ذوالفقار علی بھٹو نے ایک دفعہ کہا تھا کہ نیپال کے لیے جو اہمیت بھارت کی ہے‘ افغانستان کیلئے وہی اہمیت پاکستان کی ہے۔ نیپال ہمالیائی سلسلوں سے گھرا ہوا ایک چھوٹا اور پسماندہ ملک ہے جس کی سرحدیں اگرچہ شمال مغرب میں چین اور مشرق میں بھوٹان سے ملتی ہیں مگر تجارت اور آمد و رفت کیلئے اسے اپنے جنوبی ہمسائے بھارت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ہر طرف سے خشکی سے گھرے ہوئے افغانستان کی سرحدیں اگرچہ چین‘ وسطیٰ ایشیائی ریاستوں اور ایران سے بھی ملتی ہیں مگر پاکستانی سرحد افغانستان کیلئے جنوبی ایشیا خصوصاً بھارت اور دیگر ممالک کی منڈیوں تک رسائی کیلئے سب سے چھوٹا اور آسان راستہ ہے۔ اسی طرح ہمالیہ کی دوسری طرف سے کسی خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے جس طرح بھارت نیپال میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا‘ پاکستان بھی افغانستان میں قائم ہونے والی حکومتوں کی پالیسیوں اور رویے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ افغانستان تجارت کیلئے مکمل طور پر پاکستان پر انحصار کرتا ہے۔ اس لیے جنگ تو بڑی دور کی بات‘ افغانستان لمبے عرصہ تک پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔ دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین موجود لمبی بین الاقوامی سرحد کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کے درمیان گہرے مذہبی‘ ثقافتی اور نسلی تعلقات قائم ہیں‘ اور وہ صدیوں سے سرحد کے آر پار آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس لمبی تمہید کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے مابین حالیہ کشیدگی اور پھر افغانستان کی درخواست پر ہونے والی جنگ بندی کے فیصلے کو صحیح تاریخی اور جیو پولیٹکل تناظر میں پیش کرکے دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات میں ممکنات اور خدشات کی نشاندہی کرنا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین حالیہ کشیدگی کا اصل آغاز اگست 2021ء میں کابل پر افغان طالبان کے قبضے اور ان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد ہی ہو گیا تھا۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات افغان طالبان کے پہلے دور (1996-2001ء) ہی میں کشیدہ ہو چکے تھے اور اگر نائن الیون کے واقعے کے بعد افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت ختم نہ ہوتی تو شاید آج سے 25سال پہلے ہی پاکستان اور افغانستان میں حالات کشیدہ ہو چکے ہوتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ملا عمر کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت نے نہ صرف پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث تنظیموں کے ارکان کو افغانستان میں پناہ دے رکھی تھی بلکہ ڈیورنڈ لائن کو دونوں ملکوں کے مابین بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا اور پاک افغان سرحد کو اپنی مرضی کی جگہ اور تصادم سے‘ بغیر کسی سفری دستاویزات عبور کرنے پر اصرار کیا تھا۔ ٹرانزٹ ٹریڈ سہولت کے تحت ممنوعہ اشیا کی درآمد اور پھر انہیں پاکستان میں سمگل کرنے کا مسئلہ الگ تھا۔ پرویز مشرف کے دور میں اس وقت کے وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر کی سرکردگی میں پاکستان اور افغان طالبان کی حکومت کے درمیان ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک خصوصی وفد کابل بھیجا گیا تھا مگر اس ضمن میں کوئی تسلی بخش پیشرفت نہیں ہو سکی تھی۔ مزید برآں افغانستان کی ہر حکومت خواہ وہ طالبان کی ہو یا غیر طالبان کی‘ پاکستان سے واہگہ کے راستے بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت کی آزادی کا مطالبہ کرتی آئی ہے۔ 2010ء میں پاکستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ کے پرانے معاہدے پر نظرثانی کرتے ہوئے ایک نئے معاہدے کے تحت افغانستان کو اپنے ٹرکوں میں مال لاد کر واہگہ اٹاری تک جانے کی اجازت دے دی مگر افغان تاجر اس سے مطمئن نہیں ہوئے‘ وہ واپسی پر اپنے ٹرکوں میں بھارتی سامان واہگہ کے راستے افغانستان لانے کی اجازت چاہتے ہیں لیکن موجودہ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں پاکستان افغانستان کو واہگہ کے راستے بھارت سے دوطرفہ تجارت کی سہولت دینے کو تیار نہیں۔
افغانستان پر سوویت یونین کے قبضہ (1979-1988ء) کے دوران افغان مزاحمت کاروں کی مدد اور افغان مہاجرین کی آمد میں سہولت کاری کی غرض سے پاکستان کی مختلف حکومتوں نے ڈیورنڈ لائن کے آر پار آمد و رفت کی اجازت دے رکھی تھی۔ طالبان کی موجودہ حکومت اس سہولت کو برقرار رکھنا چاہتی ہے مگر پاکستان نے اپنی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سلامتی کے تحفظ کیلئے افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد پر خار دار تار لگائی تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان افراد‘ جن میں دہشت گرد بھی شامل ہوتے ہیں‘ کی غیرقانونی آمد و رفت کو روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی طرف سے افغانستان سے آنے والے افراد کیلئے ویزے اور پاسپورٹ کی پابندیوں سے بھی دونوں ملکوں میں کشیدگی پیدا ہوئی۔
کالعدم ٹی ٹی پی افغان طالبان کے ساتھ مل کر افغان حکومت اور نیٹو افواج کے خلاف لڑائی میں شامل رہی ہے‘ اور اس کا انکشاف 2021ء میں کابل پر قبضے کے بعد افغان طالبان کی عبوری حکومت نے خود کیا تھا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ عالمی ادارے نہ صرف افغانستان میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں اور ان کے ٹھکانوں کی موجودگی کا انکشاف کر چکے ہیں بلکہ افغان طالبان کی عبوری حکومت کی طرف سے ان کی سہولت کاری کا بھی ثبوت مہیا کر چکے ہیں‘ ان شواہد کے باوجود افغان طالبان اسے پاکستان کا داخلی مسئلہ قرار دیتے ہیں اور اپنی لاتعلقی پر اصرار کرتے ہیں۔ رہی سہی کسر اب افغان طالبان نے بھارتی شہ پر پاکستان پر حملہ کرکے پوری کر دی ہے۔ افغان طالبان کے اس رویے نے پاکستان کیلئے طاقت کے استعمال کے سوا کوئی اور آپشن نہیں چھوڑا۔مگر اس مسئلے کا پائیدار حل بات چیت ہی سے ممکن ہے۔ اس کی وجہ افغانوں کی جارحانہ رویے کی تاریخ ہے۔
ملا عمر نے اپنی حکومت ختم کرا لی اور ملک تباہ کروا لیا مگر اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے حوالے نہیں کیا۔ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی فوجی کارروائیوں سے افغان طالبان اپنے ملک میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کیلئے افغان شہریوں کے قوم پرستانہ جذبات کو ابھاریں گے‘ کیونکہ افغان طالبان کو اپنی پالیسیوں کی سخت مخالفت کے باوجود ملک پر مکمل کنٹرول حاصل ہے‘ اور افغانستان کے اندر یا باہر کوئی تحریک‘ گروپ یا شخصیت ایسی نہیں جو افغان طالبان کی جابرانہ حکومت کے خلاف افغان عوام کو متحرک کر سکے۔ اس کے علاوہ اس وقت بھارت بھی افغانستان کی پشت پر کھڑا ہے جو افغان طالبان کو پاکستان میں پراکسی وار کیلئے استعمال کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں اپنا سفارت خانہ بھی بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔
حالیہ پاک افغان کشیدگی کے بعد چین‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ جنگ کے خلاف روس اور چین نے جس قسم کے ردِعمل کا اظہار کیا ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں ممالک پاکستان اور افغانستان میں اپنے بڑھتے ہوئے تجارتی‘ معاشی اور جیو پولیٹکل مفادات کی روشنی میں جنگ نہیں چاہتے۔ چین نے پاکستان اور افغانستا ن میں جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لین جیان کا کہنا تھا کہ چین پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعمیری مکالمے کے ذریعے مسائل کے حل کی کوششوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔یہ اقدام فریقین کے مشترکہ مفاد میں ہے اور علاقائی امن و استحکام کے لیے معاون ثابت ہوگا۔یہی رویہ قطر‘ سعودی عرب اور عرب امارات کا ہے جنہوں نے دونوں ملکوں پر طاقت کے استعمال سے گریز کرنے اور اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔ اس لیے توقع یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان باہمی مسائل کے حل کیلئے سیز فائر کو جاری رکھنے اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی طرف رجوع کریں گے جو پاکستان کی بھی ترجیحی پالیسی ہے۔