وہ موسمِ بہار کا مہینہ تھا جب مغل بادشاہ اورنگزیب کا انتقال ہوا۔ اس کے ساتھ ہی مغلیہ حکومت کو خزاں نے اپنے حصار میں لے لیا۔ جونہی اورنگزیب کی آنکھیں بند ہوئیں تخت کے امیدوار سامنے آ گئے۔ ان امیدواروں میں اورنگزیب کے اپنے تین بیٹے شامل تھے۔ سب سے بڑا بیٹا بہادر شاہ کابل کا گورنر تھا۔ منجھلا بیٹا محمد اعظم شاہ اورنگ آباد اور گجرات اور سب سے چھوٹا بیٹا کام بخش بیجاپور کا گورنر تھا۔ جیسے ہی انہیں اپنے والد‘ مغل بادشاہ اورنگزیب کے انتقال کی خبر ملی‘ بہادر شاہ نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا اور کابل سے اپنی فوج کے ہمراہ دہلی کی طرف نکل پڑا۔ دوسری طرف محمد اعظم شاہ نے بھی اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا اور اپنی فوج کے ہمراہ نکل کھڑا ہوا۔ دونوں فوجوں کا آمنا سامنا آگرہ کے قریب ہوا۔ اس لڑائی میں بہادر شاہ نے اعظم شاہ کی فوج کو شکست دے دی۔ جنگ میں محمد اعظم شاہ مارا گیا۔ بہادر شاہ دہلی کے تخت پر بیٹھا تو ملک میں باغی قوتیں سر اُٹھا رہی تھیں‘ انہی میں بادشاہ کا چھوٹا بھائی کام بخش بھی شامل تھا جو بادشاہت کا امیدوار تھا۔ بہادر شاہ نے کام بخش پر حملہ کیا اور اس کی فوج کو شکست دے دی۔ اس جنگ میں کام بخش زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ اب خاندان میں کوئی بادشاہت کا امیدوار نہ بچا تھا۔
بہادر شاہ کی بادشاہت کا دور 1707ء سے 1712ء تک ہے لیکن ان پانچ سالوں میں شاید ہی اسے چین ملا ہو کیونکہ اس دوران مرہٹے‘ راجپوت اور سکھ پوری طرح سرگرم ہو گئے تھے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مختلف علاقوں کے گورنر بھی اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کا سوچ رہے تھے۔ 7 اکتوبر 1708ء کو سکھوں کے رہنما گوبند سنگھ کو قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے سے سکھوں میں بے چینی پھیل گئی۔ ایسے میں ایک سکھ عسکری رہنما بندہ سنگھ بہادر نے بغاوت کا عَلم بلند کیا اور سکھ فوج کے ہمراہ پنجاب میں ضلع پٹیالہ کے علاقے سمانہ پر قبضہ کر لیا۔ معاملہ یہاں پر ہی ختم نہ ہوا۔ اگلے برس 12مئی 1719ء کو سرہند کے مقام پر سکھوں اور مغلوں کے مابین لڑائی ہوئی جس میں مغلوں کے گورنر وزیر خان کو شکست ہوئی اور سکھوں کا عمل دخل کئی علاقوں تک پھیل گیا۔ 1711ء میں بہادر شاہ نے بندہ سنگھ بہادر کا پیچھا کرتے ہوئے اسے پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا۔ اس سے اگلے برس 1712ء میں بہاد ر شاہ اول کا انتقال ہو گیا۔ یوں ایک ہنگامہ خیز دورِ حکومت اختتام کو پہنچا۔ بہادر شاہ کی وفات کے بعد حسبِ روایت ایک بار پھر وراثت کی جنگ شروع ہو گئی۔
یوں تو بہادر شاہ کے کئی بیٹے تھے لیکن اقتدار کی جنگ میں اس کے چار بیٹے شریک تھے۔ اقتدار بھی کیسی چیز ہے‘ جس کے حصول کے لیے قریبی رشتے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ بہادر شاہ کی وفات کے بعد چاروں بیٹوں نے اپنی اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ سب سے بڑا بیٹا جہاندار شاہ تھا‘ پھر عظیم الشان‘ رفیع الشان اور جہان شاہ کا نمبر تھا۔ جہاندار نے عظیم الشان کی فوج کو شکست دے کر اسے قتل کر دیا۔ اپنے سب سے بڑے حریف کو ٹھکانے لگانے کے بعد اس نے لاہور کی راہ لی اور لاہور پر قبضے کے بعد اپنی بادشاہت کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ لیکن ابھی تخت کے دو اور دعویدار باقی تھے اور یہ اس کے بھائی رفیع الشان اور جہان شاہ تھے۔ جہاندار شاہ نے اقتدار پر اپنی گرفت مستحکم کرنے کے لیے اپنے ان دونوں بھائیوں کو بھی قتل کرا دیا لیکن یہ سارا اہتمام کرنے کے بعد بھی اس کے اقتدار کا عرصہ ایک سال سے تجاوز نہ کر سکا۔ اس کی بڑی وجہ اقتدار پر اس کی کمزور گرفت تھی۔ وہ اپنے بااثر وزیر ذوالفقار خان پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کرتا تھا اور دوسری طرف اس کی زندگی میں عیش وعشرت کا دخل ہو چکا تھا۔ ادھر اس کے مقتول بھائی عظیم الشان کا بیٹا فرخ سیر اپنے باپ کی موت کا بدلہ لینے کیلئے بیتاب تھا۔ ایسے میں اسے سید برادران کی صورت میں وہ مدد میسر آئی جو اُسے ہندوستان کے تخت پر بٹھا سکتی تھی۔ سید برادران دو بااثر بھائی تھے؛ سید حسن علی خان اور سید حسین علی خان ہندوستان کی سیاست میں بادشاہ گر کہلانے لگے تھے۔ عظیم الشان کے بیٹے فرخ سیر نے سید برادران کی مدد چاہی اور ان کی اشیرباد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب وہ جہاندار شاہ سے مقابلے کے لیے تیار تھا۔ 1713ء میں فرخ سیر سید برادران کی مدد کے ساتھ دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ آگرہ کے مقام پر فرخ سیر اور جہاندار شاہ کی فوجیں آمنے سامنے آ گئیں۔ اس جنگ میں فرخ سیر فتح یاب ہوا۔ جہاندار شاہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ جہاندار شاہ کو دہلی لا کر عبرت کیلئے سڑکوں پر گھمایا گیا اور پھر 11 فروری 1713ء کو اسے قتل کر دیا گیا۔ اب ہندوستان پر فرخ سیر کی حکومت تھی لیکن وہ محض ایک کٹھ پتلی تھا جس کی ڈوریاں سید برادران کے ہاتھ میں تھیں۔ یہیں سے مغلیہ سلطنت کے فیصلوں میں نوابوں اور رئوسا کا دخل شروع ہوا۔ فرخ سیر کا عہدِ اقتدار چھ سال (1713 تا 1719ء) پر محیط تھا۔ ابتدا میں تو فرخ سیرسید برادران کا مطیع رہا لیکن بعد میں اس نے سلطنت کے فیصلوں میں سید برادران کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ یہ بات سید برادران کو پسند نہ آئی اور بالآخر انہوں نے فرخ سیر کو ٹھکانے لگا دیا۔
یہ فرخ سیر ہی تھا جس نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کو بنگال‘ گجرات اور حیدر آباد میں ڈیوٹی فری تجارت کی اجازت دی تھی۔ یہی وہ موڑ تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پر قبضے کے خواب دیکھنا شروع کر دیے۔ ادھر 1719ء میں فرخ سیر کے انتقال کے بعد سید برادران نے ایک اور کٹھ پتلی رفیع الدولہ (شاہجہان دوم) کو تخت پر بٹھا دیا لیکن اسی سال اسے ہٹا کر ایک اور کٹھ پتلی محمد شاہ‘ جسے تاریخ میں شاہ رنگیلا کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے‘ کو بادشاہ بنا دیا۔ محمد شاہ ایک کائیاں شخص تھا۔ اس نے یکے بعد دیگرے سید برادران کو قتل کرا دیا۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ لیکن مغلیہ سلطنت مسلسل زوال کی طرف لڑھک رہی تھی۔ دارالحکومت کی ہندوستان کے دوسرے علاقوں پر گرفت کمزور پڑتی جا رہی تھی‘ معاملات یہاں تک پہنچ گئے کہ 1724ء میں نظام الملک آصف جاہ نے حیدرآباد کی خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ تین برس بعد 1727ء میں سعادت علی خان نے اودھ کی ریاست کی خود مختاری کا اعلان کر دیا اور خود اودھ کا نواب بن گیا۔
ایک طرف مسلم حکمران مختلف علاقوں میں اپنی خود مختاری کا اعلان کر رہے تھے تو دوسری طرف مرہٹے اور سکھ بغاوت کا عَلم بلند کر رہے تھے۔ باجی رائو کی قیادت میں مرہٹے بنگال میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ انہوں نے مغلیہ سلطنت کو ٹیکس دینے سے انکار کر دیا اور پھر اپنی طاقت میں اس قدر اضافہ کر لیا کہ 1737ء میں مغلیہ سلطنت کے دارالحکومت دہلی پر لشکر کشی کی۔ مرہٹوں کو اس جنگ میں کامیابی ہوئی اس کے نتیجے میں ایک معاہدہ ہوا جس کے مطابق مالوہ کا کنٹرول مرہٹوں کے پاس آ گیا۔ اس جنگ سے مغلوں کی کمزوری اور مرہٹوں کی برتری ثابت ہو گئی۔ یہ صورتحال ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے بہت خوش کن تھی۔ وہ مغلیہ سلطنت میں پے درپے تبدیلیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ تب اچانک ہندوستان والوں کو ایک طوفان کی آمد کی اطلاع ملی۔ ایک ایسا طوفان جو اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو خس وخاشاک کی طرح بہاتے ہوئے تیزی سے دہلی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ (جاری)