"DRA" (space) message & send to 7575

لوکل گورنمنٹ انتخابات سے گریز کیوں؟

ملک عزیز کے کسی سیاستدان کو لے لیجئے‘ وہ ملک میں جمہوریت کے فروغ‘ خود اختیاری‘ معاشی ترقی اور امن و امان کے قیام کیلئے لوکل گورنمنٹ کے اداروں کی ضرورت کے نہ صرف قائل ہوں گے بلکہ اس کے پُر جوش حامی ہوں گے۔ مگر 1960ء سے اب تک ملک عزیز میں برسراقتدار آنے والی ہر حکومت نے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو یا تو لمبے عرصے کیلئے معطل کیے رکھا یا پھر اس کی جگہ نئے سسٹم کو رائج کرنے کا فیصلہ کیا۔ مرکز اور صوبوں میں حکومتیں اور اسمبلیاں تو قائم ہو جاتی ہیں مگر مقامی حکومتوں کے ادارے لمبے عرصے تک وجود میں نہیں آتے اور ملک کے عوام ان اداروں سے محروم رہتے ہیں‘ جنہیں جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے اور جن کے بارے میں اس نظام کے خالق‘ گورنر جنرل آف انڈیا (1882ء) لارڈ Ripon نے کہا تھا کہ یہ ادارے جمہوریت کے سکولوں کی حیثیت سے ہندوستان میں کام کریں گے ۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب گزشتہ کئی برسوں سے اسی قسم کی صورتحال کا شکار چلا آ رہا ہے۔ پنجاب میں گزشتہ لوکل گورنمنٹ انتخابات 2015ء میں ہوئے تھے اور ان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ ان انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں نے چونکہ اپنے عہدوں کا حلف 2016ء میں اٹھایا تھا‘ اس لیے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے تحت ان کی مدت 2021 ء میں ختم ہونا تھی‘ جس کے بعد 120دن کے اندر نئے انتخابات ہونا لازمی تھے مگر اس دوران 2018 ء میں پاکستان تحریک انصاف کی مرکز ‘خیبر پختونخوا اور پنجاب میں حکومت قائم ہوگئی۔ اس نئی حکومت نے آتے ہی لوکل گورنمنٹ اداروں کو تحلیل کر کے یونین کونسل سے لے کر ضلع کونسل تک اختیارات نوکر شاہی کے ہاتھ میں دے دیے۔ 2015 ء میں منتخب ہونے والے نمائندوں کو ان اداروں کی بحالی کیلئے سپریم کورٹ تک جانا پڑا جس نے ان اداروں کی بحالی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ان کو مدت پوری ہونے یعنی 2021ء تک کام کرنے کی اجازت دی۔
لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت مقامی حکومتوں کے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد 120 دن کے اندر نئے انتخابات کا انعقاد لازمی ہے مگر چاربرس گزر جانے کے بعد بھی پنجاب میں لوکل گورنمنٹ انتخابات کے انعقاد کی کسی حتمی تاریخ کے آثار نظر نہیں آتے ۔ بلدیاتی انتخابات کے انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان پر ہے‘ اس لیے حکومتِ پنجاب کے ساتھ گزشتہ برسوں کے دوران خط و کتابت کے بعدآٹھ اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے دسمبر کے آخری ہفتے میں پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم جاری کیا اور اس پر عمل درآمد کیلئے نواکتوبر سے حلقہ بندیوں کا عمل شروع کر دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے صوبائی حکومت کو یہ ہدایت بھی دی گئی کہ حلقہ بندیوں کا عمل دو ماہ میں مکمل کر لیا جائے تاکہ انتخابات الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ مدت میں منعقد ہو سکیں‘ تاہم آٹھ اکتوبر کی سماعت کے دوران ہی حکومتِ پنجاب کی جانب سے ایک دفعہ پھر صوبے میں انتخابات مؤخر کرنے کی درخواست کی گئی اور اس کیلئے صوبے میں سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال اور نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی منظوری میں تاخیر کا عذر پیش کیا گیا مگر الیکشن کمیشن نے درخواست کو مسترد کرتے ہوئے حکومتِ پنجاب کو صوبے میں لوکل گورنمنٹ کے انعقاد کی ہدایت جاری کی۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں بار بار ترمیم کر کے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت ایک دفعہ پھر لوکل گورنمنٹ انتخابات کو کمیشن کی مقرر کردہ ڈیڈ لائن سے آگے لے جانے میں کامیاب رہی ہے کیونکہ پنجاب اسمبلی نے نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025منظور کر لیا ہے اور اس پر گورنر پنجاب نے دستخط بھی کر دیے ہیں۔ اس سے الیکشن کمیشن کو اپنا آٹھ اکتوبر کا حکم واپس لینا پڑا کیونکہ نئے لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) ایکٹ 2025ء کی منظوری کے بعد سابقہ ایکٹ‘ جس کی بنیاد پر کمیشن نے آٹھ اکتوبر کا حکم نامہ جاری کیا تھا‘ کالعدم ہو چکا ہے۔ اپنے نئے خط میں الیکشن کمیشن نے نئے ایکٹ (2025ء) کے تحت صوبائی حکومت کو حلقہ بندی اور ڈیمارکیشن رولز مکمل کرنے کیلئے چار ہفتے کا وقت دیا ہے۔ رولز کی تکمیل کے بعد حلقہ بندیوں کا نیا شیڈول جاری کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں چیف وسیکرٹری لوکل گورنمنٹ کو 30 اکتوبر کو الیکشن کمیشن میں طلب بھی کیا گیا ہے تاکہ تمام انتظامی اور قانونی امور کو حتمی شکل دی جا سکے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق آئین کے مطابق غیر واضح قوانین یا منسوخ شدہ ایکٹ کے تحت انتخابات ممکن نہیں۔ لوکل گورنمنٹ انتخابات ملتوی نہ سہی مزید تاخیر کا شکار ضرور ہو چکے ہیں کیونکہ حلقہ بندیوں کی تکمیل دو ماہ میں ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں انتخابات اگلے سال فروری سے پہلے ہوتے نظر نہیں آتے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نئے بلدیاتی ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کرنے کا بھی اعلان کر چکی ہے۔
یہاں یہ اہم سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کو سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل کیوں نہیں؟ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں عدم تحفظ‘ غیر یقینی صورتحال ا ور مخالف سیاسی پارٹیوں کے خوف کی وجہ سے اختیارات کی تقسیم یا نچلی سطح پر منتقلی کے حق میں نہیں۔ اس میں صوبائی حکومتوں کو خاص طور پر موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے کیونکہ آئین کی رُو سے لوکل گورنمنٹ اداروں کے قیام اور ان انتخابات کا انعقاد صوبائی حکومتوں کے اختیار میں ہے لیکن چونکہ اس کیلئے صوبوں کو پابند کرنے کیلئے آئین میں کوئی دفعہ نہیں اس لیے بلا استثنیٰ تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں برسراقتدار آنے کے بعد‘ لوکل گورنمنٹ سسٹم کو مضبوط اور فعال بنانے میں عدم دلچسپی لیتی ہیں حالانکہ تقریباً ہر پارٹی نے الیکشن منشور میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کا عوام سے وعدہ کر رکھاہے مگر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے باوجود کسی صوبے نے ضلعی سطح پر فنڈز کی تقسیم کیلئے صوبائی فنانس ایوارڈ کا سلسلہ شروع نہیں کیا۔ پرویز مشرف کے دور میں 2001ء کے لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تحت ضلع کی سطح پر لوکل گورنمنٹ ادارے ضلع کونسل کو مرکز اور صوبوں کی طرح تیسری حکومتی اکائی تسلیم کیاگیا تھا مگر صوبائی حکومتوں کے دباؤ پر اسے ختم کر دیا گیا۔ 2019ء میں سپریم کورٹ نے اگرچہ آئین کی دفعہ سات کی تشریح کرتے ہوئے لوکل گورنمنٹ کو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے بعد تھرڈ ٹیئر (Tier) آف گورنمنٹ قرار دیا تھا مگر اسے آئینی شکل دینے کیلئے جس قانون سازی کی ضرورت ہے‘ سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں اس کیلئے تیار نہیں۔ اس لیے پاکستان میں ایک کمزور اور غیر فعال لوکل گورنمنٹ سسٹم کی تمام تر ذمہ داری صوبوں پر ڈال دی جاتی ہے لیکن پاکستان میں 1958ء کے بعد جس سیاسی تناظر میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کو قائم کیا گیا اس میں اس نظام کی کمزوری کی تمام تر ذمہ داری سیاستدانوں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ''دی فائونڈیشنزآف لوکل سیلف گورنمنٹ اِن انڈیا‘ پاکستان اینڈ برما‘‘ کے مصنف Hugh Tinker کے مطابق انگریزوں نے ہندوستان میں قومی سطح پر سیاسی قیادت کو ابھرنے سے روکنے کیلئے اور اپنے اور ہندوستانی رعایا کے درمیان ایک فاصلہ قائم کرنے کیلئے لوکل گورنمنٹ سسٹم قائم کیا تھا۔ ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کے نظام کو جس طرح اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اس نے اس سسٹم کے بار ے میں ایسی بدگمانیاں پیدا کیں جو ابھی تک دور نہیں ہو سکیں۔ پرویز مشرف کے نظام کو بیشتر سیاسی پارٹیوں نے صوبائی خود مختاری کیلئے خطرہ قرار دیا مگر یہ سب بدگمانیاں‘ شکوک و شبہات دور ہو جاتے اگر پاکستان میں سیاسی جمہوری نظام کو بلاتعطل جاری رہنے کا موقع فراہم کیا جاتا۔ غیر سیاسی مداخلت اور لوکل گورنمنٹ کے نظام میں بار بار تبدیلیوں نے نہ صرف اس نظام کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دیا بلکہ انگریزوں کے زمانے سے جاری‘ مخصوص سیاسی مقاصد کیلئے اسے استعمال کرنے کی پالیسیوں نے اسے علاقائی سطح پر بھی مشکوک بنا دیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں