"DRA" (space) message & send to 7575

بلوچستان،بی این پی دھرنے کے بعد

کوئٹہ سے کچھ فاصلے پر لک پاس کے مقام پر 20دن تک دھرنا دینے کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی ایم)کے سربراہ سردار اختر مینگل نے 16اپریل کو اپنا احتجاجی کیمپ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ دھرنا 28مارچ کو وڈھ کے مقام سے ایک لانگ مارچ کے بعد شروع کیا گیا تھا اور اس کے مطالبات میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ اور ان کی ساتھی خواتین کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ سردار اختر مینگل کوئٹہ کے ریڈ زون میں دھرنا دینا چاہتے تھے مگر حکومت نے تمام راستے اور سڑکیں بلاک کر کے انہیں کوئٹہ سے کئی کلو میٹر دور لک پاس پر رکنے پر مجبور کر دیا۔ اس دوران بلوچستان حکومت کے نمائندوں کے ساتھ اُن کی بات چیت کے چند ادوار ہوئے اور کچھ سیاسی رہنماؤں نے بھی مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی مگر حکومت ماہ رنگ بلوچ اور ان کی ساتھی خواتین کو رہا کرنے پر راضی نہیں ہوئی۔ سردار اختر مینگل کے دھرنے نے بلوچستان ہی نہیں ملک بھر کی سیاست میں تہلکہ مچایا۔ انہیں بلوچستان کی بیشتر سیاسی پارٹیوں اور اہم شخصیات نے اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا۔ سردار اختر بلوچ کے اپنے بیان کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ ملک کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے دھرنے میں شرکت کرکے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ ان میں پاکستان تحریک انصاف‘ جمعیت العلمائے اسلام‘ بلوچستان نیشنل پارٹی‘ جمہوری وطن پارٹی‘ جماعت اسلامی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی شامل ہیں۔ اس دوران نیشنل پارٹی کے سربراہ اور بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے ساتھ ملاقات کو بھی بلوچستان کی صورتحال میں اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے نو اپریل کو لاہور میں سابق وزیراعلیٰ میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور انہیں سردار اختر مینگل کے دھرنے سے پیدا شدہ صورتحال کے علاوہ بلوچستان کے دیگر مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کا کہا۔ قائد مسلم لیگ (ن) نے یہ کردار ادا کرنے کی حامی بھر لی اور اس مقصد کیلئے بلوچستان کا دورہ کرنے کا بھی یقین دلایا۔ بہرکیف نواز شریف کو بلوچستان کے دورے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور اختر مینگل نے اس ماہ کے وسط میں اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس طرح بلوچستان میں ناخوشگوار اور خطرناک نتائج کی حامل صورتحال پیدا ہونے سے ٹل گئی۔ مگر کیا بلوچستان میں امن اور سیاسی سکون قائم ہو جائے گا؟ اس سوال کا ہاں میں جواب دینا فی الحال مشکل ہے کیونکہ جن مطالبات کو لے کر سردار اختر مینگل نے احتجاجی جلوس نکالا تھا اور 20روز تک دھرنا دیا تھا وہ ابھی تک تسلیم نہیں کیے گئے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین کارکنان ابھی تک جیل میں ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی آرڈیننس (ایم پی او) کی دفعہ 3کے تحت ماہ رنگ بلوچ کی نظر بندی میں ایک ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے دھرنا ختم ہونے کے بعد جو بیان دیا تھا اس سے صاف عیاں ہے کہ حکومت سردار اختر مینگل کے مطالبات قبول کرنے یعنی ماہ رنگ بلوچ اور ان کی ساتھی کارکنان کی رہائی کے موڈ میں نہیں بلکہ انہوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو دہشت گرد اور علیحدگی پسندوں کی مددگار قرار دیتے ہوئے بالواسطہ طور پر سردار اختر مینگل اور اُن کی طرح جلوس نکالنے اور راستوں کو بند کرنے والے دیگر رہنماؤں کو بھی وارننگ دی کہ حکومت آئندہ کسی کو روڈ بلاک کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
دوسری طرف دھرنا ختم کرنے کے بعد ایک بیان میں سردار اختر مینگل نے کہا تھا کہ دھرنا ختم کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے مطالبات کے حق میں تحریک ختم ہو گئی ہے‘ انہوں نے کہا کہ یہ ضلعی سطح پر ریلیوں کی صورت میں جاری رہے گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے صوبے کے مختلف اضلاع میں احتجاجی ریلیاں نکالنے کے شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ 18اپریل کو مستونگ سے پہلی ریلی نکالی جائے گی اور ان ریلیوں میں مقامی لوگ اور بی این پی قیادت‘ سیاسی اور قبائلی زعما شرکت کریں گے۔ بلوچستان میں سردار اختر مینگل کے احتجاجی مارچ اور دھرنے کو دیگر سیاسی پارٹیوں‘ قبائلی رہنماؤں‘ سیاسی کارکنوں اور عام لوگوں کی طرف سے جس طرح پذیرائی حاصل ہوئی اور اس سے پہلے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت میں گمشدگی کے واقعات‘ پُرامن جلسوں اور جلوسوں پر فائرنگ اور سیاسی کارکنوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کے خلاف جلوس نکالنے کو جس طرح عام لوگوں کی حمایت حاصل ہوئی ہے اس کے پیش نظر باور کیا جا سکتا ہے کہ ضلعی سطح پر اس احتجاجی تحریک میں بھی لوگ شامل ہوں گے۔ 18اپریل کو مستونگ میں بی این پی کے تحت جو احتجاجی ریلی نکالی گئی اس میں بی این پی ایم کے کارکنوں اور رہنماؤں کے علاوہ جمعیت العلمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے زعما نے بھی شرکت کی۔ امکان ہے کہ صوبے کے دیگر اضلاع کی ریلیوں میں بھی بی این پی ایم کے علاوہ صوبے کی دیگر پارٹیوں کے نمائندے بھی شرکت کریں گے۔ اس طرح لک پاس دھرنے کے اختتام پر سردار اختر مینگل نے احتجاجی تحریک کے جس دوسرے مرحلے کا اعلان کیا تھا اس کی حیثیت محض ایک مقامی یا واحد پارٹی کے احتجاج کی نہیں رہے گی بلکہ اسے صوبے کے تمام اپوزیشن پارٹیوں کی ایک متحدہ اور متفقہ تحریک کا مقام حاصل ہو گا۔ اس کی وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ اور ان کی خواتین ساتھیوں کی گرفتاری کی اپوزیشن پارٹیوں‘ سیاسی کارکنوں‘ انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے کارکنوں اور قبائلی رہنماؤں نے مذمت کی اوران کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ تاہم صوبائی یا مرکزی حکومت نے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی لچک نہیں دکھائی۔
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے ایک نجی ٹی وی چینل پر انٹرویو کے دوران سردار اختر مینگل کی طرف سے دھرنا ختم کرنے کے اقدام کو خوش آئند قرار دیا بلکہ دعویٰ کیا ہے کہ سردار اختر مینگل کو اس اقدام پر آمادہ کرنے میں صوبائی حکومت کی متعدد کوششیں بھی شامل ہیں‘ مگر سردار اختر مینگل نے خیر سگالی کے اقدام کو منظور کرنے کے بجائے طاقت کے استعمال کی دھمکی۔ بگٹی صاحب سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کی کابینہ کے رکن رہ چکے ہیں اور ڈاکٹر عبدالمالک کے دور (2013-15ء) میں بلوچ مسئلے کو بات چیت اور پُرامن طریقے سے حل کرنے کی جو پیش رفت ہوئی تھی وہ اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ وہ اس وقت کسی مجبوری کے تحت زبان سے اقرار نہ کریں مگر ان کا دل ضرور مانتا ہو گا کہ گزشتہ 77برسوں میں بلوچستان کا مسئلہ اس لیے پیچیدہ سے پیچیدہ ترین ہوتا چلا گیا ہے کیونکہ اسے حل کرنے کی جن لوگوں نے ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں اب تک لے رکھی ہے وہ اسے محض ایک لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بنیادی طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طریقوں سے حل کیا جانا چاہیے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ جن کے پاس اقتدار ہے وہ اس راستے پر چلنے پر تیار نہیں۔ اگر یہی پالیسی جاری رہی تو بلوچستان کا مسئلہ ایک قومی اور عالمی مسئلہ بن جائے گا کیونکہ اس میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں‘ جبری گمشدیوں کے واقعات اور سیاسی کارکنوں کی بلاامتیاز گرفتاریوں جیسے مسائل شامل ہو جائیں گے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ اس سے دہشت گرد فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں