"SSC" (space) message & send to 7575

کمپنی بہادر: تجارت‘ سیاست اور حکومت … (5)

ہندوستان کی تاریخ میں 1746ء کا سال بہت اہم ہے۔ اس سال ایسٹ انڈیا کمپنی اور فرانسیسیوں کے درمیاں کرناٹک کی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ جنگیں ہندوستان میں تجارت پر بالا دستی کی جنگیں تھیں۔ کرناٹک کی پہلی جنگ کا آغاز 1746ء میں ہوا۔ یہ وہی سال تھا جب انگلستان سے ایک 19سالہ نوجوان ہندوستان پہنچا جس کا نام رابرٹ کلائیو تھا۔ اس کے انگلستان سے ہندوستان آنے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ کہتے ہیں اس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا۔ آئے دن وہ محلے میں لوگوں سے اُلجھتا رہتا تھا۔ اس کے جھگڑوں کی خبریں اس کے والد تک پہنچتیں تو وہ پریشان ہو جاتے۔ تب ایک دن اُس کے والد کے ذہن میں ایک خیال آیا اور انہوں نے اپنے ایک جاننے والے کی مدد سے بیٹے کو ایسٹ انڈیا کمپنی میں ایک معمولی سی ملازمت دلا دی جہاں اس کا عہدہ جونیئر کلرک کا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ملازمت میں مصروف ہو کر کلائیو کے لڑائی جھگڑوں میں کمی آجائے گی۔ اتفاق دیکھیے کہ چند ماہ بعد ہی ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلائیو کو ہندوستان بھیج دیا۔ ابتدائی طور پر اُسے مدراس بھیجا گیا۔
کیسا اتفاق تھا کہ اسی سال 21ستمبر 1746ء کو Bourdonnais کی زیر قیادت فرانسیسیوں نے مدراس پر حملہ کیا اور مختصر لڑائی کے بعد شہر پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت انوارالدین مدراس کا نواب تھا جسے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حمایت حاصل تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مدراس کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے حملہ کیا۔ اُس کی فوج کی تعداد دس ہزار تھی لیکن اُسے فرانسیسیوں کے مقابلے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ کے خاتمے پر 1748ء میں ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے مطابق انگلستان نے شمالی امریکہ میں ایک علاقہ فرانس کے سپرد کر دیا اور اُس کے بدلے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو مدراس کا کنٹرول واپس کر دیا گیا۔ فرانسیسیوں کے درمیان جاری چپقلش پہلی کرناٹک جنگ کے بعد ختم نہ ہوئی بلکہ اس میں مزید شدت آ گئی۔
کرناٹک کی پہلی جنگ میں رابرٹ کلائیو مدراس میں تھا۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ایک معمولی کلرک تھا اور حال ہی میں انگلستان سے مدراس آیا تھا۔ مدراس پر حملے کے دوران فرانسیسی فوج جب ایسٹ انڈیا کمپنی سے منسلک افراد کو گرفتار کر رہی تھی تو رابرٹ کلائیو نے بھیس بدلا اور جان ہتھیلی پر رکھ کر سینٹ ڈیوڈ فورٹ تک پہنچ گیا۔ اُسے پہلی بار کسی جنگ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ سینٹ ڈیوڈ فورٹ پہنچ کر اُس نے فیصلہ کیا کہ کمپنی کے جونیئر کلرک کے عہدے کے بجائے فوج کا حصہ بننا چاہیے کیونکہ جنگ اس کے مزاج سے قریب تر تھی۔ کرناٹک کی پہلی جنگ میں اگرچہ رابر ٹ کلائیو کا براہِ راست کردار نہیں تھا لیکن اس کا مشکل حالات میں سینٹ ڈیوڈ فورٹ پہنچنا اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانا اس کے ساتھیوں کیلئے متاثر کن تھا۔ یوں لگتا تھا قدرت اسے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے مواقع فراہم کر رہی تھی۔
کرناٹک کی دوسری جنگ 1749ء میں شروع ہوئی اور 1754ء تک جاری رہی۔ اس جنگ کا پس منظر یہ تھا کہ حیدر آباد اور کرناٹک کی وراثت کی جنگوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور فرانسیسی اپنے اپنے حمایت یافتہ افراد کو اقتدار دلوانا چاہتے تھے۔ فرانسیسی مظفر جنگ کی حمایت کر رہے تھے جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا حمایت یافتہ امیدوار ناصر جنگ تھا۔ فرانسیسیوں اور مظفر جنگ کی فوجوں نے ایسٹ انڈیا کے حمایت یافتہ امیدوار ناصر جنگ کو شکست دے دی۔ اور یوں فرانسیسیوں نے مظفر جنگ کو حیدر آباد کا نواب بنا دیا۔ اگلے ہی سال فرانسیسیوں نے اپنے حمایت یافتہ امیدوار چندا صاحب سے مل کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے حمایت یافتہ امیدوار انوار الدین کو شکست دی اور اُسے قتل کر دیا۔ یوں فرانسیسی حمایت یافتہ چندا صاحب کرناٹک کا نواب بن گیا۔ یہ فرانسیسی افواج کی واضح برتری تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کیلئے یہ صورتحال پریشان کن تھی لیکن وہ مناسب موقع کی تلاش میں تھے۔ یہ موقع 1751ء میں آ گیا جب را برٹ کلائیو نے صرف 200 انگریز اور 300 ہندوستانی سپاہیوں کے ہمراہ ارکاٹ (Arcot) کے قلعے پر حملہ کرکے اُس پر قبضہ کر لیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نواب محمد علی اور فرانسیسی چندا صاحب کی حمایت کر رہے تھے۔ فرانسیسیوں نے قلعے کا محاصرہ کر لیا لیکن رابرٹ کلائیو نے بہت کم نفری کے باوجود قلعے کا طویل عرصے تک کامیاب دفاع کیا۔ اس کے بعد رابرٹ کلائیو نے ارنی (Arni) اور ٹرکنوپولی (Trichnopoly) پر حملہ کیا اور فرانسیسیوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اس جنگ میں چندا صاحب کو قتل کر دیا گیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے محمد علی کو نواب کی مسند پر بٹھا دیا۔ اس فتح سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے پورے علاقے میں اپنی بالا دستی ثابت کر دی۔ کرناٹک کی دوسری جنگ 1754ء میں اختتام کو پہنچی جس کے نتیجے میں معاہدۂ پانڈی چری (Treaty of Pondicherry) کیا گیا جس کے تحت مفتوحہ علاقے تو واپس کر دیے گئے لیکن فرانسیسی افواج کو خفت اٹھانا پڑی اور اُن کی علاقائی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ۔اس معاہدے کے بعد فرانسیسی جنرل Joseph François Dupleixکے توسیعی عزائم کا خاتمہ ہو گیا اور اُسے واپس فرانس بلا لیا گیا اور اس کی جگہ گوڈیو (Godeheu) کو مقرر کر دیا گیا۔ اس معاہدے کی ایک شرط یہ تھی کہ طرفین ہندوستان کی داخلی سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے‘ لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی بہت جلد اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والی تھی۔
آئیے اب بنگال کا رُخ کرتے ہیں جہاں علی وردی نواب ذوالفقار علی خاں کی جگہ بنگال کا نواب بن گیا تھا۔ اپنے دورِ حکومت میں علی وردی نے بہت سی اصلاحات کیں اور انتظامی ڈھانچے کو مضبوط کیا جس سے امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے نئی مالی پالیسیاں نافذ کیں اور بنگال کو معاشی طور پر مستحکم بنا دیا۔ اس طرح علی وردی کے دورِ حکومت میں بنگال صنعت و تجارت کا اہم مرکز بن گیا۔ اُس نے ٹیکسٹائل کی صنعت پر خاص توجہ دی جس نے بنگال کی معیشت کی بہتری میں مرکزی کردار ادا کیا۔ دفاع اور معیشت کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ علی وردی نے ثقافت کے میدان میں موسیقی اور ادب کی ترویج کیلئے بھی کوششیں کیں اور بنگال میں مسجدیں اور کئی عمارات تعمیر کرائیں۔
علی وردی ایک قابل اور ذہین حکمران تھا۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے باخبر تھا۔ اُس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے بڑھتے ہوئے تجارتی اور سیاسی کنٹرول کے پیشِ نظر سخت اقدام کا فیصلہ کر لیا۔ علی وردی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو قلعہ بندیوں سے روک دیا اور ان کی تجارتی سرگرمیوں پر ٹیکس نافذ کر دیے‘لیکن وہ یہ سب کچھ بڑے محتاط طریقے سے کر رہا تھا تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ لیکن اب علی وردی بوڑھا ہو گیا تھا اور اس کی توانائیاں ماند پڑنے لگی تھیں۔ وہ تنہائی کے لمحوں میں اکثر سوچتا تھا کہ اُس کے تخت کا وارث کون ہو گا۔ اس کی تین بیٹیاں تھیں‘ کوئی بیٹا نہ تھا جو اُس کے تخت کا وارث ہوتا۔ تب ایک دن اچانک اُس کے ذہن کے پردے پر ایک چہرہ اُبھرا اور اُس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ پھیل گئی۔ اُسے اپنا جانشین مل گیا تھا۔ ادھر ایسٹ انڈیا کمپنی بھی مسلسل اس ٹوہ میں تھی کہ علی وردی کا جانشین کون ہو گا۔ انہیں یقین تھا کہ چونکہ علی وردی کا اپنا کوئی بیٹا نہیں‘ وہ ضرور اپنے داماد نوازش خان کو جانشین بنائے گا۔ یہ سوچ کر انہوں پہلے سے ہی نوازش خان کو شیشے میں اُتارنے کا کام شروع کر دیا تھا۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جہاں دیدہ بوڑھے علی وردی نے اپنی موت سے چار سال پہلے 1752ء میں ایک ایسے شخص کو جانشین بنانے کا اعلان کیا جس کا نام سنتے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔(جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں