بنگال کے نواب علی وردی کا کوئی بیٹا نہ تھا اس لیے لوگوں کا اندازہ تھا کہ وہ اپنے داماد نوازش خان کو اپنا جانشین مقرر کرے گا۔ اس متوقع اعلان کے پیشِ نظر ایسٹ انڈیا کمپنی نے پہلے سے نوازش خان کو اپنا ہمنوا بنا لیا تھا لیکن جہاں دیدہ علی وردی نے انگریزوں کی توقع کے برعکس فیصلہ کیا۔ اس نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی امینہ بیگم کے فرزند سراج الدولہ کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ خبر ایسٹ انڈیا کمپنی کیلئے کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ وہ نوازش خان کو تو کٹھ پتلی بنا کر اپنے مقاصد پورے کر سکتے تھے لیکن سراج الدولہ کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ وہ ان کے دام میں کبھی نہیں آئے گا۔
سراج الدولہ 1733ء میں پیدا ہوا تھا‘ وہ اپنے نانا علی وردی کا لاڈلا تھا۔ نانا نے اس کی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا تھا۔ اس زمانے میں تربیت کا محور فنِ سپہ گری تھا۔ علی وردی اپنے نواسے کو سپہ گری کے فن سے آشنا کرنے کیلئے اسے عملی تربیت دے رہا تھا۔ وہ جب بھی کسی جنگی معرکے پر جاتا کمسن سراج الدولہ کو اپنے ہمراہ لے کر جاتا۔ 1746ء میں جب علی وردی مرہٹوں کے خلاف برسرِ پیکار تھا تو تیرہ سالہ سراج الدولہ بھی اس معرکے میں شریک تھا۔ یوں کم عمری میں ہی وہ فنِ سپہ گری کے داؤ پیچ سیکھ چکا تھا۔
سراج الدولہ کی جانشینی کے بعد علی وردی نے اسے ریاست کے اسرار و رموز سیکھانے کیلئے اپنے قریب رکھا تھا۔ اس نے اپنے نانا سے سیکھا تھا کہ کیسے زندگی کے معرکے میں کبھی کبھار مصلحت آمیز فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں جس طرح اس کے نانا علی وردی نے مرہٹوں کے ساتھ امن کا معاہدہ کر لیا تھا تاکہ سلطنت کے امور پر پوری توجہ دی جا سکے۔ لیکن سراج الدولہ جوان تھا۔ اس کے خون میں گرمی تھی۔ شاید مصلحت کیلئے تجربہ اور عمر ضروری ہوتی ہے۔ ایک بار تو اس نے اپنے نانا علی وردی کے خلاف بھی عَلم اُٹھا لیا تھا۔ یہ 1750ء کی بات ہے جب اس نے فوج کے ایک حصے کے ساتھ پٹنہ پر قبضہ کر لیا لیکن وہ وقتی اور جذباتی فیصلہ تھا جلد ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور اس نے ہتھیار پھینک دیے۔ بوڑھے علی وردی نے اپنے لاڈلے نواسے کو بلاتاخیر معافی دے دی۔
اب علی وردی پر بڑھاپا غالب آنے لگا تھا‘ اس کی عمر اسی برس ہو گئی تھی۔ آئے دن کے جنگی معرکوں نے اسے تھکا دیا تھا۔ وہ 1756ء کا سال تھا جب علی وردی اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔ علی وردی کے بعد اس کی وصیت کے مطابق اس کے نواسے سراج الدولہ کو تخت پر بٹھایا گیا‘ اس وقت اس کی عمر 23 برس تھی۔ سراج الدولہ اپنے نانا کے آخری برسوں میں اس کے ہمراہ رہا تھا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ بنگال کو اندرونی اور بیرونی خطروں کا سامنا ہے۔ علی وردی کے پاس طویل تجربہ تھا جس کی بدولت وہ دشمنوں کی چالوں کو ناکام بناتا آیا تھا۔ سراج الدولہ نوجوان تھا اور اسے مصلحت کیشی سے کوئی واسطہ نہ تھا۔
سراج الدولہ نے اپنی تاج پوشی کے بعد چند اہم اقدامات کا فیصلہ کر لیا۔ اسے معلوم تھا کہ بہت سی قوتیں اپنے اپنے مفادات کیلئے اس کے اقتدار کے درپے ہیں۔ اس نے سب سے پہلے اندرونی قوتوں سے نپٹنے کا فیصلہ کیا۔ ان قوتوں میں سب سے اہم جگت سیٹھ خاندان تھا‘ جنہیں بادشاہ گر کہا جاتا تھا‘ جن کے پاس بے پناہ دولت تھی جو وہ لوگوں کو ادھار دیتے تھے اور اس پر منافع کماتے تھے۔ یوں سمجھ لیں کہ وہ بنگال کا اہم ترین بینک تھے۔ اپنے کاروباری مفادات کیلئے ضروری تھا کہ ان کی مرضی کی حکومت ہو تاکہ ان کے معاشی منصوبے پھل پھول سکیں۔ اسی لیے حکومتوں کو بنانے اور گرانے میں ان کا اہم ہاتھ تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ علی وردی کو اقتدار دلانے میں بھی جگت سیٹھ سرگرم تھے۔ سراج الدولہ نے جگت سیٹھ کی سرگرمیوں کو لگام دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کا یہ فیصلہ جگت سیٹھ کیلئے حیران کن تھا لیکن وہ شاطرانہ حکمتِ عملی پر یقین رکھتے تھے۔ وہ بظاہر خاموش تھے لیکن اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہے تھے اور موقع کی تلاش میں تھے کہ کب سراج الدولہ سے اپنی تذلیل کا بدلہ لیا جائے۔ اسی طرح سراج الدولہ نے مرکزی عہدوں میں چند تبدیلیاں کیں۔ میر جعفر کو ہٹا کر میر مدن کو بخشی کا عہدہ دے دیا گیا اور موہن لال کو ترقی دے کر اپنے دیوان خانے کے پیش کار کے عہدے پر فائز کر دیا۔
اب سراج الدولہ نے بیرونی قوتوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی جو تجارت کیلئے آئی تھی‘ اس نے پر پُرزے نکال لیے ہیں اور معیشت کے دائرے سے نکل کر سیاست میں براہِ راست دخل اندازی کر رہی ہے۔ سراج الدولہ سے پہلے بنگال کے حکمرانوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کی تھی۔ علی وردی نے بھی مصلحتاً ایسٹ انڈیا کمپنی کو نہیں چھیڑا تھا۔ سراج الدولہ کو جب پتا چلا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنی فوجی قوت میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہے اور فورٹ ولیم کی باقاعدہ قلعہ بندی کی جا رہی ہے۔ ایک تجارتی کمپنی کی قلعہ بندی اور فوجی طاقت میں روز افزوں اضافہ سراج الدولہ کیلئے پریشانی کا باعث تھا۔سراج الدولہ نے دیکھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی مغل بادشاہ کی طرف سے دی گئی تجارتی مراعات کا غلط اور بے دریغ استعمال کر رہی تھی جس سے مقامی معیشت پر انتہائی منفی اثرات پڑ رہے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی مغل بادشاہ اور بنگال کے نواب کے احکامات کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ اس کی ایک مثال نواب کے ناپسندیدہ افراد کو اپنے پاس پناہ دینا تھا۔ سراج الدولہ نے ان افراد کی فوری واپسی کا کہا لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کی پروا نہیں کی۔ یوں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ریاست کے اندر ایک ریاست بنائی تھی جس کی اپنی فوج تھی اور جو نواب کی دسترس سے باہر تھی۔ یہ صورتحال سراج الدولہ کو قبول نہیں تھی۔ اس نے آخری بار خط لکھا کہ قلعہ بندی کو فوراً روک دیا جائے اور نواب کے ناپسندیدہ افراد کو فوراً واپس کیا جائے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس خط کو کوئی اہمیت نہ دی۔ یہ صورتحال سراج الدولہ کیلئے ناقابلِ برداشت تھی۔ اب بات مصلحت کی سرحدوں سے آگے نکل گئی تھی‘ اس نے اپنی فوج کو تیار ہونے کا حکم دیا اور سب سے پہلے قاسم بازار میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فیکٹری پر حملہ آور ہوا۔ یہاں انگریز سپاہیوں کی تعداد بہت کم تھی اسے کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ قاسم بازار میں تعینات انگریز سپاہیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ سراج الدولہ کا یہ اقدام ایسٹ انڈیا کیلئے غیرمتوقع تھا لیکن ابھی ایک اور غیرمتوقع اقدام ان کا منتظر تھا۔ سراج الدولہ انتہائی تیزی سے قاسم بازار کا مورچہ سر کرتا ہوا کلکتہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مرکز فورٹ ولیم کی طرف بڑھ رہا تھا اور جب تک انگریزوں کو خبر ہوتی وہ کلکتہ میں ان کے سروں پر پہنچ چکا تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی مختصر فوج کے مقابلے میں سراج الدولہ کے پاس ایک بڑا لشکر تھا لہٰذا یہ ایک یکطرفہ مقابلہ ثابت ہوا اور سراج الدولہ نے بہ آسانی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہم مرکز فورٹ ولیم اور کلکتہ پر قبضہ کرلیا۔ کلکتہ کا انگریز گورنر Drakeاپنے ساتھیوں سمیت قلعے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ قلعے کے اندر موجود انگریز سپاہیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ تب ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ ہوا یوں کہ قلعے پر قبضے کے بعد کچھ دیسی سپاہی گشت کر رہے تھے کہ نشے میں دھت ایک انگریز سپاہی نے ان کو روک لیا۔ (جاری)