امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے بعد غزہ میں گزشتہ دو سال سے جاری جنگ کے خاتمے کیلئے ایک امن منصوبے کا اعلان کیا ہے‘ بقول صدر ٹرمپ‘ اہم مسلم اور عرب ممالک جن میں پاکستان‘ ترکیہ‘ انڈونیشیا‘ مصر‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور اردن شامل ہیں‘ نے اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔ دیگر ممالک جن میں حال ہی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ممالک فرانس اور برطانیہ بھی شامل ہیں‘ نے بھی منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے اور سب حماس پر زور دے رہے ہیں کہ وہ بھی اس منصوبے کو قبول کرے۔ لیکن اس منصوبے میں چند ایسی شرائط شامل ہیں جنہیں ان کی موجودہ حالت میں قبول کرنا ممکن نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ حماس نے اپنے ابتدائی ردِعمل میں منصوبے کی چند مندرجات کی وضاحت طلب کرتے ہوئے ان پر از سر نو بحث اور ان کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان میں غزہ سے اسرائیلی افواج کی واپسی اور حماس سے ہتھیار پھینکنے اور غزہ میں کسی قسم کے سیاسی‘ فوجی اور انتظامی کردار سے دستبرداری بھی شامل ہے۔ کیا امریکی صدر کا یہ امن منصوبہ واقعی فلسطین میں امن لانے میں کامیاب ہوگا یا 1947ء ( کے اقوام متحدہ کے پلان) سے اب تک کے متعدد منصوبوں اور تجاویز کی طرح یہ بھی ناکام ہوجائے گا؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے غزہ جنگ سے پیدا ہونے والی صورتحال اور صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے۔
سات اکتوبر 2023ء کو حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف کی گئی کارروائی کے جواب میں اسرائیلی افواج کے حملوں سے غزہ میں اب تک 68 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں شہید یا زخمی ہونے والے مردوں‘ خواتین اور بچوں کی تعداد غزہ کی کل فلسطینی آبادی کا 11 فیصد بنتی ہے۔ غزہ میں 80فیصد سے زیادہ رہائشی مکانات یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا اسرائیلی بمباری سے رہائش کے قابل نہیں رہے‘ جس وجہ سے فلسطینیوں کی اکثریت کھلے آسمان تلے خیموں میں رہنے پر مجبور ہے۔ لیکن اسرائیل ان خیموں میں رہائش پذیر فلسطینیوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ سب سے زیادہ دردناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے اور فلسطینیوں کیلئے پانی‘ خوراک اور دوائوں کی بہم رسائی پر مکمل پابندی لگا رکھی ہے۔ یعنی اس وقت فلسطینی شہری صرف اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں‘ ٹینکوں کے گولوں یا جنگی جہازوں کے بموں کا ہی نشانہ نہیں بن رہے بلکہ بھوک اور بیماری سے بھی موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کی یہ کارروائی جسے عالمی عدالتِ انصاف ''نسل کُشی‘‘ قرار دے چکی ہے‘ بدستور جاری ہے۔ اس لیے غزہ میں فوری جنگ بندی انتہائی ضروری ہے تاکہ فلسطینیوں کا قتلِ عام بند ہو اور خوراک سمیت دیگر ضروریاتِ زندگی ان تک پہنچ سکیں۔ صدر ٹرمپ اور اس منصوبے کی حمایت کرنے والے ممالک کی رائے میں اس منصوبے پر عملدرآمد سے یہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔ لیکن منصوبے میں فوری جنگ بندی‘ فلسطینیوں کو راشن کی فراہمی اور سب سے بڑھ کر غزہ کی سکیورٹی‘ امن و امان اور غزہ کے معاملات چلانے میں خود غزہ کے باشندوں کے کردار کے بارے میں مبہم اور غیر واضح زبان استعمال کی گئی ہے۔ مثلاً معاہدے کی شق نمبر چار کے مطابق اسرائیل کی طرف سے معاہدے کو باقاعدہ قبول کرنے کے بعد حماس کو تمام اسرائیلی یرغمالی (زندہ ومردہ) 72 گھنٹے کے اندر واپس کرنا پڑیں گے‘ جب حماس کی طرف سے تمام مغوی رہا کر دیے جائیں گے تو اسرائیل اپنی جیلوں میں عمر قید کی سزا بھگتنے والے 250 اور سات اکتوبر کے بعد غزہ سے گرفتار کیے جانے والے 1700 قیدیوں کو رہا کرے گا۔ شق نمبر 16 کے مطابق اگرچہ اسرائیل کو غزہ پر قبضہ کرنے اور اسرائیل میں ضم کرنے کی ممانعت کی گئی ہے مگر غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلا کب اور کتنی دیر میں ہو گا‘ اور کیا یہ مکمل انخلا ہوگا یا اسرائیل کو سکیورٹی کے نام پر غزہ کے کچھ علاقوں میں اپنی فوجیں رکھنے کا اختیار ہو گا‘ اس بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا گیا۔ البتہ نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد جو بیانات جاری کیے ہیں ان کے مطابق اسرائیل کچھ ''سکیورٹی زونز‘‘ میں اپنی افواج رکھنے کے حق سے دستبردار نہیں ہوگا۔ سب سے عجیب و غریب شقیں غزہ میں حکومتی معاملات (شق نمبر9) اور سکیورٹی امور (شق نمبر15) کے حوالے سے ہیں۔ ان کے مطابق گورننس معاملات چلانے کیلئے ایک عبوری کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس کا کام روازنہ کی بنیاد پر پبلک سروس اور عوام کے مقامی (میونسپل) مسائل حل کرنا ہوگا اور اس میں کوالیفائیڈ فلسطینی اور بین الاقوامی ماہرین کو شامل کیا جائے گا۔ اس کمیٹی سے بالا ایک اور بین الاقومی عبوری ادارہ ''بورڈ آف پیس‘‘ قائم کیا جائے گا جس کے سربراہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے اور ان کی مدد کیلئے برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر موجود ہوں گے۔ دیگر الفاظ میں آج سے تقریباً ایک صدی قبل کا لیگ آف نیشنز کا مینڈیٹ سسٹم نافذ کیا جا رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ ایک عالمی ادارے (لیگ آف نیشنز) کے تحت نافذ کیا گیا تھا جبکہ ٹرمپ امن منصوبے کے مطابق غزہ کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ یا غزہ کے عوام کے بجائے امریکہ اور اس کے نامزد کردہ بین الاقوامی ماہرین کریں گے۔ اسی طرح غزہ میں امن و امان اور تحفظ فراہم کرنے کیلئے امریکہ عرب اور انٹرنیشنل پارٹنر ممالک کے ساتھ مل کر ایک عالمی استحکام فورس (ISF)فورس قائم کرے گا۔ اس فورس کا کام غزہ میں فرائض انجام دینے کیلئے ایک فلسطینی فورس کو تربیت اور امداد فراہم کرنا ہو گا اور اس کیلئے مصر اور اردن سے مشورہ کیا جائے گا۔ اس فورس کا کام غزہ کی سرحدوں کی نگرانی بھی ہوگا تاکہ باہر سے غزہ میں اسلحہ اور گولا بارود نہ آ سکے۔
اگرچہ اس منصوبے میں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے پر قبضہ کرے گا اور نہ اسے اسرائیل میں ضم کرے گا‘ تاہم غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا کی کوئی ٹائم لائن نہیں دی گئی۔ اس کیلئے شق نمبر 16میں جو میکانزم تجویز کیا گیا ہے اس کے مطابق غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلا نہ صرف مرحلہ وار ہوگا بلکہ اسرائیل اور عبوری اتھارٹی کے درمیان ایک معاہدے کی بنیاد پر ہو گا‘اور معاہدے کے بعد بھی اسرائیل کو غزہ میں سکیورٹی کے نام پر اپنی افواج رکھنے کا حق حاصل ہو گا۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بند کرنے اور امن قائم کرنے کیلئے ان کا یہ منصوبہ آخری موقع ہے۔ اس لیے غزہ کی جنگ سے متاثر تمام فریقوں کی پوری کوشش ہے کہ اس موقع کو زائل نہ ہونے دیا جائے۔ تاہم اس میں ترامیم اور چند شقوں کی وضاحت ضروری ہے تاکہ ان پر عملدرآمد کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن نے الجزیرہ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں یہی تجویز پیش کی ہے۔ اس لیے زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اس پر امریکہ اسرائیل اور آٹھ عرب و مسلم ممالک کے درمیان صلاح مشورہ پر اتفاق ہو جائے تاکہ اسے قابلِ عمل بنایا جا سکے۔ امید ہے کہ اس صلاح مشورے کا مثبت نتیجہ نکلے گا اور عرب اور مسلم ممالک کے بلاک کی طرف سے پیش کردہ ڈرافٹ کی روشنی میں اس کی قابلِ قبول اور قابلِ عمل صورت نکل آئے گی۔ اس کے باوجود اس منصوبے کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ غزہ میں جنگ بندی اور مشرق وسطیٰ میں اس جنگ کا دائرہ مزید وسیع ہونے کا خطرہ تو کچھ عرصہ کیلئے ٹل سکتا ہے مگر مستقل امن کی توقع نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس میں نہ تو ایک آزاد اور علیحدہ فلسطینی ریاست کی بات کی گئی ہے اور نہ مقبوضہ عرب علاقوں یعنی دریائے اردن کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس کے اردگرد نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کو روکنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔