"DRA" (space) message & send to 7575

ایران‘ امریکہ جوہری مذاکرات

12 اپریل کو خلیج فارس کی ریاست عمان کے دارالحکومت مسقط میں امریکہ اور ایران کے مابین ایرانی جوہری پروگرام پر بالواسطہ مذاکرات کا انعقاد خطے کے لیے ایک خوش آئند خبر ہے۔غزہ‘ لبنان اور شام پر لگاتار اسرائیلی حملوں اور یوکرین میں جنگ کے بدستور جاری رہنے سے مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے عوام بھی ایران اور امریکہ کے ممکنہ تصادم پر سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ عمان میں ہونے والے یہ مذاکرات ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور مشرق وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف کے مابین ہوئے۔ یہ مذاکرات بالواسطہ تھے اور ان میں عمانی وزیر خارجہ نے رابطے کا فریضہ سرانجام دیا۔ ان مذاکرات کو آغاز ہی میں غیر متوقع طور پر ''خوشگوار‘‘ اس لیے قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ خدشہ تھا کہ صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ براہِ راست مذاکرات پر اصرار کریں گے۔ گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے نام جو خط لکھا تھا‘ اُس میں براہِ راست مذاکرات ہی کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر تقریباً دو ہفتے مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ایران نے براہِ راست مذاکرات کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے بالواسطہ بات چیت کی تجویز پیش کی جو امریکی صدر نے مان لی۔ مذاکرات کا یہ دور مختصر اور ابتدائی نوعیت کا تھا مگر حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ فریقین نے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ یہ بھی طے پایا کہ مذاکرات بالواسطہ اور عمان کے توسط سے ہوں گے اور ان کیلئے سات دن کا وقفہ کیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے امریکی صحافیوں کے سوال کے جواب میں کہا کہ جب تک کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہ ہو‘ کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی تاہم ''مذاکرات ٹھیک جا رہے ہیں‘‘۔ عمانی وزیر خارجہ بدر البوسیدی نے بتایا کہ مذاکرات ''دوستانہ ماحول‘‘ میں ہوئے۔ اگرچہ مذاکرات کا یہ ابتدائی دور تھا اور ایران اور امریکہ کے مؤقف ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں لیکن ایران میں بھی ان کا فوری اور مثبت اثر سامنے آیا ہے۔ سب سے پہلے تو ان مذاکرات کے آغاز کے بعد ایرانی کرنسی کی قدر بہتر ہوئی ہے۔ امریکی ڈالر جو دس لاکھ ایرانی ریال سے زیادہ سطح پر ٹریڈ ہو رہا تھا‘ آٹھ لاکھ ایرانی ریال پر آ گیا۔ ایرانی میڈیا نے ان مذاکرات کا خیر مقدم کیا اور انہیں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں ''فیصلہ کن موڑ‘‘ قرار دیا۔ ایرانی میڈیا میں امریکہ کے اس رویے کی تعریف کی جا رہی ہے کہ اس نے جوہری پروگرام کے علاوہ کسی اور غیر جوہری مسئلے کو بات چیت کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا۔ ایران کے ایک حکومت کے حامی اخبار نے بات چیت کو تعمیری اور باہمی احترام پر مبنی قرار دیا جبکہ امریکہ کے بارے میں سخت گیر مؤقف کے حامی اخبار ''کیہان‘‘ نے مذاکرات کو خوش آئند قرار دیا اور لکھا کہ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا‘ تاہم امریکہ کا یہ طرزِ عمل خوش آئند ہے کہ اس نے ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ ہی مذاکرات کے موقع پر ایران پر حملے کی دھمکی دی ہے۔
ایران اور امریکہ کے مابین جوہری مسئلے پر خوشگوار اور حوصلہ افزا بات چیت کے آغاز کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس پر دونوں ملکوں نے لچک دکھائی ہے۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو اس کی طرف سے ٹرمپ کے دھمکی آمیز رویے کے باوجود جوہری مسئلے پر ازسرنو بات چیت پر آمادگی کا سبب یہ ہے کہ امریکی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی معیشت سخت دباؤ میں ہے اور ملک میں افراطِ زر‘ بیروزگاری اور کرنسی کی قیمت میں کمی جیسے مسائل حکومت کے لیے سخت تشویش کا باعث ہیں۔ ایران ان تباہ کن اور معیشت کو مفلوج کرنے والی پابندیوں کا خاتمہ یا ان میں نرمی چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر خارجہ عباس عراقچی نے مذاکرات کے اگلے دور کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں ایران کی طرف سے جوہری پروگرام کے ساتھ امریکہ سے اقتصادی پابندیوں کو اٹھانے پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو صدر ٹرمپ ایران پر اقتصادی پابندیوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال کر اپنا مقصد حاصل کرنا‘ یعنی ایران کے جوہری پروگرام کے رول بیک کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے کہا ہے کہ ان کے پاس طاقت استعمال کرنے کا آپشن بھی موجود ہے مگر انہیں معلوم ہے کہ ایران 2003ء والا' عراق‘ نہیں ہے‘ جس پر امریکہ آسانی سے حملہ کر سکے۔ خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ اور ان دو خطوں کے اردگرد کے علاقوں میں انتہائی اہم جیو پولیٹکل تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ اگرچہ حماس اور حزب اللہ کو پہنچنے والے نقصان اور شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے ایران کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے مگر اس نے روس اور چین کے ساتھ تعلقات کو وسیع کر کے اور سعودی عرب اور خلیج فارس کی دیگر ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا کر اپنے لیے ایک محفوظ علاقائی ماحول پیدا کر لیا ہے۔ 2003ء میں عراق کو یہ سہولتیں حاصل نہیں تھیں۔ کئی عشروں کی کوششوں کے بعد ایران نے امریکی پابندیوں کے باوجود اپنے بیلسٹک میزائلوں کے ذخیروں اور یورینیم کی افزودگی کے ذریعے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے قریب پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ اسی سبب اسرائیل کے دباؤ کے باوجود صدر ٹرمپ طاقت کے استعمال کے بجائے ڈپلومیسی کو ترجیح دینا چاہتے ہیں۔ البتہ ایران اور امریکہ کے یہ مذاکرات آسان نہیں ہوں گے۔
امریکہ جوہری پروگرام کے علاوہ ایران کے بیلسٹک میزائل سسٹم کا بھی خاتمہ چاہتا ہے تاکہ ایران کے پاس نہ ایٹم بم ہو اور نہ ہی اسے اسرائیل تک مار کرنے والے میزائل‘ مگر ایرانی وزیر خارجہ نے آئندہ ہونے والے مذاکراتی دور جو آج 19 اپریل کو روم میں ہو رہے ہیں‘ کے بارے میں واضح کر دیا کہ اس میں صرف ایٹمی پروگرام اور امریکی اقتصادی پابندیوں پر بات ہو گی۔ البتہ صدر ٹرمپ ہر قیمت پر ایران کی بیلسٹک میزائل طاقت کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو ایران کو کسی بھی حالت میں قبول نہیں۔ سابق صدر بائیڈن کے دور میں بھی امریکہ نے ایران کو بیلسٹک میزائل ایشو کو مذاکراتی ایجنڈے میں شامل کر کے 2015ء کے معاہدے کو بحال کرنے کی پیشکش کی تھی مگر ایران نے اس تجویز کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس پر صدر بائیڈن نے ایران پر نہ صرف سابقہ اقتصادی پابندیاں بحال رکھیں بلکہ نئی پابندیاں بھی لگا دیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت کے آغاز کے ساتھ ہی چار مختلف احکامات کے ذریعے ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دیں بلکہ پابندیوں کا ایک نیا سلسلہ عین اسی روز یعنی 12 اپریل کو نافذ کیا جب دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات شروع ہونے والے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ ایران پر اپنی مرضی تھوپنے کے لیے اقتصادی پابندیوں پر کس حد تک انحصار کرتے ہیں۔ اس لیے اپنے جوہری پروگرام اور میزائل سسٹم کے بارے میں امریکی مطالبات تسلیم نہ کرنے کی صورت میں‘ جو یقینی معلوم ہوتا ہے‘ ایران کو مزید امریکی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ مگر مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس لیے کہ اسے جاری رکھنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ اس طرح ایران امریکی حملے سے بچ سکتا ہے اور صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم کی تسلی کی خاطر ایران پر دباؤ کی پالیسی جاری رکھیں گے مگر ایران پر بمباری سے گریز کریں گے کیونکہ بمباری کی دھمکی پر روس نے امریکہ کو خبردار کیا ہے اور بیجنگ میں ایران‘ روس اور چین کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس میں اس پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ صدر ٹرمپ جو اگلے ماہ سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں‘ کو سعودی حکام نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے خطرناک مضمرات سے آگاہ کر دیا ہو۔ الغرض موجودہ صورتحال میں ایران امریکہ جوہری مذاکرات کا نہ تو فوری طور پر کوئی نتیجہ برآمد ہوگا نہ یہ ختم ہوں گے بلکہ ایک لمبے عرصہ تک جاری رہیں گے جس کے دوران دونوں ممالک انتہائی اقدامات سے گریز کریں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں