"DRA" (space) message & send to 7575

آسٹریلیا اور انڈونیشیا کا نیا دفاعی معاہدہ

بحر الکاہل اور ایشیا کے خطے کے دو اہم ممالک آسٹریلیا اور انڈونیشیا نے باہمی دفاعی تعاون میں مزید اضافہ کرنے کیلئے اگلے سال یعنی 2026ء میں ایک باضابطہ معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین دفاعی تعلقات میں اضافہ کرنے کے فیصلے کا اعلان انڈونیشیا کے صدر پرابووو سوبینٹو (Prabowo Subianto) کے دورۂ آسٹریلیا کے دوران کیا گیا۔ انہوں نے سڈنی میں وزیراعظم انتھونی البانیز (Anthony Albanese) کے ہمراہ آسٹریلیا کے ایک بحری اڈے کا دورہ کیا تھا۔ یہ بنیادی طور پر دوطرفہ معاہدہ ہو گا جس کا مقصد ایشیا اور بحر الکاہل کے خطے میں سکیورٹی کو درپیش کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے باہمی مشاورت اور مشترکہ اقدام ہے جس میں دونوں ملکوں کی افواج کو ایک دوسرے کی سرزمین پر کارروائیوں میں حصہ لینے کی اجازت بھی شامل ہے۔ لیکن اس معاہدے کے اہم علاقائی اور عالمی مضمرات بھی ہیں کیونکہ یہ معاہدہ ایسے دو ملکوں کے درمیان ہونے جا رہا ہے جنہوں نے دوسری عالمی جنگ سے آج تک ایک دوسرے سے مختلف خارجہ اور سکیورٹی پالیسیوں پر عمل کیا ہے۔ آسٹریلیا کا جھکاؤ شروع سے ہی مغربی ممالک کی طرف رہا ہے۔ آزادی کے بعد آسٹریلیا برطانوی دولتِ مشترکہ کا رکن اور دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی سربراہی میں قائم ہونے والے سیٹو (ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن) کے علاوہ پہلے نیوزی لینڈ کے ساتھ امریکہ کے ساتھ انزس (ANZUS) اور 2021ء سے برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ سہ فریقی دفاعی معاہدے آکس(AUKUS) کا رکن رہا ہے۔ ان تمام معاہدوں میں آکس کو خصوصی اہمیت کا حامل معاہدہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے مقاصد میں ایشیا پیسفک (جسے امریکہ اور بھارت انڈو پیسفک پکارنے پر اصرار کرتے ہیں) کے پورے خطے میں آزاد اور کھلی جہاز رانی کے علاوہ ''سلامتی اور استحکام‘‘ کو فروغ دینا شامل ہے۔ 'ڈپلومیٹک جارگن‘ میں اس سے مراد دراصل اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا اور جنوبی بحر چین کے مسئلے پر چینی مؤقف کی مخالفت ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور آسٹریلیا آکس معاہدے کے تحت اپنے ان مقاصد کے حصول میں کس قدر سنجیدہ ہیں‘ اس کا اندازہ اس فیصلے سے لگایا جا سکتا ہے جس کے تحت آسٹریلیا کو ایٹمی آبدوزوں سے مسلح کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے۔
اس کے مقابلے میں انڈونیشیا نے شروع سے ہی غیرجانبدارانہ خارجہ پالیسی اپنائی۔ 1954ء میں جب علاقائی دفاعی معاہدہ ''سیٹو‘‘ قائم کیا گیا تو امریکی دباؤ کے باوجود صدر سکارنو (Sukarno) نے انڈونیشیا کو اس معاہدے میں شامل کرنے سے انکار کر دیا۔ 1967ء میں جب جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے درمیان تجارت اور دفاعی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کیلئے انڈونیشیا اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ علاقائی تعاون کیلئے آسیان کی تنظیم قائم کی گئی تو انڈونیشیا نے اسے ایک سکیورٹی کے بجائے معاشی تنظیم کی حیثیت سے اُبھرنے میں مدد فراہم کی۔ گزشتہ تین دہائیوں میں آسیان کے ساتھ چین کے قریبی تجارتی اور معاشی تعلقات میں نمایاں اضافہ کرنے میں انڈونیشیا کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت بھی انڈونیشیا کا جھکاؤ چین اور روس کی طرف زیادہ ہے۔ اس صورتحال میں آسٹریلیا کے ساتھ انڈونیشیا کے دفاعی تعلقات میں اضافے کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں‘ خصوصاً جبکہ دونوں ملکوں نے گزشتہ سال اپنے اردگرد واقع علاقوں میں باہمی امن و سلامتی اور تعاون کو فروغ دینے کیلئے ایک معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ نیا معاہدہ دراصل 2024ء کے معاہدے کی اَپ گریڈیشن ہے مگر اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے ایشیا پیسفک کے خطے میں حال ہی میں ہونے والی اہم تبدیلیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
امریکہ نے اس خطے پر اپنی بالادستی کو چین کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے آسٹریلیا‘ جاپان اور بھارت کے ساتھ مل کر Quad کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا تھا اور اس کا دائرہ بحر ہند تک بڑھا دیا تھا۔ اگرچہ اس اتحاد کو ایک باقاعدہ فوجی معاہدے کا نام نہیں دیا گیا مگر اس کے تحت ان چاروں ممالک کی مالابار ایکسرسائزز کے نام سے ہر سال بحری مشقوں کا کبھی بحر الکاہل اور کبھی بحر ہند کے جنوب مشرقی حصے میں انعقاد ہوتا ہے۔ کواڈ اور اس کے تحت بحری مشقوں میں بھارت کی موجودگی کو امریکہ نے بڑی اہمیت دے رکھی تھی مگر مئی 2025ء میں پاکستان کے ساتھ فضائی جھڑپ میں بھارت کی بری طرح شکست نے کواڈ میں بھارت شمولیت کی افادیت کو امریکہ کی نظر میں مشکوک بنا دیا ہے بلکہ خود کواڈ کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ کواڈ کی سالانہ سربراہی کانفرنس اس سال دہلی میں منعقد ہونا تھی مگر ابھی تک اس کی تاریخوں کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا‘ نہ ہی یہ حتمی طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ دہلی کانفرنس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ شرکت کریں گے یا نہیں۔ مگر یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو چکی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اب کواڈ میں دلچسپی کم ہو گئی ہے تاہم وہ اسے ختم ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور اس کو سہارا دینے کیلئے خطے سے بھارت کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کیلئے اگر ان کی نظر انتخاب انڈونیشیا پر پڑ چکی ہے تو یہ بالکل حیران کن بات نہیں ہو گی کیونکہ بھارت کے مقابلے میں انڈونیشیا کی کواڈ میں شمولیت نہ صرف خطے کے ممالک کیلئے زیادہ قابلِ قبول ہو گی بلکہ خود انڈونیشیا کو بھی خطے کی سلامتی کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرنے کی دیرینہ خواہش پوری کرنے کا موقع ملے گا۔ یاد رہے کہ انڈونیشیا بحر ہند پر بھارت کی یکطرفہ بالادستی کا اعلانیہ مخالف رہا ہے بلکہ اس کی طرف سے دنیا کے اس تیسرے بڑے سمندر کو بحر ہند کہنے کی بھی مخالفت کی جا چکی ہے۔ انڈونیشیا کی طرف سے مطالبہ کیا جا چکا ہے کہ بحر ہند کا نام تبدیل کرکے اسے ایفرو ایشیا سمندر کا نام دیا جائے کیونکہ مشرق میں جنوب مشرقی ایشیا اور مغرب میں براعظم افریقہ کے مشرقی ساحل کے ممالک کی سرحدیں بحر ہند کے پانی کو چھوتی ہیں۔
رواں برس مئی میں پاک بھارت فضائی جھڑپ کے نتیجے میں اور ٹیرف پر امریکہ اور بھارت کے مابین اختلافات کے باعث کواڈ میں بھارت کی موجودگی پر اعتراضات پہلے ہی منظر عام پر آنا شروع ہو گئے تھے۔ امریکی میڈیا میں چھپنے والی خبروں کے مطابق جنوبی مشرقی ایشیا خصوصاً آسیان کے رکن ممالک خطے میں کواڈ کے ذریعے بھارت کو دیے جانے والے کردار پر خوش نہیں تھے کیونکہ ان کی نظر میں اس خطے میں بھارت کی پالیسیوں کا محور اجتماعی مفاد کے بجائے بھارتی مفاد زیادہ تھا۔ اس ضمن میں وہ بھارت کی تجارتی پالیسیوں اور جنوبی ایشیا میں اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اس کے رویے کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں۔ اپنی تنگ نظر اور مفاد پرستانہ پالیسیوں کی وجہ سے بھارت خطے کے ممالک کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ امریکہ نے بھارت کو کواڈ میں اس لیے شامل کیا تھا تاکہ اسے اس خطے میں چین کا متبادل بنایا جا سکے لیکن امریکہ اس فیصلے پر جتنا جلدی نظر ثانی کر لے اتنا بہتر ہو گا۔ چین نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے بارے میں اپنی فراخدلانا اور باہمی مفاد پر مبنی پالیسیوں سے آسیان میں جگہ بنا لی ہے۔ آج چین آسیان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور اس نے آسیان کے رکن ممالک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ اس بنا پر بھارت‘ جسے امریکہ چین کے مقابلے میں لانا چاہتا ہے‘ ایشیا پیسفک کے ممالک کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں