اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں مستقل فائر بندی اور پائیدار امن کے قیام کیلئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20نکاتی امن سمجھوتے پر مبنی ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے تحت ٹرمپ امن منصوبے میں تجویز کردہ اہم اقدامات پر عملدرآمد کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ یہ قرارداد امریکہ کی طرف سے پیش کی گئی تھی اور کونسل کے تمام 10غیرمستقل اراکین کے علاوہ پانچ میں سے تین مستقل اراکین (امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس) نے اس کے حق میں اپنا ووٹ دیا ہے۔ کونسل کے باقی دو مستقل اراکین‘ روس اور چین کو اس قرار داد پر تحفظات تھے۔ قبل ازیں اقوام متحدہ کے حلقوں میں یہ افواہ گرم تھی کہ روس سلامتی کونسل میں ایک متبادل قرارداد لانے کیلئے پَر تول رہا ہے مگر اس نے ووٹنگ میں چین کے ہمراہ عدم شرکت پر اکتفا کیا۔ روس اور چین کے علاوہ حماس اور فلسطینی حلقوں کی طرف سے بھی اس قرارداد پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں مگر چونکہ اس قرارداد کو امریکہ اور یورپی ممالک کے علاوہ کچھ عرب اور مسلم ممالک کی بھی حمایت حاصل تھی‘ اس لیے روس اور چین نے قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔ مغربی اور مسلم دنیا میں اس قرارداد کا خیر مقدم کیا جا رہا اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اگرچہ اس قرارداد میں بہت سے پہلوؤں پر ابہام ہے اور مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے درکار بنیادی اقدامات سے گریز کیا گیا ہے‘ مگر موجودہ حالات میں اس کے علاوہ کوئی آپشن بھی نظر نہیں آتا۔
گزشتہ دو برس کے دوران غزہ کو اسرائیل نے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ 69 ہزار سے زائد افراد‘ جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے‘ کو موت کی نیند سلانے کے علاوہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں 80 فیصد عمارتوں کو تباہ کرکے غزہ کی تقریباً تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے اور اس تباہی میں اسے امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ تاہم دنیا بھر بلکہ خود امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں اسرائیل کی بربریت کے خلاف لاکھوں افراد کے مظاہروں نے بالآخر امریکہ کو غزہ میں جنگ بندی کیلئے ستمبر میں 20 نکاتی منصوبہ پیش کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس منصوبے کی سفارشات میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کو ترجیح دی گئی اور فلسطینیوں کے مفادات کو نظر انداز کیا گیا‘ تاہم غزہ کو مزید تباہی سے بچانے کیلئے حماس نے بھی اس منصوبے کی حمایت پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ صدر ٹرمپ کے منصوبے پر اسرائیلی مؤقف کی حمایت کرنے کے علاوہ یہ بھی اعتراض تھا کہ اس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں۔ اس لیے بہت سے ملکوں نے رائے دی کہ اس خامی کو دور کرنے کیلئے منصوبے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظور کروایا جائے۔ آٹھ عرب اور مسلم ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے‘ نے اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
سلامتی کونسل کی قرارداد میں صدر ٹرمپ کے منصوبے کو بغیر کسی اہم تبدیلی کے ہو بہو حالت میں منظور کیا گیا ہے۔ اس لیے جو تحفظات اور خدشات صدر ٹرمپ کے منصوبے پر ظاہر کیے جا رہے تھے‘ وہی اقوام متحدہ کی قرارداد بارے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ سلامتی کونسل میں قرارداد پر بحث کے دوران روس کے نمائندے نے اس پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد میں غزہ پر لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ سسٹم کی طرح ایک ایسی انتظامیہ کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں فلسطینیوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ اسی طرح چین کے نمائندے نے بھی قرارداد میں غزہ کے شہریوں کے حقوق اور مفادات کو نظر انداز کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ چینی مندوب نے قرارداد میں غزہ کے انتظام و انصرام کیلئے جس کونسل آف پیس اور دیگر اقدامات کی تفصیل بیان کی اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سوائے فلسطینی عوام کے باقی سب کچھ ہے۔ قرارداد میں بین الاقوامی استحکام فورس کی تشکیل اور اس کے مینڈیٹ پر حماس نے اپنا ردِعمل دیتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کی ہے۔ اس کے علاوہ غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا کو جس طرح اسرائیل کی مرضی اور صوابدید پر چھوڑا گیا ہے‘ حماس نے اس کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اسرائیل کو وہ مقاصد حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے جو وہ دو سال کی بربریت اور سفاکی کے ذریعے حاصل نہیں کر سکا۔
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سلامتی کونسل قرارداد ٹرمپ منصوبے کی بعض شقوں میں موجود ابہام کو واضح نہیں کر سکی۔ مثلاً ابھی تک یہ واضح نہیں کہ بین الاقوامی استحکام فورس کا مینڈیٹ کیا ہو گا‘ کیا اس کا کام امن کا قیام ہوگا یا امن کو مسلط کرنا ہوگا۔ جہاں تک قیام امن کا تعلق ہے تو کیا اس فورس کو اسرائیل کے خلاف طاقت استعمال کرنے کا اختیار ہو گا؟ قرارداد کے مطابق بین الاقوامی استحکام فورس چار فرائض سرانجام دے گی۔ سرحدی علاقوں میں تشدد کی روک تھام اور امن و امان کا قیام‘ غزہ سے جنگجوؤں کا خاتمہ‘ جس میں حماس کو مکمل طور پر غیرمسلح کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ فلسطینیوں پر مشتمل پولیس کی تنظیم اور تربیت اور غزہ کے باشندوں تک انسانی امداد‘ خوراک‘ پانی اور ادویات کی رسائی بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں بین الاقوامی استحکام فورس کو وسیع اختیارات اور ان اختیارات کو استعمال کرنے میں ہر قسم کے ذرائع استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یوں غزہ کے اپنے شہریوں کے بجائے ایک غیر ملکی فورس کو غزہ پر اپنی حکمرانی کا حق دے دیا گیا ہے اور ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کو اور بھی مشکوک بنا دیا گیا ہے۔ اس طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 17 نومبر کی قرارداد کے ذریعے فلسطین پر اپنی ماضی کی متعدد قراردادوں کی نفی کر دی ہے کیونکہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ فلسطین میں فلسطینیوں کی ایک علیحدہ‘ آزاد اور بااختیار ریاست جس میں دریائے اردن کا مغربی کنارہ‘ غزہ اور بیت المقدس کا مشرقی حصہ شامل ہے‘ کا وعدہ اقوام متحدہ فلسطینیوں سے کئی بار کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنے گزشتہ وعدوں کو دہرانے کے بجائے موجودہ قرارداد میں فلسطینی ریاست کے قیام کو غیریقینی بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی قرارداد کی منظوری پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ اسرائیل کی طرح امریکہ بھی ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کا مخالف ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے تو کھل کر اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کسی صورت ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دے گا۔ اپنے اس منصوبے پر عملدرآمد کرنے کیلئے اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے‘ اور اس کے علاوہ اسرائیلی پارلیمنٹ سے مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے حق میں قرارداد بھی منظور کروا لی ہے۔ ٹرمپ منصوبے کی بنیاد پر سلامتی کونسل کی حالیہ قرارداد کے خلاف اسرائیل کے دائیں بازو کے عناصر کی طرف سے احتجاج پر نیتن یاہو نے اپنے ان حکومتی اتحادیوں کو یقین دلایا ہے کہ فلسطین میں فلسطینیوں کی ایک علیحدہ ریاست کبھی نہیں بنے گی۔
مسئلہ فلسطین کے بنیادی اور انتہائی اہم پہلوؤں کو نظر انداز کر کے یا غیر ضروری ابہام پیدا کر کے اقوام متحدہ کی قرارداد نے ٹرمپ منصوبے کی ناکامی کو یقینی بنا دیا ہے کیونکہ اسرائیل کا واحد مقصد حماس کو غیرمسلح کر کے مقبوضہ عرب علاقوں خصوصاً دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی مزاحمت کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنا ہے تاکہ وہ گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکے۔ مگر اسرائیل اس میں کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ حماس نے غزہ کے انتظام و انصرام سے علیحدگی پر اپنی رضا مندی کا اعلان کر دیا ہے مگر وہ اسرائیلی قابض فوجوں کے خلاف قومی مزاحمت سے دستبردار نہیں ہو گی۔ اس طرح اگر سلامتی کونسل کی قرارداد کا مقصد ٹرمپ منصوبے میں دیے گئے فریم ورک کے مطابق غزہ میں ایک غیرملکی اتھارٹی کو مسلط کرنا ہے تو اس منصوبے کی کامیابی کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔