ایسٹ انڈیا کمپنی کے سر چائلڈ (Josiah Child) کے اعتماد کی ایک وجہ کمپنی کی تربیت یافتہ افواج اور جدید اسلحہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے مغلوں کے ساتھ ٹکرانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی دوسری وجہ مختلف علاقوں سے مغلیہ سلطنت کے خلاف اٹھنے والی بغاوت کی آوازیں تھیں لیکن مغل بادشاہ اورنگزیب کے لیے جنگی مہمات معمول کی بات تھیں۔ سر چائلڈ پر فوج کشی سے ذرا پہلے وہ گولکنڈہ اور اودھ کی فوجوں کو شکست دے کر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر چکا تھا۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور مغلوں کے مابین پہلا معرکہ تھا جس کی ذمہ دار ایسٹ انڈیا کمپنی تھی جس نے اپنی تجارتی سرگرمیوں کو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پھیلانا شروع کر دیا تھا۔ یہ صورتحال بنگال کے نواب اور مغلیہ سلطنت کیلئے ناقابلِ قبول تھی۔ انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے تجارتی مراعات پر نظرِ ثانی کی تاکہ کمپنی کی سرگرمیوں کو حدود میں رکھا جائے۔ سر چائلڈ نے نئی صورتحال کو قبول کرنے کے بجائے طاقت کے استعمال کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے مغلوں کے زیرِ تسلط بندرگاہوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ یہ صورتحال مغلیہ سلطنت کی رِٹ اور خود مختاری کیلئے ایک چیلنج تھی۔
یہ 1686ء کا سال تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج نے بنگال میں ہگلی پر حملے کا آغاز کیا۔ اس پر بنگال کے گورنر شائستہ خان نے جوابی حملہ کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے تجارتی مرکز قاسم بازار پر قبضہ کر لیا۔ ادھر ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں نے بمبئی اور سورت کی بندرگاہوں پر فوج کشی کر دی۔ یہی وہ موقع تھا جب اورنگزیب نے فیصلہ کن حملے کا حکم دیا۔ یہ ایک بھرپور حملہ تھا جس کا جواب ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس نہیں تھا۔ مغل فوجوں نے بمبئی پر قبضہ کر لیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی قائم کردہ فیکٹریوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ سر چائلڈ کو اب احساس ہوا کہ اس نے مغلیہ سلطنت کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا تھا۔ میدانِ جنگ میں شکست کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے معافی کی درخواست کی۔ اورنگزیب نے فوری طور پر اس درخواست پر کوئی توجہ نہ دی۔ وہ چاہتا تھا کہ کچھ عرصے تک ایسٹ انڈیا کمپنی کو معافی نہ دی جائے تاکہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو۔ یہ اینگلو مغل جنگ 1686ء سے 1689ء تک جاری رہی۔ جنگ کا اختتام مغلوں کی فیصلہ کن کامیابی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکست پر ہوا تھا۔ صلح کے لیے اورنگزیب نے کڑی شرائط عائد کیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس ان شرائط کو ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ ان شرائط کے مطابق:
1۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو اپنے جارحانہ طرزِ عمل کا ہرجانہ ادا کرنا ہو گا۔
2۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو مغل بادشاہ اورنگزیب سے باضابطہ معافی مانگنا ہو گی۔
3۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو مغلیہ سلطنت کی اتھارٹی کو تسلیم کرنا ہوگا اور شاہی فرمان کے تحت کام کرنے پر رضامند ہونا ہو گا۔
4۔ انگریزوں کو تجارتی سرگرمیوں کی اجازت ہو گی لیکن ان سرگرمیوں پر مغلیہ سلطنت کی کڑی نگرانی ہو گی۔
اس جنگ کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے جارحانہ طرزِ عمل پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے بظاہر سفارت کاری کا طریقہ اپنایا لیکن خاموشی سے اپنی قلعہ بندی کو مضبوط بنانے اور فوجی وسائل میں اضافے پر کام شروع کر دیا تاکہ مستقبل میں مغلوں کے ساتھ ہونے والے معرکے کی مکمل تیاری کی جائے۔ اس جنگ کے خاتمے پر بظاہر تو امن قائم ہو گیا لیکن حالات پر نظر رکھنے والوں کو اس بات کا علم تھا کہ یہ جنگ یہاں رکنے والی نہیں‘ مستقبل میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور مغلیہ سلطنت میں جنگ ناگزیر ہے۔ جنگ میں شکست کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے بظاہر سفارتکاری کا لبادہ اوڑھ لیا لیکن درپردہ اس نے ساری کوششیں دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے پر صرف کر دیں۔
کہانی میں آگے بڑھنے سے پہلے آئیے اس وقت کے ہندوستان کے منظرنامے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ سترہویں صدی کے ہندوستان میں بیشتر حصوں پر مغلوں کی حکومت تھی۔ انہوں نے اپنی سلطنت کو مختلف صوبوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ دہلی کا صوبہ مغلیہ سلطنت کا دارالحکومت تھا جبکہ آگرہ انتظامی امور کا مرکز تھا۔ لاہور مغلیہ سلطنت کا اہم صوبہ تھا۔ بنگال کا صوبہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز اور ہندوستان کا امیر ترین صوبہ تھا۔ گجرات کا صوبہ بھی تجارتی سرگرمیوں کا ایک اہم مرکز تھا۔ بہار کا صوبہ سلطنت کا زرعی مرکز تھا۔ اودھ کا صوبہ ثقافتی سرگرمیوں کی آماجگاہ تھا۔ کشمیر کا صوبہ ایک طرف قدرتی خوبصورتی سے بھرپور تھا اور دوسری طرف اس کی سٹرٹیجک اہمیت تھی۔ جنوب میں واقع دکن کا صوبہ بھی مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا لیکن کئی طاقتیں یہاں حکمرانی کی دعویدار تھیں۔ اورنگزیب کے دورِ حکومت میں صوبوں کی تعداد بائیس تک پہنچ چکی تھی۔ مغلیہ سلطنت کے علاوہ ہندوستان میں کئی خودمختار قوتیں تھیں۔ ان میں سب سے اہم تو مرہٹے تھے۔ دوسری طرف راجپوت تھے‘ جو جے پور‘ جودھ پور اور اُودے پور میں نیم خودمختار ریاستوں کے حکمران تھے۔ اسی طرح گولکنڈہ اور بیجاپور کی ریاستیں تھیں۔ آسام‘ میسور‘ مالابار اور گوا کے علاقے بھی خود مختاری کا دعویٰ کرتے تھے۔ دوسری طرف سکھ ایک طاقت کے طور پر اُبھر چکے تھے۔ سترہویں صدی میں جہانگیر‘ شاہجہاں اور اورنگزیب کے ادوار میں مغلیہ سلطنت کی وسعت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اورنگزیب کا زمانہ عہدِ مغلیہ کے عروج کا زمانہ تھا۔
اب اٹھارہویں صدی کا آغاز ہو چکا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی سر چائلڈ کی شکست کے بعد بظاہر خاموش ہو گئی تھی لیکن درونِ خانہ کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھی۔ اسی دوران ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک اعلیٰ عہدیدار چرنوک نے کلکتہ شہر کی بنیاد رکھی۔ یہ بظاہر ایک عام سی آبادی کا آغاز تھا لیکن بعد میں یہ شہر انگریزوں کا ایک مضبوط مرکز بن گیا۔ یہ وہی سال تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی اور سلطنت مغلیہ کی چار برس پر محیط جنگ اختتام کو پہنچی تھی۔
کہانی میں آنے والے واقعات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بنگال کی صورتحال اور اس کی مختصر تاریخ پر ایک نظر ڈالیں۔ بادشاہ اکبر کے زمانے میں بنگال کا گورنر مان سنگھ تھا جو شہنشاہ اکبر کی فوج کا ایک راجپوت جنرل تھا۔ مان سنگھ کا دورِ حکومت 1595ء سے 1600ء تک رہا۔ اس دوران مان سنگھ نے بنگال میں سلطنتِ مغلیہ کے تسلط کو مضبوط بنایا۔ مان سنگھ کے بعد اسلام خان اوّل نے بطور گورنر بنگال کا اقتدار سنبھالا۔ اسلام خان اوّل نے ڈھاکہ کو بنگال کا دارالحکومت بنایا۔ اسلام خان کے دورِ حکومت میں مقامی بغاوتوں نے سر اٹھایا لیکن اس نے برمی اور افغان بغاوتوں کا سر کچل دیا۔ اسلام خان کا دور 1606ء سے 1613ء تک پھیلاہوا تھا۔ اب شائستہ خان کی حکومت آئی۔ یہ اورنگزیب کا عہد تھا جب بنگال میں شائستہ خان کی حکومت تھی۔ کہتے ہیں شائستہ خان ایک قابل اور کامیاب حکمران تھا۔ اس نے اپنے دورِ حکومت میں برمیوں کو شکست دی اور مغلیہ سلطنت کو مزید وسعت دی۔ اس کے ساتھ ساتھ تجارت اور تعمیر وترقی پر بھی زور دیا۔
وقتی طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے جارحانہ پالیسی سے اجتناب کر لیا تھا اور مغلوں کی سلطنت خوشحال‘ وسیع اور مستحکم تھی۔ اٹھارہویں صدی کا آغاز ہو چکا تھا۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ یہ 1707ء کا سال تھا جب اورنگزیب تقریباً پچاس سال کی حکمرانی کے بعد انتقال کر گیا۔ ملک بھر میں ماتم کی فضا تھی لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے یہ ایک خوش کن خبر تھی کیونکہ ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور ہو چکی تھی۔ ہندوستان میں تاریخ کا دھارا ایک نیا رخ لینے والا تھا۔ (جاری)