"DRA" (space) message & send to 7575

پاک افغان مذاکرات کا مستقبل

قطر کے دارالحکومت دوحہ اور ترکیہ کے شہر استنبول میں پاکستان اور افغانستان میں مذاکرات کے تین ادوار کی ناکامی کے بعد خطے میں امن کے خواہش مند حلقوں کی جانب سے اب یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ پاک افغان تعلقات آئندہ کیا رُخ اختیار کریں گے؟ اگرچہ فریقین کی طرف سے جنگ بندی پر عمل ہو رہا ہے‘ مگر استنبول مذاکرات میں ڈیڈ لاک برقرار رہنے کے بعد وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اب دونوں ملکوں میں مذاکرات کے کسی اگلے پروگرام کا کوئی امکان نہیں۔ مذاکرات کے اس دور سے قبل خواجہ صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے۔ لیکن جہاں پاکستان اور افغانستان کے مابین اختلافات کی وسیع خلیج مستقبل قریب میں ختم ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے‘ وہیں دونوں ملکوں میں کھلی جنگ کا بھی امکان بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی اور وسطی ایشیا میں تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال نے پاکستان اور افغانستان کے مابین امن اور جنگ کے مسئلے کو اب صرف ان دو ممالک تک محدود نہیں رہنے دیا۔ اگر پاکستان اور افغانستان میں‘ بقول خواجہ آصف کھلی جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو اس کے اثرات انہی دوملکوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس سے پورے خطہ متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کا واضح اشارہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد ایران اور ترکیہ کی طرف سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصالحت کی پیشکش اور کوشش کی صورت میں مل رہا ہے۔ خبروں کے مطابق ترکیہ کے تین اہم ترین عہدیدار وزیر خارجہ حکان فیدان‘ وزیر دفاع پشار گولر اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ ابراہیم کالن جلد ہی پاکستان کا دورہ کریں گے۔ ممکن ہے جب یہ کالم زیرِ مطالعہ ہو تو ترکیہ کا یہ اعلیٰ سطحی وفد پاکستان اور افغانستان کو ایک دفعہ پھر مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو۔
دوحہ اور استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے جو تین ادوار ہوئے تھے‘ ان کے انعقاد میں قطر کے علاوہ ترکیہ کا بھی بڑا اہم کردار تھا۔ ان مذاکرات میں جب بھی ڈیڈ لاک پیدا ہوا‘ قطر کے ہمراہ ترکیہ نے بھی اسے ختم کرانے کیلئے بھرپور کوشش کی۔ استنبول مذاکرات میں ڈیڈ لاک کے بعد اگرچہ خواجہ آصف نے پاک افغان مذاکرات کی کہانی ختم ہونے کا اعلان کر دیا ہے مگر اطلاعات کے مطابق ترکیہ کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان ڈیڈ لاک پر بڑی تشویش ہے اور ترکیہ کسی صورت مصالحت کی کوششوں کو ترک کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا بلکہ دونوں ملکوں کے مابین مستقل جنگ بندی کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتا ہے۔ اعلیٰ سطحی ترک وفد کی پاکستان میں ممکنہ آمد‘ ترکیہ کے پاکستان کے ساتھ خلوص اور دو ہمسایہ مسلم ملکوں میں مصالحت کیلئے مخلصانہ کوشش کی آئینہ دار ہے۔
ایران کی طرف سے بھی پاکستان اور افغانستان کے باہمی اختلافات ختم کرانے میں تعاون کی پیشکش اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے کیونکہ پاکستان کی طرح ایران افغانستان کا بھی ہمسایہ ہے۔ افغانستان میں جنگ اور بدامنی کی وجہ سے افغان باشندوں نے پاکستان کے علاوہ ایران میں بھی پناہ حاصل کی تھی۔ پاکستان اور افغانستان میں جنگ کی صورت میں جو ممالک فوری طور پر اور سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ان میں ایران بھی شامل ہو گا‘ اس بنا پر ایران کی طرف سے پاک افغان مذاکرات میں ڈیڈ لاک اور سرحدی جھڑپوں کے دوبارہ شروع ہونے کے خدشات کا اظہار قدرتی اور قابلِ فہم ہے۔ اگرچہ اس وقت صرف روس نے طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے‘ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق روس کی جانب سے طالبان کی حکومت کو افغانستان کی جائز اور قانونی حکومت تسلیم کرنے کا اقدام نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کیلئے اہم سیاسی‘ عسکری اور معاشی مظہرات کا حامل ہے۔ تاجکستان میں وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ایک حالیہ کانفرنس کے دوران روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے افغانستان میں امن اور استحکام کو وسطی ایشیائی ممالک کی سلامتی اور خوشحالی کیلئے اہم قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ روس کی معلومات کے مطابق طالبان حکومت اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہونے سے روکنے کیلئے کوشش کر رہی ہے۔
2020ء میں دوحہ معاہدے میں افغان طالبان نے پوری دنیا کو تحریری طور پر یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے مگر اگست 2021ء میں کابل پر قبضے کے بعد سے چار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود افغان طالبان اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکے اور افغان سرزمین بدستور پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔گزشتہ روز بھی اسلام آباد جی الیون کچہری کے باہر بھارتی سپانسرڈ اور افغان طالبان کی پراکسی فتنۂ الخوارج نے خودکش دھماکا کیا‘ جس کے نتیجے میں 12افراد شہید اور 27زخمی ہوگئے۔اس سے قبل پیر کے روز فتنۂ خوارج کی جانب سے جنوبی وزیرستان میں وانا کیڈٹ کالج کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش کی گئی۔یہ امر پوری دنیا پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے کہ افغان طالبان نے نہ صرف کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو اپنے ملک میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رکھی ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان رجیم کی جانب سے انہیں عسکری اور مالی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔
دسمبر 2014میں آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد افواجِ پاکستان نے جب دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کیلئے ملٹری آپریشن کا آغاز کیا تو ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے بھاگ کر افغانستان میں پناہ حاصل کر لی اور وہاں افغان طالبان کی صفوں میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ افغان طالبان نہ صرف اس کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ ٹی ٹی پی کو اپنا سب سے قریبی ساتھی قرار دیتے ہیں۔ اس لیے دوحہ اور استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں افغان طالبان نے پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کو روکنے کیلئے ٹھوس اور مؤثر اقدامات سے صاف انکار کر دیا بلکہ یہاںتک کہہ دیا کہ وہ ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتے۔ طالبان رجیم پر واضح ہونا چاہیے کہ ان کا مؤقف نہ صرف پاکستان‘ اس کے دیگر ہمسایہ ممالک بلکہ عالمی برادری کی رائے اور فیصلوں سے متصادم ہے کیونکہ اقوام متحدہ اور دیگر کئی ممالک کی طرف سے کالعدم ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔ مگر افغان طالبان اپنے رویے میں تبدیلی لانے سے صاف انکاری ہیں‘ دوحہ اور استنبول مذاکرات بھی اسی وجہ سے بے نتیجہ رہے۔ اس کے باوجود ترکیہ اور ایران جیسے برادر مسلم ممالک پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعات کا مستقل حل ڈھونڈنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ تنازعات اسی صورت ختم ہو سکتے ہیں جب افغان طالبان اپنے سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے سے روکیں گے‘ مگر ایران اور ترکیہ کی طرف سے مصالحت کی پیشکش کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان کسی بڑی جنگ کے امکان کو روکنا ہے کیونکہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک کے بعد پاکستان نے واضح کر دیا کہ وہ سرحد پار سے کسی بھی دہشت گردی کا فوری اور بھرپور جواب دے گا۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی ہدایت پر اعلیٰ سطحی ترک وفد کی پاکستان میں آمد کا مقصد پاکستان کو افغانستان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات پر آمادہ کرنا اور سیز فائر کو مستقل قرار دینے پر راضی کرنا ہے۔ امید ہے یہ اعلیٰ سطحی وفد اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا۔ یہ بات عین قرین قیاس ہے کہ ترکیہ نے پاکستان میں وفد بھیجنے سے قبل افغان طالبان سے بھی رابطہ قائم کیا ہوگا اور ان کی طرف سے اپنے مؤقف میں لچک کا اشارہ دیا گیا ہوگا کیونکہ پاکستان سے کشیدگی اور جنگ کی صورتحال سے افغانستان میں بے چینی پھیلنے کا خدشہ ہے جو افغان طالبان کی حکومت کیلئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں