"AYA" (space) message & send to 7575

یورپ کو حالات سمجھنے میں دِقت ہو رہی ہے

ڈونلڈ ٹرمپ دنیا نہیں بدل رہا بلکہ بدلی ہوئی دنیا کا ادراک اوروں سے بہتر رکھتا ہے۔ یوکرین کے حالات میں تبدیلی نہیں لا رہا بلکہ اتنی بات سمجھ رہا ہے جوکہ یورپ کے لیڈروں کو مشکل سے سمجھ آ رہی ہے کہ یوکرین جنگ میں فتح حاصل نہیں کر سکتا۔ روس کو شکست ہوئی نہ یوکرین کے ہاتھوں ہو سکتی ہے۔ امریکہ اور یورپ نے یوکرین کو امداد تھوڑی نہیں دی۔ تین سال میں تین سو سے چار سو بلین ڈالر کسی کھاتے میں بھی تھوڑی امداد سمجھی جائے گی؟ ولودومیر زیلنسکی کا تو یہی لگتا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ یہ جنگ جاری رہے اور وہ اپنی خاکی پتلون اور ٹی شرٹ پہن کر عالمی سٹیج پر ایک جنگی ہیرو کی طرح پوز کرتا رہے۔ ٹرمپ کی نئی امریکی حکومت اس سوچ کی حامل ہے کہ ایک سمندر‘ جس کی کوئی تہہ نہیں اُس میں امریکی وسائل کیوں جھونکتے رہیں۔ اسی لیے اُنہوں نے امن کی بات کی اور اس انداز سے کی کہ زیلنسکی اوول آفس میں بدک گیا۔ اور اُس نے وہ انداز اپنایا جسے پرلے درجے کے کسی بیوقوف کو بھی نہیں اپنانا چاہیے تھا۔ اگر امریکی اور یورپی امداد کے بل پر روس سے برسرپیکار ہے تو پھر اکڑ کس بات کی؟
بہت سے امریکی اور یورپی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دنیا آج نہیں بدلی بلکہ جیو سٹریٹیجک حالات میں بنیادی تبدیلی تب آئی جب 1991ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے اس بات کی گھنٹی بجی کہ سرد جنگ ختم ہو گئی ہے اور اس میں واضح فاتح امریکہ ہے۔ اُس فتح نے امریکہ میں ایک عجیب نفسیات پیدا کی اور امریکیوں نے سمجھا کہ دنیا میں اب واحد بڑی طاقت اُن کا ملک ہے اور عالمی سٹیج پر وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ صدر جارج ڈبلیو بش کے ایڈوائزر کال روو نے اس خیال کو ان الفاظ میں بیان کیا کہ اب حقیقت وہ ہے جو ہم کہیں گے کہ حقیقت ہے۔ اور اگر اس حقیقت کو ہم بدل دیں تو پھر ہماری نئی بنائی ہوئی صورتحال ہی حقیقت کہلائے گی۔ اُس وقت صرف چند آوازیں ہی تھیں جنہوں نے تنبیہ کرنے کی کوشش کی کہ سوویت یونین ٹوٹ چکا ہے اور سرد جنگ میں روس کی شکست ہو چکی ہے لیکن روس کے ساتھ برتاؤ نرم رکھنا چاہیے اور اُسے کسی کونے میں دھکیلنا مقصود نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن امریکی تب ایک سرشاری کے عالم میں گرفتار تھے اور ایسی باتوں پر کان دھرنے کا بڑے عہدوں پر بیٹھے امریکیوں کا کوئی موڈ نہ تھا۔ روس کا نیا منتخب صدر بورس یلتسن تھا اور ایک تو وہ شراب کا رسیا کچھ زیادہ ہی تھا‘ دوسرا یہ کہ امریکیوں کے ہاتھوں بے عزت ہونا اُس نے اپنا شعار بنا لیا تھا۔ اور امریکی بھی اسی میں خوش تھے کہ اس موقع کا فائدہ اٹھایا جائے اور روس کی کوئی پروا نہ کی جائے۔
اسی سوچ کے تحت نیٹو دفاعی معاہدے کی توسیع ہوئی حالانکہ سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد نیٹو کا کوئی مقصد نہیں رہا تھا۔ نیٹو کی تشکیل تو تب ہوئی تھی جب سوویت یونین کا سربراہ جوزف سٹالن تھا اور روس کی فوجوں نے نازی جرمنی کو شکست دے کر مشرقی یورپ پر قبضہ جمایا ہوا تھا۔ مشرقی یورپ کی حکومتیں سوویت یونین کی طاقت کے بل بوتے پر قائم ہوئیں اور اُن کے وجود کے پیچھے سرخ یا سوویت فوج تھی۔ اس صورتحال کے پیش نظر ونسٹن چرچل نے وہ مشہور خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ مشرقی یورپ پر ایک لوہے کا پردہ گر چکا ہے۔ اُس وقت چین میں خانہ جنگی جاری تھی اور پتا چل رہا تھا کہ ماؤزے تنگ کی گوریلا فوجیں خانہ جنگی جیت کر چین پر قابض ہو جائیں گی۔ ویتنام میں ہوچی مِن کی کمان میں ویتنامی کمیونسٹ پارٹی شمالی ویتنام پر قابض ہو رہی تھی۔ یہ وہ زمانہ اور ماحول تھا جب امریکہ اور مغربی دنیا کو یہ ڈر لاحق ہوا کہ کمیونزم زوردار طریقے سے پھیل رہا ہے اور اگر مغربی دنیا کو بچانا ہے تو کمیونزم کے سامنے عسکری معاہدوں کا ایک جال بچھانا پڑے گا۔ یہ مخصوص صورتحال یورپ میں نیٹو‘ مشرق وسطیٰ میں بغداد پیکٹ اور جنوب مشرقی ایشیا میں سیٹو کے قیام کا محرک بنی۔
لیکن جب سرد جنگ میں سوویت یونین کی پسپائی یقینی ہو گئی‘ سوویت یونین مختلف حصوں میں بکھر گیا‘ روسی فوجوں کا انخلا مشرقی یورپ سے شروع ہو گیا‘ پھر تو نیٹو کا جواز ہی باقی نہ رہا‘ کجا یہ کہ عسکری ڈھول اُٹھائے نیٹو مشرق کی طرف یعنی روس کے عین نیچے پھیلتا جائے۔ یلتسن ایک مزاحیہ قسم کا لیڈر ثابت ہوا۔ امریکہ اور مغربی دنیا کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ لیکن یلتسن کے بعد جب ولادیمیر پوٹن روس کا سربراہ بنا تو اُس نے روس کے خراب حالات کو سمیٹنے کی کوشش کی اور مغربی دنیا سے دھیمے انداز میں کہنے لگا کہ نیٹو کا پھیلاؤ روس کی سکیورٹی کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں۔ امریکہ تب ایک سرمستی کے عالم میں مبتلا تھا‘ اُس نے ایسی باتوں پر کیا دھیان دینا تھا۔ امریکی نہ صرف نیٹو کی توسیع میں دلچسپی لیتے رہے بلکہ مسلم دنیا میں بھی کئی ایڈونچر شروع کر دیے۔
2001ء میں افغانستان پر حملہ اسی ذہنی کیفیت کے تحت ہوا اور ابھی اُس حملے کے مقاصد پورے نہ ہوئے تھے کہ امریکہ نے بغیر کسی جواز کے عراق پر حملہ کر دیا۔ جارج بش دوم کی حکومت میں جو سب سے اسرائیل نواز حکام تھے‘ وہ عراق کے حملے کے پیچھے تھے۔ اُن کی یہ سوچ تھی کہ عراق پر حملہ ہونا چاہیے۔ امریکہ کے کوئی اپنے مقاصد نہیں تھے جو عراق میں پورے ہونے تھے لیکن اسرائیل چاہتا تھا کہ عراق تباہ وبرباد ہو۔ امریکی اسی پر نہیں رکے‘ براک اوباما کی حکومت میں ہیلری کلنٹن‘ جو ان کی سیکرٹری آف سٹیٹ تھی‘ اُس نے لیبیا کی تباہی کا منصوبہ بنایا۔ اور پھر امریکی شام کے ساتھ بھی وہی کرنا چاہتے تھے جو لیبیا کے ساتھ ہوا لیکن روس اور ایران کی مداخلت پر اُس وقت شام اُس انجام سے بچ گیا جو معمر قذافی کو دیکھنا پڑا۔
جب مسلم دنیا کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا تھا اُسی وقت امریکیوں پر یہ خبط سوار ہوا کہ یوکرین میں بھی رجیم چینج ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ نیٹو کی توسیع ہو چکی تھی۔ بیشتر مشرقی یورپی ممالک جو سوویت ایمپائر کا حصہ ہوا کرتے تھے‘ نیٹو میں شامل ہو چکے تھے۔ لیکن امریکیوں نے اس پر بھی اکتفا نہ کیا اور براک اوباما کے دورِ صدارت میں یوکرین میں شعلۂ بغاوت بھڑکانے کی کوشش شروع ہو گئی۔ یوکرین کے صدر وِکٹر یانوکووِچ تھے۔ وہ روس نواز تھے اور اُن کی صدارت میں روس اور یوکرین کے تعلقات بہت ہم آہنگ رہے۔ امریکی اس بات سے خوش نہ تھے اور اُنہوں نے ہر وہ کام کیا جس سے یوکرین میں بغاوت کے شعلے بڑھکیں۔ یانوکووِچ کو وہاں سے بھاگنا پڑا اور روس میں پناہ لینا پڑی۔ یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ روس کے کوئی جنگی عزائم یوکرین کے خلاف نہ تھے۔ وہ صرف اتنا چاہتا تھا کہ یوکرین نیوٹرل رہے اور نیٹو کا حصہ نہ بنے۔ لیکن یوکرین میں تبدیلیٔ اقتدار کے بعد امریکیوں کی پوری کوشش رہی کہ یوکرین میں سے روس کے خلاف آوازیں اٹھیں۔ ولودومیر زیلنسکی 2019ء میں یوکرین کا صدر منتخب ہوا اور اس کے اقتدار میں آنے سے یوکرین مغربی دنیا کے قریب اور روس کے مخالف ہونے لگا۔
امریکہ نے عراق میں شوقیہ جنگ شروع کی تھی۔ پوٹن نے کوئی شوقیہ حملہ نہ کیا بلکہ روس پر جنگ تقریباً مسلط ہوئی اور آج جب ایک امریکی صدر یہ کہہ رہا ہے کہ اس بیوقوفانہ جنگ کو ختم ہونا چاہیے تو لبرل امریکی غصے سے پاگل ہو رہے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں