میں راولپنڈی میں پیدا ہوا۔ یہیں کے تعلیمی اداروں میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور یہیں کے گلی کوچوں میں پروان چڑھا۔ میرا پرائمری سکول اور پھر ہائی سکول بھی لالکرتی راولپنڈی میں تھا۔ میں اکثر سوچتا لالکرتی بھی کیا نام ہے۔ بہت بعد میں ہمارے ایک استاد نے لالکرتی نام کا پس منظر بتایا۔ اُن دنوں ہمارے شہر راولپنڈی کے مرکز میں واقع کمپنی باغ میں میلہ ہوا کرتا تھا۔ اس میلے میں سرکس‘ جھولے‘ کھانوں اور کھلونوں کی دکانیں‘ موت کا کنواں اور جادو کے تماشے ہوتے تھے۔ لالکرتی کے نام کی طرح میں سوچتا اس باغ کا نام کمپنی باغ کیوں ہے۔ ذرا بڑا ہوا تو پتا چلا کہ ہر بڑے شہر میں ایک کمپنی باغ ہوتا تھا۔ تب مجھے تجسس ہوا کہ یہ کون سی کمپنی ہے جس کا دائرہ اختیار اتنے شہروں تک پھیلا ہوا ہے۔ بہت بعد میں ‘جب میں گورڈن کالج میں پڑھتا تھا تب میرا تعارف باری علیگ کی کتاب ''کمپنی کی حکومت‘‘ سے ہوا۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد مجھے کمپنی کا اصل چہرہ دیکھنے کا موقع ملا اور معلوم ہوا کہ ''کمپنی‘‘ دراصل ایسٹ انڈیا کمپنی کا مختصر نام ہے۔ جو کہنے کو تو ایک تجارتی کمپنی تھی لیکن اس نے سیاست میں براہِ راست دخل اندازی کی اور ایک طویل عرصے تک ہندوستان پر حکمرانی کی۔ ایک زمانہ تھا کہ ہندوستان کے طول وعرض میں اس کمپنی کا بول بالا تھا اور اسے ''کمپنی بہادر‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ایک سوال اکثر میرے ذہن میں ابھرتا تھا کہ لندن کی ایک تجارتی کمپنی نے کس طرح ہندوستان کو نہ صرف تسخیر کیا بلکہ طویل عرصے تک اس پر حکمرانی بھی کی۔ معروف روسی ادیب ٹالسٹائی نے بھی اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ کیسے ایک تجارتی کمپنی نے کروڑوں عوام کی قوم کو غلام بنا لیا۔ اس سوال کا جواب دینے کیلئے بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ کچھ کتابیں مغربی مصنفین نے لکھیں جن میں فرنگی نقطہ نظر کو پیش کیا گیا‘ کچھ مقامی کتابیں ایسٹ انڈیا کے حوالے سے لکھی گئیں جن میں اکثر تحقیقی اصولوں کو مدِنظر رکھنے کے بجائے محض جذبات کا سہارا لیا گیا۔
دلچسپ بات یہ کہ ''کمپنی کی حکومت‘‘ کے مصنف باری علیگ نے کتاب کے تیسرے ایڈیشن میں خود یہ اعتراف کیا کہ ''کمپنی کی حکومت کے پہلے ایڈیشن کا اندازِ تحریر یکطرفہ اور طریقۂ تنقید منتقمانہ تھا۔ منطق کم اور لفاظی زیادہ‘‘۔ کچھ عرصہ قبل برطانوی تاریخ نویس ولیم ڈالرمپل (William Dalrimple) کی کتاب The Anarchy شائع ہوئی جس میں بہت سے تاریخی ذرائع کی مدد سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی روداد قلمبند کی گئی ہے۔ اس کتاب کے کچھ حصوں میں بھی تعصب کا رنگ جھلکتا ہے۔ کمپنی بہادر کے بارے میں جاننے کیلئے میں نے کئی کتابوں‘ مضامین اور مسودات کا مطالعہ کیا جن سے مجھے اپنے ابتدائی سوال کا جواب تلاش کرنے میں مدد ملی کہ ایک تجارتی کمپنی جس کے ابتدائی ارکان کی تعداد سینکڑوں میں تھی‘ کس طرح ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کو غلام بنانے میں کامیاب ہوئی۔
کمپنی بہادر کی کہانی کی ابتدا 31 دسمبر 1600ء کو ہوئی جب ملکہ الزبتھ اوّل کے ایک شاہی فرمان کے ذریعے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام عمل میں آیا۔ اس فرمان کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کو مکمل اجارہ داری دی گئی کہ وہ انگلستان کی واحد کمپنی کے طور پر مشرقی ہندوستان میں تجارت کر سکتی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھنے والے ابتدائی ارکان کی تعداد 218تھی۔ یہ انگلستان کے بااثر تاجر تھے جنہوں نے شاہی دربار سے یہ فرمان جاری کرایا تھا۔ اس زمانے میں ہندوستان میں مسالا جات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور نیل کی بھی بہتات تھی۔ 1608ء میں پہلا بحری جہاز ولیم ہاکنز کی سرکردگی میں ہندوستان روانہ کیا۔ یہ جہاز سورت کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ اس زمانے میں ہندوستان پر مغل بادشاہ جہانگیر کی حکومت تھی۔ یاد رہے کہ جہانگیر کا دورِ حکمرانی 1605ء سے 1627ء تک محیط تھا۔ جہانگیر شہنشاہ اکبر کا بیٹا تھا جسے ایک وسیع‘ مضبوط اور خوشحال سلطنت ورثے میں ملی تھی۔ ولیم ہاکنز کی کوشش تھی کہ کسی طور اسے شاہی دربار تک رسائی مل جائے تاکہ وہ شہنشاہ سے ہندوستان میں تجارت اور فیکٹری کے قیام کی اجازت حاصل کر سکے لیکن دربار تک رسائی اتنی آسان نہیں تھی۔ اس تگ ودو میں ایک برس بیت گیا‘ تب کہیں اسے دربار تک رسائی ملی۔ ہاکنز نے اس دن کیلئے طویل انتظار کیا تھا۔ اس نے بادشاہ سے ملاقات کیلئے ترکی زبان بھی سیکھی تھی۔ اس روز وہ افغانی لباس زیب تن کر کے شاہی دربار میں حاضر ہوا۔ جہانگیر نے اس سے مختصر سی ملاقات کی اور اسے رخصت کر دیا۔ ہاکنز اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو سکا۔
تب انگلستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارپردازوں نے بادشاہ جیمز سے ملاقات کی اور یہ درخواست کی کہ حکومتی سطح کا کوئی نمائندہ ہندوستان بھیجا جائے تاکہ وہ شہنشاہ جہانگیر سے ملاقات کرے اور اس سے ہندوستان میں تجارت کا باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کرے۔ بادشاہ کی اجازت سے اس بار ایک جہاندیدہ سفارتکار Sir Thomas Roe کا انتخاب کیا گیا‘ جسے سیاست اور سفارتکاری کا وسیع تجربہ تھا۔ اس دفعہ ایسٹ انڈیا کمپنی مکمل تیاری سے مغل بادشاہ پر جال پھینکنا چاہتی تھی اور اس کیلئے تھامس رو سے بہتر کوئی شخص نہ تھا۔ یہ 1615ء کا سال تھاجب سر تھامس رو ہندوستان پہنچا۔ وہ جانتا تھا کہ ڈپلومیسی میں صبر سے کام لینا ہوتا ہے۔ وہ تین سال تک جہانگیر کے دربار میں رہا۔ بالآخر وہ شہنشاہ جہانگیر سے یہ اجازت لینے میں کامیاب ہو گیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی سورت کے مقام پر فیکٹری تعمیر کر لے۔ مغل بادشاہ کی اجازت کمپنی بہادر کیلئے کامیابی کا پہلا قدم تھا۔ یہ سب کچھ تھامس رو کی جہاندیدہ شخصیت اور سفارتکاری کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ اسے یہ علم تھا کہ جو بٹن ہاتھوں سے کھل سکتے ہیں انہیں دانتوں سے کھولنے کی ضرورت نہیں۔ یہی بات انگلستان واپس آکر اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لوگوں سے کہی کہ ہندوستان میں ہمیں تجارت کا اجازت نامہ مل گیا ہے‘ اب ہمیں خود کو تجارت تک محدود رکھنا چاہیے اور خواہ مخواہ کی جنگی محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہیے۔ اگلے کچھ ہی عرصے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے مختلف مقامات پر تین فیکٹریاں قائم کر لیں۔ یوں کمپنی تجارت کے ذریعے بے تحاشا منافع کمانے لگی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے دولت کو اپنی طاقت بنایا اور انگلستان کے پارلیمان کو بھی اپنے دائرہ اثر میں لے لیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان کے تجارتی میدان میں قدم جمائے اب کافی عرصہ گزر چکا تھا۔ دولت کی چکا چوند نے انہیں ضرورت سے زیادہ پُراعتماد اور نڈر بنا دیا تھا۔ کمپنی کی غیر ذمہ دارانہ سرگرمیاں اب عام ہونے لگی تھیں اور یہ سب کچھ کمپنی کے 1681ء میں بننے والے گورنر سر چائلڈ کے ایما پر ہو رہا تھا جو ایک اکھڑ شخص تھا اور طاقت کو ہر مسئلے کا حل سمجھتا تھا۔ وہ بنگال کے نواب کے احکامات کو بھی خاطر میں نہ لاتا تھا۔ اس کی ناپسندیدہ سرگرمیوں کی اطلاع جب بنگال کے نواب شائستہ خان تک پہنچی تو اس نے مغل بادشاہ کو ایک خط کے ذریعے صورتحال سے آگاہ کیا۔ یہ 1686ء کا سال تھا۔ اس وقت ہندوستان کا حکمران اورنگزیب تھا۔ اورنگزیب ایک سخت گیر بادشاہ تھا جو 1658ء سے 1707ء تک ہندوستان کا حکمران رہا۔ جب بنگال کے گورنر شائستہ خان کا خط اورنگزیب تک پہنچا تو اس کا غصہ انتہائوں کو چھونے لگا۔ ادھر سر چائلڈ نے اظہارِ ندامت کے بجائے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور انگلستان کو فوجی مدد بھیجنے کیلئے درخواست دے دی۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا مغل سلطنت سے پہلا براہِ راست ٹکرائو تھا۔ سر چائلڈ کی درخواست پر انگلستان سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد کیلئے فوجی اور اسلحہ ہندوستان پہنچ گیا تھا۔ اس اسلحے میں توپیں بھی شامل تھیں۔ برطانوی بحری جہازوں نے مغلوں کی بندرگاہوں کا محاصرہ کر لیا۔ اب اورنگزیب کا صبر جواب دے گیا اور اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔ (جاری)