمارے بہت پرانے اور پیارے دوست الیاس چوہدری نے ملنے کیلئے آنے کا پروگرام بنایا مگر پھر معذرت کر لی کہ ان کے دو ورکرز اس پکڑ دھکڑ سے خوفزدہ ہو کر دائیں بائیں ہو گئے ہیں اور اب وہ ان کی جگہ خود کام کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کو کام کرنے والے مل ہی نہیں رہے۔ یہی صورتحال فلاڈیلفیا اور لاس اینجلس کے دوستوں نے بتائی۔ امریکی معیشت میں یہ غیر قانونی مقیم غیر ملکی محنت کش جن کی اکثریت محنت طلب اور مشقت بھرے کاموں سے منسلک ہے‘ بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ امریکی زراعت‘ لائیو سٹاک‘ تعمیراتی سیکٹر‘ انفراسٹرکچر‘ کان کنی‘ صنعت‘ ٹرانسپورٹیشن کا شعبہ‘ گیس سٹیشنز اور تمام تر کاؤنٹر جاب پر کام کرنے والے ورکرز کی غالب اکثریت یہی غیر قانونی طریقے سے امریکہ آئے ہوئے محنتی‘ مضبوط اور مشقت کے عادی جنوبی امریکہ کے مختلف ممالک بشمول میکسیکو‘ کولمبیا‘ وینزویلا‘ بولیویا‘ پیرا گوئے اور گوئٹے مالا وغیرہ سے بہتر مستقبل کی امیدیں لائے ہوئے محنت کش ہیں۔
بیس جنوری کے بعد زور شور سے شروع ہونے والی تارکین وطن کے خلاف پکڑ دھکڑ کی مہم اب مدہم پڑ گئی ہے اور ٹرمپ کو بھی سمجھ آ گئی ہے۔ گمان ہے کہ ٹرمپ کو جلد یا بدیر اور بھی بہت سی چیزوں کی سمجھ آ جائے گی۔ اگر نہیں سمجھ آئے گی تو ہمارے حکمرانوں‘ سیاستدانوں اور بڑے بڑے اداروں کو‘ جنہوں نے تجربوں سے کچھ نہیں سیکھا‘ سوائے اس کے کہ پرانے تجربوں کو نئے طریقوں سے دہرایا جائے یا پھر نئے تجربے پرانے طریقے سے کیے جائیں۔ ہم عشروں سے تجربوں اور طریقوں کی گھمن گھیری میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔