"SSC" (space) message & send to 7575

کمپنی بہادر: تجارت‘ سیاست اور حکومت …(4)

دہلی میں محمد شاہ رنگیلا عیش وطرب کی محفلوں میں گم تھا اور دوسری طرف ایک طوفانِ بلا خیز دہلی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ نادر شاہ تھا جو ایران کا حکمران اور جرنیل تھا۔ وہ صفوی سلطنت کے زوال کے بعد 1736ء میں تخت نشین ہوا تھا۔ افشاری قبیلے سے تعلق رکھنے والا نادر شاہ جنگی حکمتِ عملی کا ماہر تھا۔ اس نے مختصر عرصے میں عثمانی‘ روسی اور ازبک فوجوں کو شکست دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے تاریخ میں ایران کے نپولین کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ایران میں اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد اس نے ہندوستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نادر شاہ کے ہندوستان پر حملے کی کئی وجوہات تھیں۔ سب سے بڑی وجہ تو مغلیہ سلطنت کے اندرونی اختلافات تھے۔ وراثت کی جنگیں جاری تھیں اور مغلیہ دربار سازشوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ نااہل حکمران مقامی نوابوں اور رئوسا کی کٹھ پتلیاں بن چکے تھے۔ کرپشن ایک معمول کی بات تھی۔ یہ صورتِ حال کسی بھی بیرونی حملہ آور کے ہندوستان پر حملہ کرنے کیلئے ایک سنہری موقع تھی۔
ہندوستان پر حملے کی ایک اور وجہ یہاں کی دولت تھی۔ ہندوستان کی دولت کا ارتکاز دارالحکومت دہلی میں تھا جہاں سلطنتِ مغلیہ کا خزانہ تھا۔ نادر شاہ چونکہ وسطی ایشیا اور ایران میں کئی جنگوں میں مصروف تھا لہٰذا اسے فوجی وسائل میں اضافے کے لیے مالی وسائل کی ضرورت تھی اور مالی وسائل کے حصول کے لیے دہلی سے بہتر کوئی جگہ نہ تھی۔ دہلی پر حملے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس وقت کے مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا نے نادر شاہ کے باغیوں کو اپنے پاس پناہ دی ہوئی تھی۔ جب نادر شاہ نے باغیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تو محمد شاہ نے صاف انکار کر دیا۔ اس پر نادر شاہ نے مغلیہ سلطنت کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن سب سے بڑھ کر‘ نادر شاہ اپنی سلطنت کو مضبوط اور مستحکم کرنا چاہتا تھا اور وہ ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھ رہا تھا جس کا اثر ونفوذ ہمسایہ ریاستوں پر ہو۔ ہندوستان پر حملہ اسی خواب کی تکمیل کا حصہ تھا۔
نادر شاہ کے ہندوستان پر حملے میں مغلیہ سلطنت کی ڈپلومیسی کے میدان میں ناکامی بھی شامل تھی۔ مغلوں نے نادر شاہ کی طاقت کا درست اندازہ نہیں لگایا تھا ورنہ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جا سکتا تھا۔ یہ 1738ء کا سال تھا جب نادر شاہ اپنی فوج کے ہمراہ نکلا اور افغانستان سے ہوتے ہوئے اس نے دریائے سندھ عبور کیا۔ راستے میں اسے کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا کیونکہ ان علاقوں میں مغلوں کا دفاع مضبوط نہ تھا۔ آخر اس کی فوج کرنال کے مقام پر پہنچی۔
یہ 24 فروری 1739ء کا دن تھا۔ کرنال دہلی سے 120 کلومیٹر دور‘ شمال میں واقع ہے۔ محمد شاہ نے اپنی فوج کے ہمراہ کرنال کے مقام پر نادر شاہ سے مقابلے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ ایک یکطرفہ مقابلہ تھا کیونکہ اس جنگ کا فیصلہ دنوں اور مہینوں میں نہیں بلکہ چند گھنٹوں میں ہی ہو گیا تھا۔ مغل بادشاہ محمد شاہ کی فوج کو شکست ہوئی اور اس کے ہزاروں سپاہی اس لڑائی میں مارے گئے۔ محمد شاہ کو قیدی بنا لیا گیا۔
کرنال کے مقام پر محمد شاہ کی فوجوں کو شکست دینے کے بعد نادر شاہ نے دہلی کا رخ کیا۔ یہ دہلی کی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش دن تھا جب نادر شاہ کی فوجوں نے یہاں لوٹ مار کا بازار گرم کیا اور راستے میں آنے والے مرد‘ عورت اور بچے ان کی تلواروں کا نشانہ بن گئے۔ شہر میں خون اور آگ کی ہولی کھیلی جا رہی تھی اور نادر شاہ کی فوجیں لوٹ مار میں مصروف تھیں۔ لوٹ مار کے اس عمل میں دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی تھی۔ اس لوٹ مار میں مغل بادشاہ کا تختِ طائوس اور کوہِ نور ہیرے کو بھی قبضے میں لے لیا گیا۔ دہلی کو دنوں اور مہینوں تک تاراج کرنے کے بعد نادر شاہ نے محمد شاہ کو دوبارہ تخت پر بٹھا دیا اور بھاری خزانے‘ کوہِ نور ہیرے اور تخت طائوس کے ہمراہ دہلی سے اپنے ملک ایران کی طرف روانہ ہو گیا۔ محمد شاہ اب بھی دہلی کے تخت پر براجمان تھا لیکن وہ ایک انتہائی کمزور اور بے وقار بادشاہ تھا۔ نادر شاہ کے اس حملے اور محمد شاہ رنگیلا کی شکست اور دہلی کی تباہی کے دور رس معاشی اور سیاسی اثرات مرتب ہوئے۔ معاشی اثرات سب سے گہرے تھے۔ ہندوستان کا خزانہ خالی ہو چکا تھا۔ لوگوں کی ذاتی املاک بھی لٹ چکی تھیں۔ یوں ہندوستان جو کبھی ایک امیر ملک تھا‘ اب معاشی طور پر مفلوج ہو چکا تھا۔ سیاسی لحاظ سے مغلیہ سلطنت جو پہلے ہی کمزور تھی‘ نادر شاہ کے حملے اور محمد شاہ رنگیلا کی شکست کے بعد مزید شکست وریخت کا شکار ہو گئی۔ مرکزی حکومت کے اختیار میں کمی آ گئی تھی اور اس خلا کو پُر کرنے کے لیے مرہٹے‘ سکھ اور راجپوت سرگرم ہو گئے تھے۔ دوسرے لفظوں میں مغلیہ سلطنت کے زوال کا اب آخری دور شروع ہو چکا تھا۔ مغل بادشاہ کی گرفت صوبوں پر کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ حیدر آباد‘ اودھ اور بنگال خود مختار ریاستیں بن گئی تھیں۔ مرکزی حکومت کمزور تر ہو گئی تھی جسے مقامی رئوسا اور نواب چلا رہے تھے۔ نادر شاہ کے حملے نے مغل طاقت کا طلسم توڑ دیا تھا اور اردگرد کے بیرونی حملہ آوروں کو یہ پتا چل گیا تھا کہ ہندوستان ناقابلِ تسخیر نہیں ہے۔ اسی لیے بعد میں مزید حملہ آوروں نے بھی ہندوستان پر حملے شروع کر دیے۔
اب ہم محمد شاہ کی دہلی سے بنگال کا رُخ کرتے ہیں‘ جہاں علی وردی خان نواب بن چکا تھا۔ علی وردی خان بنگال کے نواب شجاع الدین کی فوج میں ایک کمانڈر تھا۔ یہ 1740ء کی بات ہے جب علی وردی خان نے اس وقت کے نواب سرفراز کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور اسے شکست دے کر بنگال کا نواب بن گیا۔ اس فتح میں اسے مقامی بااثر جگت سیٹھ خاندان کی حمایت حاصل تھی۔ یہ خاندان بینکاری کے لیے جانا جاتا تھا اور حکومتیں بنانا اور گرانا اس کا مشغلہ تھا۔ اس سارے کھیل میں ان کا مرکزی ہدف اپنا معاشی مفاد ہوتا تھا۔ علی وردی خان کو نواب بنانے میں جگت سیٹھ خاندان کا اہم کردار تھا۔ علی وردی خان کو اپنے دورِ حکومت میں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سب سے بڑا چیلنج مرہٹوں کے مسلسل حملے تھے‘ جن کا اس نے کامیابی سے دفاع کیا۔ آخرکار اس نے اس کا ایک مستقل حل سوچ لیا۔ اس نے مرہٹوں کو کچھ علاقہ اور خراج دے کر ایک امن معاہدہ کر لیا اور یوں بنگال کو آئے روز کے حملوں سے محفوظ بنا لیا گیا۔
اس ساری صورتحال کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارپرداز بڑے غور اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ انہیں مغلیہ حکومت سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ان کی پوری توجہ اپنے مفاد پر تھی۔ نادر شاہ کے حملے کے بعد مغلیہ سلطنت کے حصے بخرے ہو گئے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے یہ صورتحال ان کے معاشی اور سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے سودمند تھی۔ اب ان کے لیے کمزور مغل بادشاہ سے مزید مراعات حاصل کرنا آسان ہو گیا تھا۔ نادر شاہ کے حملے کے بعد ہندوستان کی سیاست میں ایک خلا آ گیا تھا۔ ایسے میں ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے مفاد کے حصول کے لیے کسی طاقت کی حمایت اور کسی کی مخالفت کے اصول پر کارفرما تھی۔ یہ ساری صورتحال ان کے خواب کی تعبیر کے قریب تھی۔ ہندوستان میں انگریزی تسلط کی راہ ہموار ہو چکی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو مغلیہ سلطنت کی طرف سے تو اطمینان ہو گیا تھا لیکن ایک اور محاذ ابھی تک کھلا تھا۔ یہ کوئی مقامی طاقت نہیں تھی بلکہ فرانس کی ایسٹ انڈیا کمپنی تھی‘ جو ہندوستان میں تجارت پر اپنا قبضہ چاہتی تھی۔ انگریز اور فرانسیسی تاجر کمپنیاں ہندوستان کی سرزمین پر ایک دوسرے سے نبرد آزما تھیں۔ یہ چپقلش آگے جا کر باقاعدہ جنگ میں بدلنے والی تھی۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں