آج ''آسماں در آسماں‘‘ چھپ کر سامنے آئی تو مجھے کئی سال پہلے لاہور میں ستمبر کی وہ شام یاد آ گئی جب میاں عامر محمود صاحب نے مجھے اپنے اُردو اخبار روزنامہ دنیا میں کالم لکھنے کو کہا۔ مجھے اس دن یوں لگا جیسے یہ میرے دل کی آواز ہے۔ اس سے پیشتر میں تقریباً دو دہائیوں سے انگریزی اخبارات میں کالم لکھ رہا تھا۔ اتنا عرصہ مسلسل لکھنے کے بعد انگریزی میں لکھنا میرے لیے روز مرہ کی بات ہو گئی تھی۔ اب اچانک اردو میں لکھنے کا سفر آسان نہ تھا۔ میرے لیے اردو کالم لکھنے کے سفر میں تین بڑی مشکلات تھیں۔ پہلی یہ کہ میرا پس منظر انگریزی ادب کا تھا اور انگریزی میں لکھنا میرے لیے سہل تھا۔ اردو میں لکھنا نسبتاً مشکل تھا۔ میری دوسری مشکل یہ تھی کہ اردو میں زیادہ تر کالم سیاسی ہوتے ہیں اور ذاتی طور پر میری ترجیح غیر سیاسی موضوعات تھے۔ میری تیسری مشکل یہ تھی کہ اردو میں لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد کالم نگاری میں طبع آزمائی کر رہی تھی اور ان میں بہت سے سر بلند کالم نگاروں کے نام شامل تھے۔ مجھے یہ ڈر تھا کہ ان قد آور کالم نگاروں کی آوازوں میں میری آواز گم نہ ہو جائے۔ میرے لیے ابتدا ہی سے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ اگر کالم میں سیاست پر نہیں لکھنا تو اس کا بدل کیا ہونا چاہیے۔ غیر سیاسی کالم کے قارئین کون ہوں گے؟
پھر میں نے خود کو تسلی دی کہ جس طرح ہر ایک کے پاس اپنی کہانی ہوتی ہے میرے پاس بھی اپنی کہانیاں ہیں جن میں تعلیم‘ زبان‘ ادب‘ تاریخ‘ گاؤں‘ فلم‘ ریڈیو‘ سینما‘ سامراج‘ مزاحمت‘ اردگرد کے عام لوگ‘ تاریخ میں سانس لیتی عمارتیں اور آزادی کی نیلم پری کی تلاش میں اپنی جانیں وارتے ہوئے کردار۔ کیا ضروری ہے میں بھی سیاست پر لکھوں؟ یوں میرا اردو کالم نگاری کا سفر شروع ہوا۔ اس سفر کی کئی پگڈنڈیوں پر میں نے سفر کیا۔ ان میں سے ایک پگڈنڈی مجھے تاریخ کے اُن دنوں تک لے گئی جب ہندوستان کی تقسیم ہو رہی تھی جس کے نتیجے میں سرحد کے دونوں طرف لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے ہجرت کی۔ یہ ایک غیر معمولی تجربہ تھا۔ ان میں بہت سے افرد ایسے تھے جن کا تعلق فن کی دنیا سے تھا‘ جو پیدا تو ان شہروں اور قصبوں میں ہوئے جو اَب پاکستان کا حصہ ہیں لیکن جنہیں تقسیم کی لہر سرحد پار لے گئی اور جنہوں نے فن کی دنیا میں نام کمایا۔ ان میں اداکار‘ فلم ساز‘ شاعر‘ ادیب‘ نغمہ نگار‘ گلوکار‘ کلاسیکی موسیقی کے استاد‘ جدید موسیقی کے پیشرو‘ مصور اور ماہرینِ تعمیرات شامل تھے۔ ان فنکاروں کے احوال میں قدرِ مشترک ہجرت ہے۔ یہ ان کی زندگیوں کا ایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا جس کی کسک تمام عمر اُن کے ساتھ رہی۔ اس کسک کو آپ ان کی زندگیوں اور فن میں محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ فنکار دولت‘ شہرت اور عزت کی اُن بلندیوں پر پہنچے جس کی خواہش ہر کسی کو ہوتی ہے لیکن شہرت کی چکا چوند روشنیوں اور پرستاروں کی بھیڑ میں رہتے ہوئے بھی ان کی زندگیوں میں کوئی کمی تھی۔ اس کمی کا تعلق ان کی زندگی کے ان شب وروز سے تھا جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ اپنے بچھڑے ہوئے شہروں‘ قصبوں‘ محلوں اور گھروں اور دوستوں کی یادوں نے انہیں ہمیشہ بے چین رکھا۔ ان گلی کوچوں اور دوستوں کی خوشبو تمام عمر انہیں اپنی طرف بلاتی رہی۔
''آسماں در آسماں‘‘ کی ابتدا روزنامہ دنیا کے انہی صفحات میں ہوئی جب میں نے اپنے شہر راولپنڈی کے خواب ہوتے گلی کوچوں اور دلبروں کے بارے میں لکھنا شروع کیا۔ گورڈن کالج‘ جہاں سے میں ایم اے انگلش کر رہا تھا‘ سے کچھ فاصلے پر بلراج ساہنی اور بھیشم ساہنی کا گھر تھا۔ اس گھر کے سامنے سے میں کتنی ہی بار گزرا تھا۔ تب ایک دن میرے دل میں خواہش کی ایک کونپل کِھلی کہ کیوں نہ ان فنکاروں کے بارے میں لکھا جائے جو انہی گلی کوچوں میں پیدا ہوئے لیکن تقسیم کی لہر انہیں سرحد پار لے گئی۔ بلراج ساہنی اور بھیشم ساہنی سگے بھائی تھے جنہوں نے اداکاری اور ادب کے شعبوں میں نام کمایا۔ کچھ ہی دور مسجد کیلیانوالی کی گلی میں آنند بخشی کا گھر تھا۔ وہی آنند بخشی جس نے بالی وُڈ میں بطور نغمہ نگار اپنا سکہ جمایا اور فلموں کے لیے تین ہزار سے زیادہ گیت تخلیق کیے۔ اسی راولپنڈی میں نغمہ نگار شلیندر کا بھی گھر تھا جس نے منفرد گیت نگاری سے بالی وُڈ میں اپنا خاص مقام بنایا۔ اسی طرح میرے شہر راولپنڈی میں پروفیسر موہن سنگھ کا گھر تھا جو جدید پنجابی شاعری کا پیشرو تھا۔
ان لوگوں کی کہانیاں اتنی دلچسپ تھیں کہ میں نے سوچا مجھے اس کینوس کو وسیع کر کے پاکستان کے سب شہروں کو شامل کرنا چاہیے۔ فلم اور اداکاری کے شعبے میں دل سکھ پنچولی‘ پرتھوی راج‘ بلراج ساہنی‘ شیام‘ پران‘ سنیل دت‘ دلیپ کمار‘ دیو آنند‘ راج کپور‘ راج کمار‘ کامنی کوشل‘ پریم چوپڑا‘ منوج کمار‘ ونود کھنّہ اور کبیر بیدی کے نام شامل تھے۔ نثر کے میدان میں دیوان سنگھ مفتون‘ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر‘ کنہیا لال کپور‘ کرشن چندر‘ بھیشم ساہنی‘ راجندر سنگھ بیدی‘ خوشونت سنگھ‘ بلونت سنگھ‘ دیوندر اِسّر اور سریندر پرکاش جیسے لوگ تھے۔ شاعروں میں تلوک چند محروم‘ موہن سنگھ‘ میرا جی‘ راجہ مہدی علی خان‘ جگن ناتھ آزاد‘ امرتا پریتم اور شِو کمار بٹالوی شامل تھے۔ نغمہ نگاروں میں ساحر لدھیانوی‘ شلیندر‘ آنند بخشی اور گلزار تھے۔ موسیقاروں میں استاد بڑے غلام علی خان‘ روشن‘ مدن موہن اور اوپی نیّر جیسے فنکار تھے۔ گلوکاروں میں شمشاد بیگم‘ سی ایچ آتما‘ محمد رفیع‘ سریندر کور اور ثریا شامل تھے۔ میں نے انہی صفحات میں ان شخصیات پر لکھا جسے قارئین نے پسند کیا۔ تب میں نے سوچا کیوں نہ ان تحریروں میں ضروری تبدیلیاں اور اضافے کر کے کتابی شکل میں محفوظ کر دیا جائے۔ یوں ''آسماں در آسماں‘‘ کتاب کی تکمیل ہوئی۔ یہ اس لحاظ سے ایک منفرد کتاب ہے جس میں پہلی بار پاکستان سے ہجرت کرنے والے فنکاروں کا تذکرہ ایک جگہ ملتا ہے۔ اس سے پہلے ان لوگوں کی انفرادی کہانیاں یا ایک خاص شہر‘ علاقے یا صوبے سے ہجرت کرنے والے فنکاروں یا پھر فن کے ایک مخصوص شعبے سے تعلق رکھنے والوں کا احوال تو ملتا ہے لیکن اس کتاب میں پہلی بار فن کے مختلف شعبوں اور پاکستان کے صوبوں (سندھ‘ پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان) سے تعلق رکھنے والے ان فنکاروں کی کہانیاں ہیں جو یا تو ان علاقوں میں پیدا ہوئے جو بعد میں پاکستان کا حصہ بنے یا جن کی زندگی کا تشکیلی (formative) حصہ یہاں گزرا جس دوران ان کی شخصیت کی تخلیقی تشکیل (Creative formation) ہوئی۔
کتاب میں شامل ناموں کی یہ فہرست کسی طور مکمل نہیں۔ یوں بھی ایک مکمل فہرست کا دعویٰ کرنا ناممکن ہے۔ ان ناموں کے علاوہ بھی بہت سے ایسے نام ہیں جو اس کتاب میں شامل نہیں ہو سکے۔ ان سب فنکاروں کی کہانیاں ایک کتاب میں نہیں سما سکتیں۔ اس کے لیے کئی جلدوں (Volumes) کی ضرورت ہے۔ یہ اس سلسلے کی پہلی کتاب ہے۔ آنے والے Volumes میں ان فن کاروں کا تذکرہ ہو گا جو اس Volume میں شامل نہ ہو سکے۔
''آسماں در آسماں‘‘ ان لوگوں کے لیے ایک ابتدائی دستاویز ہے جو فلم‘ ادب‘ شاعری‘ مصوری‘ موسیقی‘ تاریخ اور ہجرت کے موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں شامل تحریروں کا اپنا خاص مزاج اور اسلوب ہے۔ یہ تحریریں نہ تو محض تاریخ ہیں نہ افسانہ‘ نہ صرف یاد نگاری نہ ہی خاکہ نگاری بلکہ یہ ان سب کا امتزاج ہیں۔ ''آسماں در آسماں‘‘ میں شامل کرداروں میں ایک چیز مشترک ہے جو ان کو ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہے‘ وہ ہے ہجرت کا دل گداز تجربہ اور اس تجربے سے جُڑی ہوئی وہ یادیں جنہوں نے ان کرداروں کو تمام عمر بے چین رکھا۔