"DRA" (space) message & send to 7575

امریکہ ایران پر حملہ کر سکتا ہے؟ …(4)

مارچ کے پہلے ہفتے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے نام جو خط ارسال کیا گیا ‘ اس میں ایران سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام پر امریکہ کے ساتھ ڈیل کرنے کیلئے بات چیت کا آغاز کرے ورنہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے امریکہ طاقت استعمال کرے گا۔ ٹرمپ کے اس خط پر تقریباً تین ہفتے تک غور و خوض کرنے کے بعد ایرانی حکومت نے جواب دیا کہ ایک ایسے ماحول میں جب امریکہ نے ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہوں ایران دھمکیوں اور دباؤ سے مرعوب ہو کر امریکہ سے براہِ راست بات چیت نہیں کرے گا‘ البتہ پہلے کی طرح بالواسطہ مذاکرات ہو سکتے ہیں اور ایرانی حکومت اس کیلئے تیار ہے۔ امریکہ نے اس خط کو کوئی براہِ راست جواب تو نہ دیا البتہ 30 مارچ کو ایک امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایران نے ڈیل نہ کی تو اسے امریکی بمباری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اب گزشتہ روز اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ نے ایران اور امریکہ کے مابین مذاکرات کے جلد آغاز کا عندیہ دیا تھا۔ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد ایران کے سرکاری میڈیا نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دونوں ملکوں میں وزارتِ خارجہ کی سطح پر مذاکرات 12 اپریل کو عمان میں ہوں گے جس میں ایران کی نمائندگی ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکہ کی نمائندگی امریکی صدر کے مندوب سٹیو وٹکوف کریں گے۔ ایران اور امریکہ کے مابین مذاکرات کا آغاز خوش آئند ہے لیکن صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ بات چیت کامیاب نہ رہی تو ایران بہت بڑے خطرے میں گھر جائے گا۔ایران امریکہ مذاکرات سے قطع نظر غزہ پر نئے اسرائیلی حملوں سے پیدا ہونے والا بحران جو شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اس نے آنے والے دنوں کے بارے میں نئے سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ ان میں پہلا سوال یہ ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کو یکطرفہ ختم کرکے اسرائیل نے غزہ میں ہوائی اور زمینی حملوں کا جو تازہ سلسلہ شروع کیا ہے اس کا ہدف کیا ہے اور کیا اسرائیل کو ان حملوں کیلئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت حاصل ہے؟ بظاہر تو معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف غزہ بلکہ لبنان اور شام میں بھی اپنے جارحانہ حملوں میں نیتن یاہو کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے‘ اس صورت میں امریکہ اور اسرائیل کی تمام تر توجہ اور توانائیاں غزہ‘ شام اور لبنان کے محاذوں پر مرکوز رہیں گی۔ بعض امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ ایران پر حملے سے گریز کرنا چاہتے ہیں اور جوہری مسئلہ حل کرنے کیلئے ایران پر ایک طرف سفارتی دباؤ اور اقتصادی پابندیاں عائد کر رہے ہیں تو دوسری طرف خطے میں ایران کے اتحادیوں کا قلع قمع یا انہیں فوجی لحاظ سے کمزور کرکے ایران کو اکیلا کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کو امید ہے کہ اقتصادی پابندیوں اور سفارتی دباؤ کے نتیجے میں ایران میں حکومت کے خلاف بغاوت ہو سکتی ہے۔ امریکہ کے خیال میں غزہ میں حماس‘ لبنان میں حزب اللہ کو کمزور اور شام میں بشار الاسد حکومت کو ختم کر کے ایران کو کافی حد تک کمزور کیا جا چکا ہے۔ اب اسرائیل اور امریکہ یہی عمل یمن میں دہرانا چاہتے ہیں‘ مگر یمن امریکہ کیلئے تر نوالہ ثابت نہیں ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ عسکری لحاظ سے یمن کی امریکہ اور اسرائیل کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں تاہم امریکہ اور اسرائیل کی تباہ کن بمباری کے باوجود بحیرہ احمر اور باب المندب کے آس پاس سمندروں میں امریکی بحریہ کے جنگی جہازوں پر حوثیوں کے میزائل حملوں کو مکمل طور پر نہیں روکا جا سکتا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ غزہ‘ لبنان اور شام کے برعکس یمن کا ایک بہت بڑا حصہ اونچے اور دشوار گزار پہاڑوں پر مشتمل ہے جہاں نہ صرف میزائلوں کے ذخیروں کو چھپایا جا سکتا ہے بلکہ حوثی جنگجو امریکی ڈرون اور فضائی حملوں سے بچنے کیلئے پناہ بھی لے سکتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دس برس سے حوثی قبائل حالتِ جنگ میں ہیں۔ اس لیے امریکہ اور اسرائیل ان کی مزاحمت کو ختم نہیں کر سکتے کیونکہ اسرائیل اور امریکہ دونوں یمن میں اپنی پیدل فوج داخل کرکے وہاں قبضہ نہیں کر سکتے۔ غزہ‘ لبنان اور شام میں یہ ممکن تھا اور ایسا کیا گیا ہے کیونکہ ان ممالک کی سرحدیں اسرائیل سے ملتی ہیں۔ زمین ہموار ہے۔ اسرائیل وہاں اپنے ٹینک داخل کر سکتا ہے اور بھاری توپ خانے کا استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن یمن میں ایسا ممکن نہیں۔ حوثی قبائل میدانی علاقوں میں اپنے ٹھکانوں کی تباہی کے بعد پہاڑی علاقوں سے امریکی بحریہ کے جہازوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ میں تحفظ فراہم کرنے کیلئے امریکہ کا پانچواں بحری بیڑہ بحرین میں لنگر انداز ہے‘ مگر یمن کے حوثیوں کی طرف سے ڈرون اور میزائل حملوں میں شدت آنے کے بعد بحر ہند میں امریکہ نے اپنے ساتویں بحری بیڑے کو بھی مشرق وسطیٰ کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یمن کے حوثیوں کی طرف سے بحیرۂ احمر اور اس کے اردگرد کے پانیوں میں موجود امریکی بحریہ کے جہازوں پر حملوں کو کتنی سنجیدگی اور تشویش کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بحیرۂ احمر اور بحر ہند کا شمال مغربی حصہ ایران پر امریکی حملوں کیلئے لانچنگ پیڈ کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر یہ خطہ حوثیوں کے میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنا رہے تو امریکہ ایران پر کیسے حملہ کر سکتا ہے؟
جہاں تک ایران پر امریکی اور اسرائیلی حملے کا تعلق ہے تو نیتن یاہو کے ذہن میں 1981ء کے عراق کی جوہری تنصیبات پر حملے اور تباہی کی کارروائی کا نقشہ ہوگا‘ لیکن ایران کے تناظر میں ایسی کارروائی کے دہرائے جانے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ ایک تو ایران کی جوہری تنصیبات زمین میں بہت گہرائی تک ہیں اور دوسرا‘ ایران ایسے حملوں کی صورت میں جوابی کارروائی کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس میں ایران کا جغرافیائی محل وقوع‘ قدرتی وسائل ‘ متحد قوم اور مضبوط حکومت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ایران میں موجودہ سیاسی نظام اور حکومتی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے لوگ یقینا موجود ہیں مگر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے حملوں کی وجہ سے ایران کے لوگ اپنی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے تو یہ ان کی ایک بہت بڑی خوش گمانی ہے‘ اس کے برعکس حملے کی صورت میں ایرانی عوام کی طرف سے باہمی اتحاد اور حکومت کے ساتھ یکجہتی کا زیادہ امکان ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ایران کے پاس خلیج فارس کا ایک طویل ساحل ہے اور اسے بحر ہند سے ملانے والی تنگ آبی گزرگاہ 'آبنائے ہرمز‘ جہاں سے دنیا کا تقریباً ایک چوتھائی تیل اور گیس سپلائی ہوتا ہے‘ کو ایران کسی وقت بھی بلاک کر سکتا ہے۔ ایران کے انقلابی دستوں نے امریکہ کو پہلے ہی خبردار کر دیا ہے کہ وہ ایران پر حملہ کرنے سے پہلے یہ سوچ لے کہ خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں امریکہ کے متعدد اڈے اور ہزاروں کی تعداد میں امریکی فوجی تعینات ہیں۔ ظاہر ہے کہ جوابی کارروائی میں ایران خطے میں موجود ان اڈوں اور اثاثوں کو نشانہ بنائے گا۔ ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ‘ غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور لبنان اور شام کے خلاف کارروائیوں سے مختلف ہو گی۔ یہ ایک لمبی اور طویل جنگ ہو سکتی ہے جس کے بارے میں خود امریکی ماہرین کی رائے ہے کہ امریکہ کی کامیابی یقینی نہیں ہے۔ البتہ خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے علاوہ اردگرد کے خطے مثلاً جنوبی اور وسطیٰ ایشیا‘ ہارن آف افریقہ اور شمال مغربی افریقہ کے علاوہ مشرقی بحیرۂ روم بھی عدم استحکام کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان علاقوں میں عدم استحکام سے عالمی نظام بھلا کیسے غیرمستحکم ہوئے بغیر رہ سکتا ہے کیوں کہ مکینڈر اور سپائیک مین کی جیو پولیٹکل تھیوریز کے مطابق یہ علاقے ہنٹر لینڈ اور رم لینڈ کی حیثیت رکھتے ہیں ‘جہاں امن اور جنگ دونوں صورتوں میں باقی دنیا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں