دہلی کے ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی غیرمتوقع شکست کی ذمہ داری اس کے بانی لیڈر اروند کجریوال پر ہی ڈالی جا رہی ہے۔ نریندر مودی اور اس کی انتہا پسند اور اقلیتوں کی دشمن جماعت بی جے پی اور اس کے ہم خیال گروپوں کے علاوہ بھارت میں شاید ہی کوئی سیاسی رہنما یا جماعت ان انتخابی نتائج پر خوش ہو گی۔ اس کے برعکس نہ صرف اپوزیشن اتحاد میں شامل دو درجن سے زیادہ پارٹیوں بلکہ بھارت میں ان حلقوں میں بھی‘ جو قومی سیاست میں اعتدال پسندی‘ جمہوری کلچر‘ لسانی‘ مذہبی اور نسلی اختلافات کے باوجود مساوی حقوق کا فروغ چاہتے ہیں‘ مایوسی اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ حتیٰ کہ کانگریس کی قیادت بھی دہلی میں بی جے پی کی جیت پر خوش نہیں بلکہ اس کی قیادت میں قائم اپوزیشن اتحاد (INDIA) کی صفوں میں اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ ہریانہ (اکتوبر 2024ء) اور مہاراشٹر (نومبر2024ء) کے بعد دہلی تیسری ریاست ہے جہاں کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو سروے رپورٹس کے برعکس غیرمتوقع طور پر بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
اپوزیشن حلقوں کے مطابق بی جے پی کو یہ کامیابیاں اپوزیشن اتحاد''انڈیا‘‘ کی صفوں میں انتشار کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں۔ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں آپس میں دست و گریبان ہوں گی تو انتخابی نتائج ایسے ہی ہوں گے جیسے دہلی میں سامنے آئے ہیں۔ کشمیری رہنما کی اس وارننگ کے بعد اپوزیشن کو اسی سال اکتوبر میں ہونے والے بہار کے ریاستی انتخابات کی فکر پڑ گئی ہے۔ اگلے سال مغربی بنگال میں بھی ریاستی انتخابات ہونے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کو خدشہ ہے کہ ہریانہ‘ مہاراشٹر اور دہلی میں لینڈ سلائیڈ وکٹری کے بعد بی جے پی کہیں بہار اور مغربی بنگال کے ریاستی انتخابات میں بھی جیت نہ حاصل کر لے۔ اُتر پردیش‘ بہار‘ مہاراشٹر اور مغربی بنگال کو بھارت کی بڑی ریاستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتوں کا مطلب صرف یہ نہیں کہ یہ جماعت بھارت کے آئندہ پارلیمانی انتخابات (2029ء) کو اپنے حق میں متاثر کر سکتی ہے بلکہ ان ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی سے اسے بھارت کے ایوانِ بالا یعنی راجیہ سبھا میں بھی بھاری اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ ان امکانات کے تناظر میں اپوزیشن حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ بھارت وَن پارٹی راج کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد نریندر مودی نہ صرف آئین میں اپنی مرضی سے ترامیم کر سکتے ہیں بلکہ گزشتہ دس برسوں سے بی جے پی کو علاقائی رہنماؤں کی طرف سے جن چیلنجز کا سامنا ہے‘ ان پر قابو پانے میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ان علاقائی رہنماؤں میں مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتاز بینر جی اور دہلی کے اروند کجریوال شامل تھے۔ باقی علاقائی رہنماؤں کے مقابلے میں اروند کجریوال کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے بدعنوانی‘ اقربا پروری‘ خاندانی وراثت‘ مذہبی انتہا پسندی‘ ذات پات اور طبقاتی مفاد پرستی جیسی معاشرتی برائیوں کی شکار بھارتی سیاست کے مقابلے میں ایک ''متبادل سیاسی ماڈل‘‘ پیش کیا تھا جس کا واحد مقصد کرپشن کے خلاف جدوجہد‘ گڈ گورننس اور جھونپڑیوں اور جھگیوں میں رہنے والے غریب و مفلوک الحال لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب لانا تھا‘ مگر ان کا ماننا تھا کہ اس انقلاب کیلئے کسی نظریے کی ضرورت نہیں۔ وہ بھارت میں ایک غیر نظریاتی سیاست کے ذریعے ایک سیاسی انقلاب لانا چاہتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں نظریہ معاشرے کو متحارب گروپوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ اس لیے وہ غیر جانبدار رہ کر سیاسی نظام میں انقلاب لانے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ اس میں ناکام رہے‘ کیونکہ سیاست ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متصادم مفادات کے حامل طبقات کے درمیان کشمکش کا نام ہے اور معاشرے کا کوئی فرد اس جنگ میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔ اسے یا تو اس کشمکش کا شکار ہونا پڑے گا یا اس میں اپنے مفاد کے دفاع کیلئے فعال کردار ادا کرنا پڑے گا۔ کجریوال نے اس کشمکش میں غیر جانبدار رہنے کی کوشش کی اس لیے ان کے بعض فیصلے تضاد کا شکار تھے۔ مثلاً وہ بی جے پی کے سخت مخالف تھے لیکن بی جے پی کا وجود جس نظریے پر قائم ہے یعنی 'ہندوتوا‘ اس کی وہ مذمت نہیں کرتے تھے بلکہ بعض حلقوں کے مطابق وہ اپنے آپ کو بی جے پی سے بھی زیادہ ہندوتوا کا حامی ثابت کرنا چاہتے تھے۔ اس کی ایک مثال دہلی میں بی جے پی کے انتہا پسند کارکنوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر حملوں اور املاک کی تباہی پر ان کی خاموشی ہے حالانکہ اعتدال پسند ہندوؤں اور آزاد میڈیا نے دہلی میں مسلمانوں کے خلاف فسادات کی پُرزور مذمت کی تھی اور ریاستی حکومت کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ عام آدمی پارٹی کی پہلی مدت (2015 تا 2020ء) میں دہلی کے متوسط طبقوں نے کجریوال کا ساتھ دیا تھا۔ اس کی وجہ اروند کجریوال کی طرف سے بدعنوانی اور اقربا پروری سے پاک گڈ گورننس کا وعدہ تھا‘ لیکن جب بی جے پی کی مرکزی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے علاوہ انکم ٹیکس کی سطح کو نیچے لا کر متوسط طبقے کو اس بات پر قائل کر لیا کہ وہ عام آدمی پارٹی کے مقابلے میں ان کے طبقاتی مفادات کو بہتر طریقے سے تحفظ دے سکتی ہے تو انہوں نے حالیہ ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کے بجائے بی جے پی کو ووٹ دیا اور اس طرح کجریوال ہار گئے۔ ان کی اس ہار کو دراصل غیر نظریاتی سیاست کے متبادل ماڈل کی شکست قرار دیا جا رہا ہے۔
پارلیمانی انتخابات (2024ء) میں بی جے پی کی ایک اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے ابھرنے میں ناکامی کو اپوزیشن خصوصاً کانگرس نے نریندر مودی کی سیاست کے زوال یا 'مودی ویوو‘ کے خاتمے سے تعبیر کیا تھا مگر بی جے پی نے ایک سال میں تین ریاستوں یعنی ہریانہ‘ مہاراشٹر اور دہلی میں توقعات سے کہیں بڑھ کر کامیابی حاصل کر کے اپوزیشن کو غلط ثابت کر دیا۔ بی جے پی نے یہ کارنامہ کیسے سرانجام دیا‘ میڈیا میں ہونیوالی بحث سے پتا چلتا ہے کہ بی جے پی نے 2024ء کے انتخابات میں پارٹی مقبولیت میں کمی کا باعث بننے والے عوامل کا بغور جائزہ لیا اور اپنی حکمت عملی میں تبدیلی پیدا کی۔ نئی حکمت عملی کے تحت اپنے مدمقابل سیاسی پارٹیوں کے کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کی اور پھر انہیں مین سٹریم اور سوشل میڈیا کے ذریعے خوب مشتہر کیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اپوزیشن کے مقابلے میں بی جے پی کا سوشل میڈیا وِنگ بہت مضبوط ہے اور اس کے ذریعے حقائق کو توڑ مروڑ کر اور اصلی صورتحال کو غلط انداز میں پیش کر کے اپنے مخالفین کا پبلک امیج خراب کرنے میں بی جے پی نے مہارت حاصل کر رکھی ہے۔ بی جے پی کے پاس گراؤنڈ لیول پر ڈور ٹو ڈور کنوینسنگ کرنے کیلئے آر ایس ایس کے بے شمار رضاکار موجود ہیں۔ پارٹی رہنما جلسوں کے ذریعے لوگوں سے ووٹ کی اپیل کر رہے تھے جبکہ آر ایس ایس کے رضا کار کارنر میٹنگز میں مصروف تھے۔ مرکز میں برسراقتدار ہونے کی وجہ سے بی جے پی کو جو فائدہ حاصل ہے‘ دہلی اسمبلی کے انتخابات میں اسکا استعمال واضح طور پر نظر آیا۔ کجریوال اور انکے تین قریبی ساتھیوں کی ''شراب کی فروخت کے سیکنڈل میں گرفتاری‘‘ ریاستی حکومت کے اختیارات کم کرنے کیلئے آئینی تبدیلی اور انتخابات سے عین پہلے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور ٹیکسوں میں کمی کے ذریعے انتخابی فضا کو اپنے حق میں کرنا اس کی مثالیں ہیں۔ اس لیے بھارت میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی طاقتور مرکز کے سہارے علاقائی سطح پر اپنے سیاسی حریفوں کو باری باری ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کجریوال کے بعد اب بہار میں نتیش کمار اور بنگال میں ممتا بینر جی کی باری ہے۔ اسکے بعد بھارت کے پارلیمانی نظام کا عملی طور پر ایک صدارتی نظام میں اور وفاقی ریاست کا ایک وحدانی ریاست میں تبدیل ہونے کا حقیقی خطرہ پیدا ہو جائے گا۔